صاحبو! اللہ کے اس نگری کی بہت سی باتیں سمجھ نہیں آتیں۔ کچھ قصور ہماری سمجھ کا بھی ہے کہ ہر معاملے پر غور فرمانا شروع کر دیتی ہے۔ ہمارے شاہ صاحب فرمایا کرتے ہیں کہ بات دو دعوئوں کے درمیان کہیں چھپی ہوتی ہے، ایک وہ جو بہت کچھ جانتا ہے، مگر انکسار میں کچھ نہ جاننے کا دعویٰ کر دیتا ہے، دوسرا وہ جو کچھ نہیںجانتا، مگر سب جاننے کا جھوٹا دعویٰ کر ڈالتا ہے۔ خیر یہ بات تو روحانیت کے زمرے میں تھی، ہم اسے کبھی کبھار دنیاوی معاملات پر بھی فٹ کر ڈالتے ہیں۔
جو باتیں ہمیں بچپن سے آج تک سمجھ نہیں اآئی وہ یہ کہ خواتین اس قدر فراوانی سے گرم مسالہ جات کا کھانوں میں استعمال کیوںکرتی ہیں؟ والدہ کے ہاتھ کے بنے کھانے خاندان میں مشہور تھے۔ پلاؤ وہ کمال کا بناتی تھیں، مرغ پلائو، کوفتہ پلائو، سبزی پلائو اور کبھی صرف مٹر پلائو۔ آج وہ کھانا بنانا چھوڑ چکیں، مگر ان کے ہاتھ کا بنا پلائو، کباب اور سری پائے کہیں اور سے نہیں کھا سکا۔ خاص کر پلائو کا الگ ہی کچھ ذائقہ تھا۔ اس پلائو میں ایک بات بڑی کھلتی کہ لونگ یا کالی مرچ ثابت دانتوں تلےآجاتی، میں ہمیشہ اس پر تلملاتا اور اعتراض کرتا کہ اسے کیوںڈالا جاتا ہے۔ اس اعتراض پر کبھی کسی نے کان نہیں دھرے۔ والد ہمیشہ یہ کہتے کہ کھالو، مفید ہے، والدہ ناک بھوں چڑھائے دیکھتیں تو کہہ دیتیں کہ چمچ سے پلیٹ میں ایک طرف رکھ دو۔ میرا اعتراض ہمیشہ یہی ہوتا کہ جس کا پتہ نہیںچلے گا، اس کا کیا کریں، وہ تو دانتوں تلے آ کر سارا مزا کرکرا کر دے گا۔
اس بھوت نے زندگی بھر تعاقب کیا۔ زندگی نے باہیں کھول کر استقبال کیا۔ بہت سے اکرام کرنے والوں، پیار کرنے والے گھرانوں سے تعلق جڑا۔ محبت سے وہ کھانے پر بلاتے، یہ احساس بھی ہوگا کہ پردیسی ہے، گھر سے سینکڑوں میل پڑھنے آیا یا ملازمت کر رہا ہے۔ اس کم بخت مارے لونگ نے ہر جگہ ہمارا پیچھا کیا اور عین اس لمحے جب ہم کسی شاندار پلاؤ یا عمدہ بریانی کی تعریف کے لیے موزوں لفظ ڈھونڈ رہے ہوتے، اسی وقت یہ دانتوں تلے آ کر سب مزا کرکرا کر دیتا۔ کھیر میں پڑی الائچی عجب بےمزا کر دیتی، دال میں پڑے لہسن کے ٹکڑے خوفزدہ کر دیتے۔ لہسن اس فقیر کو اس قدر ناپسند ہے کہ جب دو تین سال پہلے بلڈ پریشر کا عارضہ لاحق ہوا تو ایک دوست نے ایک لہسن کی پھلی روزانہ نگلنے کا مشورہ دیا، اس کے بقول یہ مرض ختم ہوجائے گا۔ پہلے ہی دن ایسا کرنے کی ناکام کوشش کی اور پھر فیصلہ کیا کہ لذیذ کھانے کھاتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوجانا بہتر ہے لہسن نگلنے اور کڑوے بد ذائقہ شربت پینے سے۔ ع
اے ذوق کسی ہمدم سے ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
اس مصرع میں ہمدم کی جگہ مزے دار کھانا لگا دیا جائے۔
