ہوم << ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا ایک دلچسپ انٹرویو

ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا ایک دلچسپ انٹرویو

فیس بک نے ہمارے ہاں کئی بہت عمدہ لکھاری متعارف کرائے ہیں۔ ایسے لوگ جن کی ریڈر شپ اور فین شپ آج ہزاروں میں ہوچکی ہے۔ لوگ ان کی تحریریں پڑھتے اور رائے بناتے ہیں۔ ان لکھاریوں میں سے چند ایک وہ ہیں جنہوں نے مین سٹریم میڈیا سے لکھنے کا آغاز کیا اور خود کو منوایا، تاہم بعد میں یہ فیس بک کی طرف متوجہ ہوئے اور یہاں نئی ریڈرشپ کو متاثر کیا۔ ان میں کالم نگار، اینکر آصف محمود ، رعایت اللہ فاروقی اور بعض دوسرے احباب شامل ہیں۔ کچھ لکھاری ایسے ہیں جن کا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر ان کے اندر لکھنے کی خداداد صلاحیت اور شوق انہیں فیس بک بلاگنگ کی طرف لےآیا اور انہوں نے اپنا حلقہ مداحین پیدا کرلیا۔ جیو ٹی وی سے وابستہ مبشر زیدی، سو الفاظ پر مشتمل کہانی کا ٹرینڈ انہوں نے ہی شروع کیا، اے آر وائی سے وابستہ فیض اللہ خان، ایکسپریس کے عمیر محمود اور کچھ دوسرے لوگ ان میں شامل ہیں۔ لکھاریوں کا ایک حلقہ ایسا ہے جس نے فیس بک ہی سے لکھنے کا آغاز کیا اور کمال سرعت سے انہوں نے خود کو منوالیا۔ قاری حنیف ڈار، حنیف سمانا، حافظ صفوان، ثاقب ملک، انعام رانا، ڈاکٹر عاصم اللہ بخش، عدنان خان کاکڑ، وسی بابا، غلام اصغر ساجد وغیرہ ان میں سرفہرست ہیں۔ لکھاریوں کا ایک حلقہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل افراد سے ابھرا۔ انہوں نے بھی اپنی مفید پوسٹوں کے ذریعے اپنی خاص جگہ بنائی۔ شاد مردانوی، سمیع اللہ سعدی، حمزہ صیاد، بخت برشوری اور بہت سے دوسرے لوگ ان میں شامل ہیں۔ مفتی محمد زاہد، مولانا عمار خان ناصر، عاصم بخشی، سید متین شاہ، زاہد مغل، محمد دین جوہر، ادریس آزاد، عزیز ابن الحسن جیسے اہل علم بھی یہاں موجود ہیں، جن کی علمی تحریروں سے بہت سوں کو استفادے کا موقع ملا۔ فیس بک کی دنیا نے فاصلے مٹادیے اور پڑھنے والے ان مختلف حلقوں کے اہل قلم سے ایک خاص قسم کا اپنائیت اور محبت کا تعلق محسوس کرتے ہیں۔ کوئی ملاقات ہوئے بغیر بھی ایک ان دیکھا رشتہ قائم ہوچکا۔اس تعلق خاطر اور اپنائیت کی وجہ سے ہی پڑھنے والے ان لکھاری حضرات کی شخصیت اور فکری سٹرکچر کے بارے میں کچھ مزید جاننا چاہتے ہیں۔ ’’دلیل‘‘ کے پلیٹ فارم سے فیس بک کی ان معروف ادبی، علمی شخصیات کے انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ زیادہ سے زیادہ احباب کو انٹرویو دینے کی فراخدلی پرآمادہ کرلیں۔ طریقہ کار یہ ہوگا کہ جس شخصیت کا انٹرویو کرنا مقصود ہوگا، اس کے نام کا ایک ہفتہ پہلے اعلان کیا جائے گا، جو کوئی ان سے سوالات کرنا چاہے، وہ ہمیں سوالات بذریعہ ای میل بھیج یا عامر خاکوانی کو فیس بک پر ان باکس کرسکتا ہے۔ یہ سوالات انٹرویو دینے والی شخصیت کو بھیج دئیے جائیں گے۔ اپنی سہولت کے مطابق وہ جواب دے دیں گے۔ پھر اسے ترتیب دے کر دلیل پر شائع کردیا جائے گا۔
