ہوم << بحران اور سوشل میڈیائی دانشور - محمد بن کامران

بحران اور سوشل میڈیائی دانشور - محمد بن کامران

محمد بن کامران یوں تو پاکستان کسی نا کسی بحران میں گِھرا رہتا ہے۔ توانائی کا بحران، پٹرول اور گیس کا بحران، ویسے لیڈرشپ، برداشت، انسانیت، اخلاقیات کا بحران بھی شدت سے جاری ہے، پاکستان نہ ہوا بحرانستان ہوگیا، مگر ان تمام بحرانوں کے باوجود پاکستان نے ایک شعبے میں بےحد ترقی کی ہے۔ جی ہاں! یہ شعبہ ہے دانشوری کا۔ ہمارے ہاں اتنے مسائل نہیں پائے جاتے جتنے ان پر اپنی دانش کے موتی بکھیرنے کے لیے دانشور پائے جاتے ہیں۔ دانشوری کے اس شعبے میں پاکستان دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے، جس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ شعبہ ابھی تک حکومتی سرپرستی سے محروم ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس شعبے کی سرپرستی کرے، اس سے اور کسی کو ہو نہ ہو، عوام کو فائدہ ضرور ہوگا۔ ویسے بھی ہر وہ ادارہ خسارے میں چلا جاتا ہے جس کے ساتھ قومی لگا دیا جائے اور جس کثرت سے ہمارے ہاں دانشور پائے جاتے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ دانشوروں کی برآمدات پر توجہ دے، اس سے ملکی خزانے کو فائدہ ہو نہ ہو دانشور خریدنے والے کا بیڑہ ضرور غرق ہی ہو جائے گا۔ یوں تو دانشوروں کی کئی اقسام ہیں، معیشت، دفاع، کھیل، مذہب اور سیاست پر تجزیہ کرنے والے دانشور حضرات تو اپنے اپنے شعبے کے ماہر ہوتے ہیں مگر دانشوری کی ایک قسم ایسی بھی ہے جس میں دانشور ہر شعبہ زندگی پر مکمل اور یکساں عبور رکھتے ہیں۔ آپ بھی سوچ رہے ہیں ہوں گے بھئی ایسا کون سا دانشور ہے جسے ان تمام شعبوں پر مکمل عبور حاصل ہے۔ سوچیں اورسوچیں، نہیں معلوم تو ہم بتا تے ہیں آپ کو، یہ دانشور ہیں جناب عزت ماب سوشل میڈیائی دانشور صاحب۔ ان کو سیاست ، کھیل، دفاع، مذہب، معیشت اور زندگی کے تمام شعبوں پر معجزاتی طور پر دسترس حاصل ہے۔
شاعر مشرق نے فرمایا تھا کہ ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی، اور سوشل میڈیا نے جناب دانشور صاحب کو یہ نمی فراہم کر ہی دی ہے، اس لیے دانشور صاحب کی عقابی نظروں سے کوئی بھی مسئلہ اوجھل نہیں رہتا۔ جناب سوشل میڈیائی دانشور صاحب نہایت باکمال اور کامیاب ترین انسان ہیں، ان کی کامیابی ایک راز تو یہ ہے کہ اچھے بھلے باشعور لوگ بھی ان کی خرافاتی باتوں میں آکر اش اش کر اٹھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جناب کا شمار سوشل میڈیا کی عظیم ترین اور ناقابل فراموش ہستیوں میں ہوتا ہے، سیاست کے بارے میں ان کی دانشورانہ رائے جامع اور واضح ہے، ان کے نزدیک وہی سیاست دان عظیم لیڈر ہے جو ان کا اپنا قائد ہے یا جو انہیں ذاتی طور پر پسند ہے، ان کی ماہرانہ رائے میں وہ تمام سیاسی لیڈر اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں کے ٹٹو ہیں جو ان کے قائد یا پسندیدہ لیڈر کے خلاف ہیں۔ جمہوریت کو اپنے خلاف کوئی سازش نظر آئے نہ آئے، انہیں ضرور آجاتی ہے۔ ان کی جماعت اگر حکومت میں ہو تو ان کی جماعت اور سیاسی نظریات کے مخالف تمام سیاستدان کرپٹ، نااہل اور جمہوریت کے غدار ہیں اور اگر اپوزیشن میں ہو تو حکومت نااہل، کرپٹ اور پالیساں عوام اور ملک دشمن ہیں۔