کراچی میں قیام کے دوران اور بعد میں لاہور میں بھی اس شے سے واسطہ پڑا، جسے بریانی کہہ کر پکارتے ہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ اس کافر کے عشق میں بہتیرے گرفتار ہیں اور ایسے بھی کئی جو بریانی کی بےعزتی پر ہتھیار اٹھا کر پیچھے بھاگ پڑیں۔ یارو! یہ اعتراف کرنے دو کہ بریانی نے اکثر و بیشتر مایوس ہی کیا۔ اس میں ایک تہائی سے نصف تک کا حصہ تو نکالنا ہی پڑتا ہے۔ آلو املی، انار دانہ، کڑی پتہ، بڑی الائچی، لونگ وغیرہ اور پتہ نہیں کون کون سی لکڑیاں سی اور عجیب معجون ٹائپ مسالے ڈال دیے جاتے ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی؟ ہماری چوائس تو پلاؤ ہے، صاف ستھرا، جگمگاتا ہوا، ایک ایک دانہ الگ، لذت میں ڈوبا ہوا۔ ایک ان گرم مسالوںکو کچھ کر لیا جائے تو پھر پلاؤ میرے حساب سے جنت الفردوس اعلیٰ کی خاص ڈشز میں شامل ہو سکتا ہے۔
تو صاحبو! یہ بتانا ضروری ہے کہ ہم خواتین کا ازحد احترام کرتے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ کائنات میں انہی کے دم سے رونق، رنگ سب کچھ ہے۔ ہماری اپنی زندگی میں جو ایک عدد خاتون خانہ پائی جاتی ہیں، انہوںنے تمام رنگ، خوبصورتیاں اور ذائقے بھر دیے ہیں، یہاں تک کہ ہماری محبت میں چور چور ہو کر وہ اب پسا ہوا مسالہ ڈالنے لگی ہیں، اس لیے اس شکوے کو ذاتی شکوہ نہیں بلکہ مردوں کی اکثریت کی طرف سے کیا جانے والا شکوہ تصور کیا جائے۔
آج ہی فیس بک پر ایک سٹیٹس دیکھا جو سیدھا دل میں ترازو ہوگیا۔ اس کی چند سطریں دینا ضروری ہے کہ شکوے کی جو شدت اور حدت اس میںپائی جا رہی ہے، امکان غالب ہے کہ ہماری عورتوں کے گداز دلوں پر وہ اثرانداز ہوگی۔
’’ کیا عورتیں نے یہ کبھی سوچا ہے کہ وہ تمام الائچیاں جو انہوں نے کھیر میں ڈالیں، وہ تمام لونگ اور کڑھی پتے جو بریانی کھاتے مردوں کے منہ میں آئے، وہ میوے جو حلوے اور عید کی کھیر میں پڑے، وہ سوکھا دھنیا جو انہوں نے کبابوں میں ڈالا، وہ ثابت کالی مرچ جو پلاؤ سے برآمد ہوئی، وہ آئس کریم کے ڈبے جن میں انہوں نے ادرک اور لہسن کا پیسٹ بھر کر فریزر میں رکھا اور وہ چاکلیٹ باکس جن میں سوئی دھاگے پائے گئے۔ یہ سب چیزیں پل صراط پر ان عورتوں کے پیروں سے لپٹیں گی اور کہیں گی کہ میں وہی الائچی ہوں جس نے کھیر کھاتے تیرے مرد کا سارا مزہ برباد کر دیا تھا اور میں وہ سوکھا دھنیا ہوں جس نے تیرے شوہر کا کبابوں کا شوق ختم کردیا تھا اور میں وہی کالی مرچ ہوں جو کھانے کے آخری لقمے میں اس غریب کے منہ میں آئی تھی۔ آج میں تجھے اس پل صراط سے خیریت سے گزرنے نہیں دوں گی۔ کیا عورتوں نے کبھی اس بارے میں سوچا ہے۔ (منصور احمد)‘‘
تبصرہ لکھیے