اس سلسلے کی پہلی کڑی کے طور پر ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا انٹرویو شائع کیا جارہا ہے۔ یہ انٹرویو تونسہ سے تعلق رکھنے والے معروف بلاگر صادق عباس صاحب نے ڈاکٹر عاصم سے بنفس نفیس کیا تھا۔ ڈاکٹر عاصم نے ازراہ تلطف اس انٹرویو کو دلیل کے اس نئے سلسلے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ ہم ان کے شکرگزار ہیں۔ لیجئے انٹرویو سے لطف اندوز ہوں۔ سوال کے نیچے بھیجنے والے کا نام ہے، کہیں کہیں یہ نام رہ بھی گیا ہے، مگر اس سے انٹرویو کی دلچسپی، روانی اور افادیت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ (ادارہ دلیل )


سوال: اردو کی ترویج و اشاعت میں فیس بک کو ایک ذریعہ مانتے ہیں؟
جواب: اردو کو نقصان پہنچنے والی چیزوں کو وارننگ کے طور پر یاد رکھنا چاہیے، مثلاً انگریزی زبان بولنے اور لکھنے کی حوصلہ افزائی کا کلچر، اردو کے حوالہ سے سرکاری سطح پر ڈھلمل پالیسی اور بچوں اور نوجوانوں کے لیے انگریزی کتابوں اور جرائد کی آسانی سے دستیابی جب کہ اردو جرائد کے قارئین کی تعداد میں جمود۔
اردو کو کوئی براہ راست خطرہ، فی الحال تو نہیں ہے لیکن بالواسطہ بہت سے چیلنجز درپیش ہیں اس کو۔ خطرہ نہیں ہے اور جی ہاں میرا ماننا ہے کہ فیس بک نے اردو کو بہت سپورٹ کیا ہے کیونکہ آہستہ آہستہ فیس بک پر مکالمے کی زبان اردو ہی بن چکی ہے۔
سوال : پاکستان میں سوشل میڈیا کا مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا یہاں عرب بہار کی طرح سوشل میڈیا کے ذریعے کوئی انقلاب آنے کے چانسز ہیں؟
2:پاکستانی معاشرے میں لبرل اور مذہبیت سوچ کی تفریق کو مجموعی طور پر کیسے دیکھتے ہیں؟
3:ممتاز قادری شہید کی پھانسی کے بعد مذہبی طبقے میں اتحاد کی جو لہر پیدا ہوئی، اسے کیسے دیکھتے ہیں؟
(تفہیم احمد تونسہ شریف)
جواب: پاکستان اور عرب دنیا میں بنیادی فرق ہے۔ پاکستان میں کچا پکا جمہوری تجربہ ہے، مکالمہ اور مذاکرات کے الفاظ یہاں اجنبی نہیں اور نہ ہی سمجھوتہ، اتفاق رائے اور معاہدہ کوئی اچنبھا نہیں۔ چناچہ یہاں فرسٹریشن لیول وہ نہیں جہاں قومیت کی بنیاد پر عرصہ دراز تک ڈکٹیٹرشپ رہی ہے۔ پھر پاکستان کا میڈیا تھوڑا بہت آزاد رہا ہے اس لیے وہاں والی صورتحال یہاں نہیں ہوسکتی، ہاں البتہ پاکستانی سوشل میڈیا میں چونکہ اصلاحی پوٹینشل ہے تو یہ انقلاب کی بجائے اصلاح کی طرف لائے گا.... پاکستان میں جب بھی گڑ بڑ ہوئی تو معاشی مسئلہ کی وجہ سے ہوگی، سیاسی وجہ سے نہیں۔ اس کا مطمح نظر سیاسی تبدیلی کے لیے نہیں ہوگا،یہاں تو محرک معاشی تبدیلی ہوگی عرب بہار کا جوہر سیاسی تھا ...
