ہوم << شراب پر پابندی کا تاریخی حکم، کب کیا کیسے ہوا؟ سید جواد شعیب

شراب پر پابندی کا تاریخی حکم، کب کیا کیسے ہوا؟ سید جواد شعیب

سید جواد شعیب سندھ ہائیکورٹ نے شراب پر پابندی کا جب حکم دیا تو میں کمرہ عدالت میں موجود تھا، فیصلہ سن کر کانوں کو یقین نہ آیا، لیکن بار بار غور سے سننے اور عدالت میں موجود کچھ سرکاری و غیر سرکاری قانون دانوں اور صحافیوں سے دریافت کیا کہ جو میں نے سنا، کیا وہ ہی عدالتی حکم ہے، جواب ہاں میں ملا تو یقین آیا۔
مملکت خداد پاکستان میں شراب نوشی اور شراب خانوں سے شراب کی کھلی عام فروخت سے متعلق تین درخواستیں سندھ ہائیکورٹ میں کافی دنوں سے زیر سماعت تھیں۔ یقین اس لیے نہیں آ رہا تھا کیونکہ ایک سماعت کے دوران درخواست گزار کی استدعا تھی کہ مسجد مدرسہ اور اسکول کے قریب مسلم آبادی میں شراب خانہ موجود ہے، اسے بند کروایا جائے تو چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ اس وکیل سے دریافت کر رہے تھے کہ قانون بتائیں کہ کس قانون کے تحت لائسنس شدہ شراب خانہ بند کرنے کا حکم دیاجائے۔ عدالت نے پولیس سے رپورٹ طلب کی، امن عامہ کے مسائل اور معاشرتی خرابیوں کا ذکر بھی کیا لیکن سمجھ نہیں آرہاتھا کہ لائسنس شدہ شراب خانہ بند کیسے کیا جائے۔ یہ اس لیے بھی مشکل ہو رہا تھا کہ فریق مخالف یعنی شراب خانے کے مالک کی وکالت کر رہے تھے ملک کے چوٹی کے وکیل جناب فاروق ایچ نائیک ایڈووکیٹ، جن کا اصرار تھا کہ شراب خانے کا لائسنس 1997ء میں جاری ہوا اور قانونی شراب کی فروخت کو روکا نہیں جاسکتا۔
یہ معاملہ تھا کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری میں قائم ایک شراب خانے کا، عدالت نے اس سے رپورٹ منگوائی، قانون کی تلاش شروع کی، وکیلوں سے معاونت کا کہا، ایک کے بعد دوسرے اور پھر تیسرے شراب خانے کے خلاف درخواست آئی تو معاملہ ایک اور رخ اختیار کرگیا۔ سندھ ہائیکورٹ نے ڈی جی ایکسائیز کو طلب کیا اور دریافت کیا کہ سندھ بھر میں کتنے شراب خانوں کو لائسنس جاری کئے گئے، اور لائسنس کے اجراء کا طریق کار کیا ہے؟ ساتھ ہی عدالت نے الیکشن کمیشن سے ضلع جنوبی میں بسنے والی اقلیتی برادری کی آبادی کا ریکارڈ بھی طلب کیا، اور سماعت کے لیے 18 اکتوبر کی تاریخ مقرر کر دی۔ مقررہ تاریخ کو سماعت شروع ہوئی تو عدالت کے سامنے رپورٹ پیش کی گئی۔ ڈی جی ایکسائز نے کراچی کے علاقے ڈیفنس، کلفٹن میں موجود گیارہ شراب کی دکانوں کی خرید و فروخت اور اسٹاک کی تفصیلات پیش کیں اور ہم عدالت میں موجود چیف جسٹس جناب جسٹس سجاد علی شاہ کے چہرے کا بدلتا رنگ دیکھتے رہے، اچانک چیف جسٹس نے حدود آرڈیننس 1979ء کا سیکشن 17 نکالا اور ڈی جی ایکسائز سے استفسار کیا کہ قانون پڑھ کر بتائیں کہ شراب خانے کے لائسنس کا اجرا کیسے کیا جا سکتا ہے۔ چیف صاحب بولے کہ کیا کسی شراب کی دکان کے لائسنس کے اجراء سے پہلے کسی پنڈت یا کسی بشپ سے پوچھا گیا کہ آپ کے کس مذہبی تہوار کے لیے شراب کتنی اور کب درکار ہے۔ دکھائیں ہے کوئی دستاویز۔ چیف جسٹس کا یہ کہناتھا کہ ڈی جی ایکسائز جناب شعیب صدیقی ہکا بکا رہ گئے اور بولے جناب یہ تو پریکٹس ہی نہیں، ان سے پوچھنے کا کوئی پروسیس نہیں۔ چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور وہ یمارکس دیے جو سن کر میں خود دم بخود رہ گیا۔
