ایک عرصے سے آپ میڈیا اور خاص کر سوشل میڈیا پر لفظ ’لبرل‘ سنتے آرہے ہوں گے لیکن اس لفظ کا حقیقی مطلب و معنی کا ذکر شاز و نادر ہی کہیں کیا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن کے ذہن میں ایک زمانے سے بارہا یہ سوال ابھرتا چلا آ رہا ہے کہ آخر لبرل کہتے کسے ہیں؟ وہ کون لوگ ہیں کہ جنہیں دنیا لبرل جیسے دل ربا خطاب سے نوازتی ہے؟ ان کے عقائد و مقاصد کیا ہوتے ہیں؟ اور کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ سوال بھی ضرور پیدا ہوتا ہوگا کہ ان کا دین ایسے لوگوں کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ تو ایسے لوگوں کے لیے جو ان تمام سوالوں کے جواب جاننے کی آرزو رکھتے ہیں، یہ حقیر سی ایک تحریر شاید ان کے تجسس میں کچھ کمی کا باعث بن سکتی ہے۔
لفظ ’لبرل‘ کے لفظی معنی ہیں آزاد خیال۔ اس لفظ کو مختلف جگہوں پر مختلف معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے کہ ایک اسکول میں قائم حاضری کے نظام کو فرض کریں۔ اس اسکول میں ایک ایسا ٹیچر جو حاضری کے معاملے میں لبرل سوچ رکھتا ہو، وہ اپنے شاگردوں کی غیر حاضری کو نظرانداز کرنے کا قائل ہوگا۔ یعنی وہ انہیں اسکول سے غیر حاضری پر سخت جواب طلبی کے بجائے یہ آزادی فراہم کرے گا کہ اس کے شاگرد جب چاہیں اسکول سے غیر حاضر ہوجائیں۔ اسی طرح اس لفظ کو دوسری جگہ دوسرے معنوں میں سمجھا جاتا ہے لیکن ان میں کچھ بنیادی باتیں ہوتی ہیں۔ جیسے ایک لبرل سوچ رکھنے والا شخص دوسروں کے ’نئے‘خیالات اور نظریات کو اپنے اندر ڈھالنے کا حامل ہوتا ہے۔ چاہے ان نظریات کو معاشرے میں تنقید کی نگاہ سے ہی کیوں نہ دیکھا جاتا ہو۔ غرض ایک لبرل سوچ رکھنے والے فرد کا ذہن معاشرتی اقدار و روایات سے آزاد ہوتا ہے۔
اب بات کرتے ہیں ایک اور اہم اصطلاح کی جسے لبرل کے ساتھ ساتھ کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے، وہ ہے ’لبرلزم‘۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ کسی بھی لفظ کے ساتھ ’ازم‘ یا ’ism‘ کا اضافہ کردیا جائے تو یہ اس لفظ کے عقیدے، سوچ یا نظریے کو ظاہر کرتا ہے۔ جیسے کہ کمیونزم، ٹیررازم، ایکٹیوازم، سوشلزم وغیرہ۔ لبرلزم بنیادی طور پر ایک ’سیاسی فلسفہ‘ ہے جس کی بنیاد دو نظریات پر قائم ہے۔ ایک Liberty یعنی آزادی اور خودمختاری، جب کہ دوسرا Equality جس کا مطلب ہے برابری یا مساوات۔ ان دونوں نظریات کی بنیاد پر لبرلزم کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک کلاسیکل لبرلزم جو کہ Liberty کے نظریے پر قائم ہے اور دوسرا سوشل لبرلزم جس میں Equality کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ یہ دونوں نظریات دنیا پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ معاشرے میں ہر فرد آزاد ہے اور آزادانہ خیالات کا حامل ہو سکتا ہے۔ نہ صرف حامل ہوسکتا ہے بلکہ وہ ان آزادانہ خیالات کا اظہار دوسروں کے سامنے کھل کے کر سکتا ہے۔ چاہے وہ کسی بھی مذہب یا معاشرتی اقدار کے برعکس اور برخلاف ہو۔ آج کا آزادانہ میڈیا اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ جس کی آزادی کا نعرہ کلاسیکل لبرلزم لگاتی ہے اور کہتی ہے کہ میڈیا کو سب کچھ دکھانے اور سنانے کا اختیار ہونا چاہئے، چاہے کوئی مذہب اس بات کی اجازت دے یا نہ دے۔ اسی طرح سوشل لبرلزم کہتی ہے کہ معاشرے میں مرد و عورت کو برابر کے حقوق ملنے چاہییں۔
یہ وہ بنیادی عقائد ہیں جن کی بنیاد پر لبرلزم کو تخلیق کیا گیاہے۔ وہ لوگ جو ان عقائد کو مانتے ہیں ،انہیں ’لبرل‘ کہتے ہیں۔ لبرل خواتین و حضرات دنیا میں پائے جانے والے ہر اُس نظریے کو مانتے ہیں کہ جن کی بنیاد ان دواصولوں (Libertyاور Equality) پر مبنی ہو۔ جیسے کہ اظہار رائے کی آزادی، میڈیا کی آزادی، مذہب کی آزادی، سیکولر حکومت، جنسی برابری، جمہوری معاشرتی نظام وغیرہ وغیرہ۔
اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اسلام لبرلزم کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ اسلام انسانوں کو زندگی کے مختلف معاملات میں کتنی آزادی فراہم کرتا ہے؟ اوراسلام نے مرد و عورت کے مساوات کے بارے میں کیا اصول بیان کے ہیں؟
لبرلزم کے نظریے کے مطابق ہر انسان آزاد ہے اور اپنی مرضی اور آزادی سے زندگی گزارنے کا حق رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ دنیا کا کوئی قانون اس کی آزادی کا حق نہیں چھین سکتا یعنی اس کے ساتھ کوئی روک ٹوک والا معاملہ نہ ہو۔ اگر وہ بذات خود اپنے لے کوئی قانون بناتا ہے تو وہ اس قانون کی پاسداری اس پر لازم ہوگی۔ اب یہ فطری سی بات ہے کہ انسان کا اپنا بنایا ہوا قانون بھی اس کی اپنی خواہش کے عین مطابق ہی ہوگا۔ جیسے فرض کریں کسی ملک کا یہ قانون ہو کہ اس ملک میں شراب کی خرید و فروخت اور استعمال کی اجازت ہو اور ساتھ ساتھ یہ پابندی بھی ہو کہ شراب نوشی کی حالت میں ڈرائیونگ نہ کی جائے۔ ان دونوں فیصلوں میں انسانی خواہش کا بڑا عمل دخل ہے۔ یعنی انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ شراب پیے تو اس نے ایسا قانون بنا لیا جس میں اسے اس کام میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے موت کا ڈر بھی ہے یعنی وہ زندہ رہنا چاہتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ اگر وہ شراب نوشی کی حالت میں ڈرائیونگ کرے گا تو وہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو سکتا ہے۔ تو اس نے یہ قانون بھی وضع کر دیا کہ کوئی شراب نوشی کی حالت میں ڈرائیونگ نہ کرے۔ غرض انسان کا بنایا ہوا ہر قانون اس کی دنیاوی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔
اب آتے ہیں دوسری طرف کہ اسلام انسان کو کتنی آزادی دینے کا حامل ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اس دنیا میں ایک خدا کی حاکمیت قائم کریں۔ایک خدا کی حاکمیت قائم کرنے کا مطلب یہ ہے اس دنیا میں جتنے بھی انسان بستے ہیں وہ سب زندگی کے ہر معاملے میں اس ایک خدا کے بنائے ہوئے اصولوں کے تابع ہوجائیں۔ اسلام کا ماننا ہے کہ وہ تمام اصول اُس خدا نے ایک کتاب کی صورت میں انسانوں کو فراہم کر دیے ہیں۔ اب اس کتاب کامجموعی جائزہ لیا جائے تو اس میں دو طرح کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔ ایک محکمات اور دوسرا معاملات۔ محکمات میں مذہبی امور پہ بحث کی گئی ہے جبکہ معاملات میں دنیاوی حوالوں کے بارے میں رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ محکمات میں انسانوں کو کچھ باتوں کا پابند کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ اس بات کی تنبیہہ بھی کی گئی ہے اسے جتنا حکم دیا گیا ہے اسے بغیر کسی کمی بیشی کے ادا کرنا ہے یعنی جتنا کہا گیا ہے اتنا ہی کرنا ہے اور جو نہیں کہا گیا اس سے دور رہنا ہے۔ مثال کے طور پہ اسلام کہتا ہے کہ فرض نماز میں چار رکعتیں ادا کی جائیں تو اس کے ماننے والوں پہ یہ لازم ہے کہ وہ چار ہی ادا کرے نہ کہ تین یا پانچ۔ اسی طرح معاملات میں انسانوں کو کچھ باتوں سے منع کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ اس بات کی آزادی دی گئی ہے کہ وہ ان منع کردہ باتوں کے علاوہ دنیا کے ہر معاملے میں آزاد ہے۔ مثلاًاسلام نے انسانوں کو شراب نوشی سے منع کیا ہے ۔ اب ایک انسان کو اس بات کی آزادی ہے کہ وہ منع کردہ مشروب کے علاوہ دنیا کی ہر مشروب کا استعمال کر سکتا ہے۔ اب لبرلزم یہ کہتی ہے کہ انسانوں کو کسی بات کا پابند نہ کیا جائے۔ جبکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ اس نے یہ پابندی خود انسانوں کی بھلائی کے لیے لگائی ہے۔ ضروری نہیں کہ انسان جو خواہش کرے وہ اس کے لیے فائدہ مند بھی ہو۔ آج کی سائنس نے بھی یہ واضح کیا ہے کہ شراب نوشی انسانی جسم کے لیے نقصان دہ ہے۔ غرض کہ اسلام نے انسانوں کو ہر اس کام کےلیے آزادی فراہم کی ہے جس سے اس کی ذات کو براہ راست یا بالواسطہ کوئی نقصان نہ ہو۔