نمبر 2: اگر یہ کشمکش کسی جگہ ختم ہو جائے گی تو وہ یہ دنیا نہیں ہوگی اس دنیا میں یہ کشمکش ہمیشہ رہے گی.... اس میں بس یہ غلطی رہ جاتی ہے کہ نظریاتی بحث غالب آجاتی ہے، اصل کشمکش عمل کے میدان میں ہے۔
نمبر3: اتحاد کہاں پیدا ہوا ؟ ممتاز قادری کے کاز کو کوئی مسلمان غلط نہیں کہتا، بس یہاں اپنا مفاد حاوی ہے...... اگر یہاں کوئی اتحاد ہوسکتا ہے تو وہ خدا اور رسول کے نام پر ہوسکتا ہے... یہ تو ایک جذبہ ترحم تھا اور جذبہ ترحم وقتی ہوا کرتا ہے، جیسے سیلاب آئے تو قوم اکٹھی ہوتی ہے اور پھر سب ختم....
اس لیے ہمیشہ اصولوں پر فیصلہ ہوتا ہے۔
سوال: بعض اوقات زندگی میں کچھ ایسے تلخ واقعات و حادثات رونما ہوجاتے ہیں کہ وقت کا مرہم بھی ان تلخیوں کو بھلانے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ کوئی ایسا واقعہ جو آپ کو یاد رہ گیا ہو تو... پلیز شیئر کریں۔
(نوید احمد)
جواب: میرا نہیں خیال کہ میرے پاس کوئی ایسی بات یا حادثہ ہے، جس پر شکوہ کروں یا بات کروں۔ بس والد صاحب کا انتقال بہت بڑا صدمہ تھا۔ اس کے علاوہ کوئی واقعہ جو سوہان روح بن جائے ایسا کچھ نہیں ہوا، الحمدللہ۔
سوال: ”راولپنڈی“ اور ”اسلام آباد“ میں ہمیشہ سے فاصلہ بنا رہا اور نتیجتاً ہم بحیثیت ریاست کسی سمت کا تعین کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ آپ کے خیال میں اس کی بنیادی وجہ کیا ہے اور پاکستان میں جمہوریت کے ”شریف برانڈ“ کا مستقبل آپ کیا دیکھتے ہیں؟
آزاد کشمیر میں قائداعظم کی کشمیر پالیسی کے خلاف غیر ریاستی جماعتوں کا قیام مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جماعتوں کے قیام کو جواز مہیا کررہا ہے۔ کیا پاکستانی سیاستدان قضیہ کشمیر سے ہی نا بلد ہیں یا کشمیر کی قیمت پر آلو پیاز کی تجارت ان کی اولین ترجیح ہے؟
(زبیر عباسی ،باغ آزاد کشمیر)
جواب: آل انڈیا مسلم لیگ کی کم و بیش تمام مرکزی قیادت ان صوبوں سے تھی جو پاکستان میں شامل نہ ہوسکے۔ وہ یہاں خود کو اجنبی محسوس کرتے تھے اور پھر آہستہ آہستہ ان کے عدم تحفظ نے انتظامی معاملات کے حوالہ سے بیوروکریسی اور فوج پر ان کا انحصار بڑھانا شروع کردیا، یہاں تک کہ سیاسی معاملات کو بھی انتظامی ذرائع سے حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ انتہا یہ ہوئی کہ ایک بیوروکریٹ گورنر جنرل بن گئے اور فوج کے کمانڈر ان چیف کابینہ کا حصہ بن گئے۔ جب ان سب نے دیکھا کہ اصل میں تو حکومت ہم چلارہے ہیں تو پھر وہ آگے بڑھ کر حکومت پر براہِ راست قابض ہوگئے۔ سیاستدانوں سے غلطی یہ ہوئی کہ آج تک وہ اپنے اندر ایسا اخلاقی وصف نہ پیدا کرسکے جو آئینی دفعات سے آگے بڑھ کر ان کے حق حکمرانی کا ضامن بن سکے۔
بس یہی راولپنڈی اور اسلام آباد کی چپقلش ہے۔ دونوں اپنے تئیں ٹھیک کرلیں تو یہ چپقلش بہت جلد قصہ پارینہ ہو جائے۔
سوال: آپ نے کبھی کسی سے عشق کیا؟
مبین امجد
جواب: کئی بار۔۔۔۔ اور ہر دفعہ پکا، سچا اور آخری عشق ہی ہؤا! ?عشق ختم ہونے کے دو تیر بہدف نسخے ہیں :
اول، ”ان“ سے شادی نہ ہوپائے۔
دوم، ان سے شادی نہ ہوجائے۔
ویسے میری شادی ارینج میرج ہے۔
سوال: چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ چپکائے رکھنے کا راز کیا ہے؟
جواب: جب اچھے دوستوں کا تذکرہ ہو اور اچھے دوستوں سے ملاقات رہتی ہو تو مسکراہٹ خود بخود آہی جاتی ہے۔
سوال: فیس بک کے چند اچھے دوستوں کا نام بتانا پسند کریں گے؟
جواب: بہت سے دوست ملے، نام نہیں عرض کر سکوں گا کہ انسان ہوں کوئی نام بھول گیا تو دل آزاری ہوگی۔
لطف کی بات یہ ہے کہ فیس بک مجھے کبھی کوئی خاص چیز نہیں لگتی تھی، اگر خاکوانی صاحب نہ کہتے تو اس جانب نہ آتا.... ایک موقع پر جب اٹھاسی فرینڈ ہوئے تو لگا جیسے دنیا فتح ہوگئی ہے۔ ?