چیف جسٹس کہہ رہے تھے کہ حدود آرڈیننس 1979ء کے سیکشن 17 کے تحت اقلیت کو بھی صرف ان کے مذہبی تہوار پر شراب کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ چیف صاحب بولے جا رہے تھے اور میں نوٹ کرتا جا رہا تھا. چیف صاحب نے پوچھا کہ شراب کی دکانیں سال کے 365 دن کس قانون کے تحت کھلی رہتی ہیں؟ پنڈتوں اور بشپ کو بھی بلا کر پوچھیں گے کہ ان کا مذہب کب اور کن تہواروں میں شراب کی اجازت دیتاہے؟ ایسے میں شراب خانوں کے مالکان کی وکالت کے لیے موجود وکلاء نے جب کچھ آئیں بائیں شائیں کرنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے انہیں جھاڑ پلادی، اور بولے کہ بومبے (بمئی) کا قانون یہاں نہیں چل سکتا۔ ڈی جی ایکسائز بولے کہ 1979ء سے پہلے ایسے ہی لائسنس جاری ہوتے تھے۔ چیف صاحب نے کہا کہ 1979ء کے بعد کیسے ہوسکتے تھے؟ یہ سب غیر قانونی ہیں۔ وکلاء پھر بولے کہ ہمارے مؤکل کا کاروبار ہے، لائسنس کی فیس دی ہے، ہمیں سناجائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ شراب بیچنے اور پلانے کے لیے پوری سہولت دی گئی ہے، لائسنس فیس بھی معمولی رکھی گئی ہے تاکہ شراب عام ہوسکے۔ اسمبلیاں موجود ہیں، اگر شراب عام ہی کرنی ہے تو اسمبلیاں قانون بنا دیں، پھر ہم بھی دیکھیں گے کہ قانون کیسے بنتا ہے۔ چیف جسٹس نے وکلاء کو کہا کہ جو وکلاء شراب خانوں کی وکالت کے لیے آئے، آئندہ قرآن و حدیث پڑھ کر آئیں۔ قرآن میں شراب پینے کو ممنوع اور حدیث میں شراب پینے پلانے اور اس کی راہ ہموار کرنے والے مسلمانوں پر لعنت بھیجی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق کراچی میں 120 شراب خانے اور صرف ضلع جنوبی مں 24 شراب خانوں کے لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔ الیکشنں کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ضلع جنوبی کراچی میں اقلیتوں کی آبادی بیس ہزار ہے۔ ضلع جنوبی میں جتنی دکانیں اور شراب کی خرید و فروخت بتائی گئی، بیس ہزار اقلیتی شہری اگر شراب سے نہا بھی لیں، تب بھی ختم نہیں ہوگی۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ہندوؤں اور عیسائیوں کا محض نام استعمال کیا جاتاہے، اصل کہانی اور ہی ہے۔ بےچارے ہندو اور عیسائی اتنی مہنگی شراب افورڈ ہی نہیں کرسکتے۔ اقلیتوں کو بدنام نہ کیا جائے۔ پنڈتوں اور بشپ کو بلا کر بھی پوچھا جائےگا کہ ان کی مقدس کتابیں کیا سارا سال شراب پینے کی اجازت دیتی ہیں۔ قانون کے مطابق اقلیتوں کو ہولی، دیوالی اور کرسمس یا کسی اور مذہبی تہوار سے صرف پانچ دن پہلے شراب کی فراہمی کے لیے میکینزم بنایا جا سکتا ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ سندھ بھر مں شراب خانوں کے لائسنس واپس لے کر آج ہی ان کی فہرست جاری کی جائے۔ آئی جی سندھ کو حکم دیا گیا کہ فوری طور پر تمام شراب خانوں کو بند کر دیا جائے۔عدالت نے ڈی جی ایکسائز کو حکم دیا کہ اقلیتی برادری کے مذہبی پشواؤ ں سے دریافت کیا جائے کہ کن کن مذہبی تہواروں پر اقلیتوں کے لیے کتنی شراب کی ضرورت ہے۔ عدالت نے حکومت سندھ، آئی جی سندھ اور ڈی جی ایکسائز سے عملدرآمد کے بعد جواب بھی طلب کرلیا۔