مذہب کے معاملے میں ان کی رائے عجیب ہے، جسے سمجھنے کے لیے فرشتوں کو زمین پر آنا پڑے گا۔ یہ مسلکی مسلمان ہیں، اپنے مسلک کے معاملے میں انتہاپسند واقع ہوئے ہیں، ان کے اپنے مسلک کے سوا باقی تمام ظالم اور جہنمی ہیں، اور موصوف دانشور کا مسلک جنتی اور مظلوم، کسی بھی مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینا ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا، ان کو مذہب کی وہی تشریح پسند ہے جو مولوی کی طرح ان کے اپنے مفاد میں ہو۔ سوشل میڈیائی دانشور صاحب بیک وقت لبرل بھی ہوتے ہیں، سیکولر بھی، دہشت گردی کا واقعہ کہیں بھی ہو یہ اس کا تعلق اسلام اور مسلمانوں سے جوڑنا ثواب سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں تمام برائیوں کی جڑ مسلمان اور خاص کر داڑھی والے ہیں، ان کے نزدیک وہی مسلمان اچھا ہے جو ان کے خیالات سے ان سے بھی زیادہ متفق ہو۔ کسی بھی سانحہ کے بعد یہ انسانیت کا درس دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر مرنے والوں کے نام علامتی موم بتی روشن کرتے ہیں۔ یہ انسانیت کے اس درجے پر فائز ہیں کہ پتہ ہی نہیں کہ کس درجے پر فائز ہیں۔
دفاعی تجزیہ نگار تو یہ کمال کے ہیں، انہیں فوج اور ایجنسیاں ہمیشہ جمہوریت کے خلاف سازش کرتی نظر آتی ہیں۔ ویسے تو قومی اداروں کا بہت احترام کرتے ہیں مگر ان کے نزدیک ادارہ وہی قابل احترام ہے جسے یہ قابل احترام سمجھتے ہیں۔ ان کی ماہرانہ رائے میں پاکستان میں ہونے والی تمام برائیوں کی جڑ دفاعی ادارے ہیں، میرا اکثر دل چاہتا ہے کہ انہیں ان کے عظیم خیالات کی وجہ سے اکیس توپوں کی سلامی پیش کروں مگر چھوٹی سی شرط ہے اس کے لیے انہیں توپ کے آگے کھڑا ہونا ہوگا۔ وہ الگ بات ہے کہ گھر میں ان کو کسی ضروری بات اوراہم فیصلے کے وقت یہ کہہ کر کمرے سے نکال دیا جاتا ہے کہ چلو شاباش باہر جا کر کھیلو، یہاں بچوں کا کوئی کام نہیں۔
جناب سوشل میڈیائی دانشور صاحب پیدائشی سپورٹس مین بھی ہیں، اس لیے کھیل کے بارے ان کی رائے مختصر مگر جامع ہے۔ اگر ٹیم جیت رہی ہو تو ان کو ٹیم میں وہ خوبیاں بھی نظر آجاتی ہیں جو کھلاڑیوں کو بھی معلوم نہیں ہوتیں اور ہارنے پر اکثر یہ اگر مگر کرتے اور یہ کہتے پائے جاتے ہیں ”وِکے سن“ ( بکے ہوئے تھے) جوا لایا سی، سب جواریے ہیں۔
سوشل میڈیائی دانشورصاحب ان گننت خوبیوں کے مالک ہیں، اس کا اندازہ تو قارئین کو ہوگیا ہوگا لیکن ان کی ایک خوبی اور بھی ہے، وہ یہ کہ موصوف پارٹ ٹائم عاشق بھی ہیں۔ اکثر دانشوری جھاڑنے کے بعد راتوں کو مستورات کے ارگرد کسی شمع کے پروانے کی صورت پائے جاتے ہیں، ان کے نزدیک خوبصورتی کوئی شرط نہیں، لمبا چوڑا تعلق رکھنا نہیں، جہاں لڑکی دیکھتے ہیں موصوف کو پیار ہو جاتا ہے۔
جناب دانشور صاحب اوباشی اور اخلاق باختگی میں اک نئے مکتبہ فکر کے بانی واقع ہوئے ہیں، جس کا ثبوت یہ اکثر اپنے مخالفین کے ساتھ گفتگو میں دیتے رہتے ہیں۔ دانشور صاحب برابری پر یقین رکھتے ہیں اس لیے اخلاق باختگی کا مظاہرہ کرتے وقت یہ مرد اور صنف نازک میں ذرا فرق نہیں کرتے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ ان کی صحبت میں رہنے سے آپ کے دماغ کے مثبت سوچ اور نظریات کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہوسکتے ہیں اور پاگل خانے کے دروازے کھل سکتے ہیں۔
اللہ ہم سب کو سوشل میڈیائی دانشوروں کے شر محفوظ رکھے۔ آمین