سوال:  اخبار کونسا پسند ہے؟
جواب: ڈان، دنیا، واشنگٹن پوسٹ۔
(یہ الگ بات ہے انٹرویو لیتے وقت جنگ سامنے تھا)
کوئی ایک پسندیدہ کالم نگار بتائیں جسے پڑھنا چاہیے؟
یوری ایونیری (اسرائیل) (Uri Avnery)
یہ شخص عدل اور اعتدال کے مینار پر کھڑا ہے۔ یہ پہلے اسراٰئیل کی پارلیمنٹ کا ممبر تھا۔ اس نے فلسطینیوں کے حقوق پر اتنا لکھا ہے کہ مسلمانوں نے بھی اتنا نہ لکھا ہوگا.... اس کو ضرور دیکھیں اور پڑھیں۔
سوال: نظام تعلیم کی بہتری میں عوام کا کیا کردار ممکن ہے؟
(ریاض علی خٹک)
جواب: آپ لوگوں کو، بچوں کو سوچنا سکھائیں، انفارمیشن دیں اور ان پر عمل کرنا سکھائیں... خالی تعلیم کوئی چیز نہیں تربیت بھی ساتھ ضروری ہے۔ ہرمسئلہ میں کہا جاتا ہے تعلیم کی بڑی ضرورت ہے حالانکہ دیکھا جائے تو ملک میں فساد کرنے والے کون ہیں؟ یہی تعلیم والے ہیں۔ جاہل بیچارہ تو ایندھن بنتا ہے۔
سوال : موجودہ ملکی قوانین پہ عمل درآمد اور مجموعی معاشرتی رویوں کی بنا پر آپ پاکستان کو کیسا دیکھ رہے ہیں؟ ایک سیکولر ملک یا کٹر اسلامک؟
(عبد الحسیب حیدر)
جواب: یہ سوال بحث برائے بحث ہے ,, ہم کہاں کھڑے ہیں ,, یہ ہے اصل سوال... آپ خود کی طرف دیکھیں؛ آپ قانون پسند ہیں یا نہیں؟ آپ قانون پر عمل پیرا ہیں یانہیں؟ ان سوالوں کا جواب ہمیں نفی میں ملے گا۔ پاکستانی معاشرہ قانون شکنی پر فخر محسوس کرتا ہے۔ اس لیے ملک اسلامی ہو یا سیکولر تب بھی یہی کچھ ہونا ہے....
یاد رکھیں! معاشرے قانون پر نہیں، اقدار پر چلتے ہیں اور ہمارے ہاں اقدار مفقود ہیں۔ قانون ہے تو اس پر عمل نہیں کیونکہ ترجیح موجود نہیں..... حضرت عمر بن عبدالعزیز مثالی حکمران تھے، مگر تین سال میں زہر دے کر فارغ کردئیے گئے، کیونکہ معاشرہ.....