اب آتے ہیں لبرلزم کے دوسرے پہلو کی طرف یعنی مردو عورت کے مساوات کے بارے میں اسلام کی کیا رائے ہے۔ لبرلزم یہ کہتی ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں عورتوں کو بھی وہی حقوق دیے جائیں جو مردوں کو دیے گئے ہیں۔ جبکہ اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی کے کچھ معاملات میں مردوں کو عورتوں پر ترجیح دی گئی ہے، کچھ جگہوں کو دونوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کیا ہے جبکہ بعض مقامات میں عورتوں کو مردوں سے بلند درجہ دیا گیا ہے۔ ان دونوں نظریوں کا تقابلی جائزہ سائنسی نقطہ نظر سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ سائنس یہ کہتی ہے کہ قدرت سے مردوں کوعورتوں کے مقابلے میں سخت جان بنایا ہے، جسمانی طور پر بھی اور ذہنی طور پر بھی۔ آپ کے مشاہدے میں یہ بات رہی ہوگی کہ اس دنیا میں جتنے بھی ایسے کام جس میں سخت محنت درکار ہوتی ہے، مرد ہی سرانجام دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر کھدائی اور بھٹی میں کام کرنے والے لوگ مرد ہی ہوتے ہیں۔ اب ایک لمحے کےلیے تصور کریں اور سوچیں کہ اگر ان مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی کھڑا کر دیا جائے تو کیا یہ ان عورتوں پہ ظلم نہ ہوگا؟ اسی طرح سائنس یہ کہتی ہے کہ عورتوں میں ڈپریشن کی شرح مردوں کی نسبت دوگنا ہے یعنی مردوں میں حالات کی سختی برداشت کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے زندگی کے ہر معاملے میں سربراہ کے لیے مرد کا انتخاب کیا ہے کیونکہ ان میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ فطری طور پربھی لیڈر اسی کو تسلیم کیا جا تا ہے جسے ہر حوالے سے سب پہ برتری حاصل ہو۔ آپ ایک مشاہدہ یہ بھی کریں کہ کسی بھی کمپنی کے اعلیٰ عہدوں کیلئے مردوں کو ہمیشہ فوقیت دی جاتی ہے کیونکہ ان میں کاروباری اتار چڑھائو میں دبائو کے ہوتے ہوئے بروقت اور صحیح فیصلہ کرنے کی اہلیت ہوتی ہے۔ اسی طرح اسلام یہ کہتا کہ علم حاصل کرنے کا حق مرد وں اور عورتوں دونوں کےلیے ایک جیسا ہے یعنی یہاں اسلام دونوں میںمساوات کا قائل ہے۔ اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ معاشرے میں عورتوں کو مردوں کی نسبت زیادہ عزت دی جائے یعنی اس مقام پہ اسلام نے عورتوں کی برتری کو فوقیت دی ہے اور اس کو ایک اعلیٰ اور پروقار مقام عطا کیا کیا ہے۔ اگر یہاں لبرلزم کے Equality کے اصول کو لاگو کیا جائے تو کیا یہ عورتوں کی توہین نہیں ہوگی؟
اب تک کی تحریر اور تجزیے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لبرلزم دراصل انسانوں کا بنایا ہوا فلسفۂ حیات ہے جبکہ اسلام کے اصول ایک ایسے خدا نے بنائے ہیں جس نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے۔ انسانوں کا بنایا ہوا کوئی بھی قانون اپنے اندر کاملیت کی صفات ہرگز نہیں رکھ سکتا جبکہ خدا کے بنائے ہوئے تمام اصول فطرت کے عین مطابق ہیں جسے آج کی سائنسی دنیا نے بھی تسلیم کیا ہے۔ اگر انسان اپنے ہی بنائے ہوئے ایسے قانون کی پاسداری کرتا ہے جو فطرت کے اصولوں کے خلاف ہے تو وہ اپنی تباہی کو خود دعوت دے رہا ہوتا ہے۔ ہم نے اپنے معاشرے میں روز مرّہ کی زندگی میں بھی بہت سے ایسے اصول نادانستہ طور پر وضع کر لیے ہیں جو لبرلزم کے ان دو اصولوں کے تابع ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان کی نشاندہی کر کے اپنی زندگی کو فطرت کے اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ آج کے اس دور میں شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کے اس فلسفہ کو سمجھنے اور اس پر عمل کر کے ہی ہم ایک کامیاب معاشرے کی تشکیل کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔
مجھے تہذیب ِ حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی، ہے باطن میں گرفتاری
تو اے مولائے یثربؐ آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی، مرا ایمان ہے زنّاری
تبصرہ لکھیے