یہاں سوال یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سالہا سال غیر قانونی شراب خانے کھولے جاتے رہے، اقلیتوں کے نام پر مسلم آبادی میں شراب کا کاروبار چمکتا اور پروان چڑھتا رہا لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، کسی نے سوچا نہ نوٹس لیا کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی کوئی قانونی، اخلاقی یا مذہبی گنجائش ہے بھی کہ نہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ جو پارلیمان قانون سازی کرتی ہے، اس کے قانون کی عملداری کو جانچنے کا بھی کوئی مکینزم ہے کہ نہیں؟ سوال اسمبلیوں میں بیٹھے ان منتخب قانون سازوں سے بھی بنتا ہے کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں اور آپ آنکھ موندے رہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں اقلیت کے نام پر شراب سے استفادہ مسلمان اٹھاتے رہے اور حکومتیں اس کے لیے سہولت کاری کا باعث بنتی رہیں۔
اگر چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ حدود آرڈیننس اور شراب خانوں کے اجراء کے لیے سیکشن سترہ سامنے نہ لاتے تو شراب ہمارے معاشرے میں سرایت کرتی جاتی، جس کی اسلام میں سختی سے ممانعت ہے۔ کہتے ہیں کہ شراب پی کر انسان دنیا و مافیہا سے بےخبر ہوجاتاہے تو کیا مملکت خداداد پاکستان کے کرتا دھرتا سارے ہی ایسے ہیں جو کسی نہ کسی نشے میں دھت اپنی بدمست زندگی کو عیش وعشرت کے ساتھ گزارنے کے لیے پورے معاشرے کو بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں۔
مجھ سمیت یقینا ہر حساس پاکستانی کے دل میں سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا سندھ ہائیکورٹ کے اس حکم کے بعد شراب کی دکانیں بند ہوجائیں گی؟ کیا اقلیت کے نام پر شراب جیسے حرام نشے کی لعنت سے ہم اپنے معاشرے کو محفوظ رکھ سکیں گے؟ کیا واقعی عدالتی احکامات کے باوجود آئندہ پھر شراب کی دکانیں کسی قانون یا قانون ساز کے سہارے کھول دی جائیں گی؟ جب ہندوستان میں ریاستیں شراب پر پابندی لگا رہی ہیں، حال ہی میں بہار میں پابندی زیر بحث رہی ہے تو یہ کون لوگ ہیں جو مسلمانوں کو اس کی نذر کرنا چاہتے ہیں؟ اور سب سے اہم سوال کہ کیا 1979ء سے اب تک جاری کیے گئے شراب خانوں کے لائسنس جاری کرنے والوں اور قانون کو پاؤں تلے روندنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے گا؟ یا یہ عدالتی حکم کسی اور عدالت سے جاری کسی حکم امتناع کی نذر ہوجائے گا۔ آنے والے دنوں میں یہ سب واضح‌ ہو جائے گا۔
(سید جواد شعیب جیونیوز کراچی سے وابستہ ہیں اور سینئر کورٹ رپورٹر ہیں)

Comments

Click here to post a comment