سوال: اچھا لکھاری بننے کے تین رہنما اصول؟
اور آپ کو کس صوبہ کے لکھاری زیادہ پسند ہیں؟
موجودہ دور میں نوجوانوں کو کس موضوع پر زیادہ لکھنا چاہیے؟
(محمد شفقت)
جواب: پہلے سوال میں تین باتیں ہیں؛ نمبر ایک مطالعہ اچھا ہو، مطالعہ سے انفارمیشن اور بتانے کا طریقہ پتا چلتا ہے۔ نمبر دو، پر خود لکھنا اور جس رائیٹر کو پسند کرتے ہیں، اس سے کمپیئر کرنا اور نمبر تین زیادہ لکھنا، اس سے لکھنے کا بہاؤ تیز ہوجائے گا....
اور میں صوبے نہیں دیکھتا، میرے لیے ترجیح یہ ملک ہے اس لیے میں اسی تناظر میں دیکھتا ہوں۔
جہاں تک تیسرا سوال ہے تو کہوں گا اپنی ترجیحات پر کیونکہ وہ سب سے زیادہ صحت مند مکالمہ کی صورت ہے۔
سوال: آپ اپنی تجزیاتی نگاہ سے دینی مدارس کے فضلا کو کیا مشورہ دینا پسند کریں گے کہ وہ معاشرے میں بہتر اور مثبت انداز میں اپنا اثر نفوذ پیدا کرسکیں؟
عملی میدانوں میں قدم رکھنے سے پہلے تعلیمی مراحل سے گزرتے نوجوان کے لیے سوشل میڈیا پر موجود رہنا ضروری ہے یا اس سے گریز؟
کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں دینی تحریکات سوائے چند کے، عموماً کامیاب نہیں ہوئیں۔ اس کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں؟
ایک زمانے میں سوشل ازم کا طوفان تھا، آج کل دینی حلقے کن خطرات سے دوچار ہیں؟
(راشد حسین قاسم، خانیوالی ثم کراچوی)
جواب:
نمبر 1: میری ایک رائے ہے اگر دینی مدارس اس پر عمل کریں تو سب کی دوڑیں لگ جائیں۔ دینی مدارس میں چیزوں کا تجزیہ اور تحقیق کا ایک خاص ذوق پیدا کیا جاتا ہے، جیسے اسماءالرجال کا فن وغیرہ۔ اگریہ علوم حاضرہ میں بھی سنجیدگی اختیار کرلیں تو ان کو کون پیچھے رکھ سکتا ہے؟ ان لوگوں میں تحقیق کا خاص ذوق ہوتا ہے۔ اگر مروجہ علوم میں بھی تحقیق کی مہمیز لگادی جائے تو بہت آگے جائیں گے۔
نمبر 2: اس میں دو باتیں ہیں؛ پہلی تو یہ کہ سوشل میڈیا سے آپ کو نئے خیالات ملتے ہیں، جاری رجحانات سے آگاہی ملتی ہے۔دوسرا یہ کہ اس وقت آپ کو ڈسپلن کا خاص خیال رکھنا چاہیے، جیسے خواتین کے انبکس میں آنا جانا.... اگر یہ صورت نہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔
نمبر3: اس وجہ سے کہ بیشتردینی تحریکات نہیں ہوتیں مسالکی تحاریک ہوتی ہیں.... دینی تحریک میں ہمہ گیریت ہوتی ہے جیسے ختم نبوت تحریک۔ اس تحریک نے اپنا مقصد حاصل بھی کیا۔
نمبر4: اس وقت سوشلزم کا کوئی طوفان نہیں، اس وقت کوئی طوفان ہے تو وہ سیکولرزم کا اور بےلگام سرمایہ داریت کا۔
سوال1: آج کل کا نوجوان جب مطالعہ شروع کرتا ہے تو آوارہ خوانی میں پڑجاتا ہے۔ ایسی کون سی بنیادی کتابیں ہیں جو نوجوانوں کے کردار اور ان کے وجود کو معاشرے کے لیے کارآمد بنانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں؟ جیسے آپ نے مجھے رچرڈ نکسن کی کتاب ”لیڈرز“ پڑھنے کا مشورہ دیا تھا۔
2:آپ جیسا دانشور بننے کے لیے کیا پاپڑ بیلنے پڑیں گے؟
(ماجد عارفی ساہیوال)
جواب: دانش کا سورس ایک ہی ہے اور وہ ہے خدا کی کتاب، الٹی میٹ سورس- اس لیے مجھے چھوڑیں، اس طرف دیکھیں۔ مجھے دیکھا تو پاپڑ ہی بیلنے پڑیں گے ?
باقی زندگی خود زبردست استاد ہے۔ ہر آدمی میری نظر میں دانشور ہے اور اس صلاحیت کے ساتھ وہ پیدا کیا گیا ہے۔
نمبر2: دیکھیں! انگریز نے آدھی سے زیادہ دنیا پر حکومت کی۔ اس کے پیچھے ایک فن کارفرما تھا وہ تھا اس کا ذوق ( انسانی تاریخ اور مختلف اقوام کے عادات و اطوار)۔ اس نے اپنے اس ذوق کی بدولت انسان کو سٹڈی کرکے ان کو مغلوب کیا، مار پیٹ سے نہیں .....آپ کامن ویلتھ گیم کو دیکھ لیں سبھی ممالک اس کی غلامی کررہے ہیں اور اس پر خوشی بھی محسوس کر رہے ہیں، تو معلوم یہ ہوا کہ وہ انسان کو رجھا لیتے ہیں اس لیے سوانح حیات جو ملے وہ ضرور پڑھیں۔
سوال: جس طرح سے یوتھ ایکٹو ہو رہی ہے، کیا لگتا ہے کہ آنے والے وقت میں سوسائٹی میں کون سی پازیٹو چینج متوقع ہیں؟
(عبدالغفار چینہ)
جواب: یوتھ جذبہ اور حمیت کا مطلب غصہ اور بد تہذیبی نہ سمجھ لیں تو انہیں آگے برھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ورنہ ہر 15 سال بعد ایک ایسا جوش و جذبہ کا دور آجاتا ہے جس میں لگتا ہے کچھ ہونے والا ہے۔ ایک نظر ان ادوار پر بھی کہ پھر کیوں کچھ نہ ہوا؟
سوال: کامیاب انسان بننے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے؟
جواب: کامیابی کے لیے دو باتیں ضروری ہیں؛ اللہ تعالیٰ کی مدد اور محنت۔ محنت کا کھاتہ کم یا زیادہ ہوسکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔
سوال: آخر میں قارئین کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟؟؟؟
جواب: دین میں صرف مسلمان بن کر رہیں اور ملک میں صرف پاکستانی۔۔۔ بہت سی مشکلوں سے خود بھی بچ جائیں اور یہ دونوں بھی۔۔
اپنے بارے میں مختصر سے تعارف جس میں نام تعلیم اور موجودہ پیشہ ہم قارئین جاننا چاہیں گے؟
میری پیدائش 30 جون 1968ء کو لاہور میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم لاہور میں ڈویژنل پبلک سکول سے حاصل کی۔ ایف ایس سی کیڈٹ کالج حسن ابدال سے پاس کی اور ایم بی بی ایس کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے مکمل کیا۔ میڈیکل شعبہ کو کبھی ذریعہ روزگار نہیں بنایا۔ ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد سے منسلک ہوں۔ اس دوران پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے بھی کیا۔
سوال: آپ کے والد صاحب کیا کرتے تھے اور آپ کی زندگی پر ان کا کتنا اثر ہے؟
جواب: میرے والد کا تعلق یزمان ضلع بہاولپور سے آگے ایک گاؤں سے تھا۔ وہ اپنی فیملی میں واحد پڑھے لکھے فرد تھے۔ انہوں نے لاہور انجینئرنگ یونیورسٹی سے کیمیکل انجینئرنگ کی اور پھر اسکالر شپ پر ایڈنبرا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔ کیرئیر کا بیشتر حصہ انہوں نے PCSIR Laboratories میں گزارا ۔ ایسے محنتی انسان کا میری زندگی پر اثر ہونا ایک فطری سی بات ہے۔ وہ میرے والد ہی نہیں، دوست اور رہنما بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائیں۔ آمین۔
سوال: آپ کی شادی لو میرج ہے یا ارینج میرج اور بچے کتنے ہیں؟
جواب: ارینج میرج۔ 19 سال ہوگئے۔ ایک بیٹی سے نوازا اللہ تعالیٰ نے۔ ماشاء اللہ 3 سال کی ہے وہ ۔
سوال: بچپن شرارتی تھا یا معصوم؟
جواب: میرا خیال ہے میں معصوم تھا جبکہ باقیوں کا خیال اس کے قطعی برعکس ہے ?
مار دھاڑ کبھی نہیں کی اور نہ ہی میرے ساتھ ہوئی ۔۔۔ بس شغل میلے والا کام تھا۔
سوال: کھانے میں کیا پسند ہے؟ اور کس پھل پر زیادہ ہاتھ صاف کرتے ہیں؟
جواب: اچھا جو بھی بنا ہو، سب پسند ہے۔ ویسے مسورکی دال اور چاول پسند ہیں اور پھلوں میں آم اچھا لگتا ہے۔ اگر اچھا ہو تو اس کے علاوہ شیریں چیز جو بھی ہو، صبر کے علاوہ !
سوال: کس مسلک کو فالو کرتے ہیں؟
جواب: میں مسلمان ہونے میں فخر محسوس کرتا ہوں۔ میرے لیے سورس قرآن وسنت ہے اور اس کے بعد اچھی گفتگو۔ مدلل گفتگو، جس کی بنیاد مندرجہ بالا 2 پر ہو... میرے لیے بس یہی کافی ہے۔
سوال: آپ پر قادیانی اور اہل تشیع ہونے کا الزام لگتا ہے، اس میں کس حد تک صداقت ہے؟
جواب: قادیانی والی بات کہنا تو صریحاً ظلم اور زیادتی ہے اور جہاں تک بات اہل تشیع میں سے ہونے کی ہے تو میرے والدین اور خاندان میں سے کوئی بھی شیعہ نہیں۔ سب سنی ہیں، میں بھی سنی مسلمان ہوں۔
قرآن نے فرقہ واریت کو کفر قرار دیا ہے میں اس لیے ہرمسلک والے کے ساتھ تواضع کے ساتھ پیش آتا ہوں اور شاید اسی وجہ سے شاید دوست کچھ مختلف گمان کرتے رہتے ہیں... دیکھیں، ہم مسلک کی وفاداری کو خدا کی وفاداری پر برتری نہیں دے سکتے، یہ نکتہ سمجھ لیں تو ان مسائل سے باہر آ جائیں گے۔
سوال : موسیقی کیسی پسند ہے؟
موسیقی روح کی غذا ہے یا نہیں؟ آپ اس بارے میں کیا نقطہ نظر رکھتے ہیں؟
جواب: وہ موسیقی جس کا ردھم اچھا ہو، شاعری اچھی ہو، اور جہاں تک موسیقی روح کی غذا ہے یا نہیں اس بارے عرض ہے کہ یہ روح کی غذا ان معنوں میں نہیں جس روح کا ہمیں دین پتا دیتا ہے۔ اس سے مراد دراصل انسان کو دیگر حیوانات سے ممیز کرنے والی صفت ہے یعنی حس لطیف۔
اچھی موسیقی اچھے ذوق کا پتا دیتی ہے اور اچھا ذوق اچھے شعور کا۔
سوال : پسندیدہ ناول ؟؟
جواب: فکشن مجھے خاص پسند نہیں البتہ ایک زمانے میں مشہور پاپولر فکشن رائٹر سڈنی شیلڈن کاناول if tomorrow comes پڑھا،جواس وقت اچھا لگا تھا، میں نان فکشن پڑھتا ہوں۔
سوال: آپ مشکل اردو لکھنے کے قائل نہیں ہیں؟
جواب: میں کوشش بھی کروں تو مشکل زبان نہیں لکھ سکتا کیونکہ میری تربیت ایک لکھاری کے طور نہیں ہوئی۔ میں تو حادثاتی رائٹر ہوں جو سماج میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ میری بنیاد دین اور ملک سے لگاؤ ہے۔
سوال: فیس بک پر کبھی کسی کو بلاک کیا؟
جواب: جی بالکل کیا۔ ایک صاحب تھے، وہ خاص سرکاری ایجنڈے پر تھے انہیں بلاک کیا۔ اسی طرح سے نائیجیریا والی ’’نیک بیبیاں‘‘ اور دس کروڑ کے انعام والوں کو۔

Comments

Click here to post a comment

  • بهت عمدہ. .......پروفیشنلز سے زیادہ سلیس انداز .....مدلل جوابات.....اللہ کرے زور قلم وعلم و عمل اور زیادہ