ہوم << شیخ بشیر سیالکوٹی کا جنازہ اور ہماری سماجیات - نوفل ربانی

شیخ بشیر سیالکوٹی کا جنازہ اور ہماری سماجیات - نوفل ربانی

نوفل ربانی مشہور سلفی عالم دین اور عربی زبان کی ترویج کے لیے دیوانہ وار کوشاں شیخ بشیر سیالکوٹی رحمہ اللہ عليہ کی نماز جنازہ میں بھائی عبداللہ آدم کی معیت میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی. شیخ بشیر کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں.
مجھے تو بس ان کے صاحبزادے بھائی عبدالرحمن کے مغموم سراپے سے ایک بات سمجھ آئی. نماز جنازہ کے بعد میری نگاہوں کا مرکز بھائی عبدالرحمن تھے جن کو شیخ رحمہ اللہ کے متعلقین اور شاگرد گلے مل رہے تھے. اس وقت مجھے وہ دراز قد عبدالرحمن بہت جھکا ہوا نظر آیا، نماز جنازہ سے لے کر تدفین کے آخر تک عبدالرحمن کی آنکھ پرنم رہی، ایک لمحے کو بھی خشک نہ ہوئی، اس کی پلکوں پر غم کے موتی جھلملاتے رہے، اور کبھی کبھی تو وہ جھیل جیسی آنکھیں چھلکنے کو بے تاب ہوتیں لیکن نمکین آنسو مسلسل وہ پیتے رہے. پتہ نہیں کیوں جب نوفل ان کے گلے لگا تو آنسو پلکوں کی منڈیر کراس کر گئے اور گرجدار آواز کے مالک عبدالرحمن کے گلے سے رندھی ہوئی آواز ایک سسکی کے ساتھ نکلی، بس ایک جملہ ہی کہا ”نوفل بھائی دعا کریں.“ یہ لاچارگی دیکھ کر مجھے اپنی آنکھیں پونچھنا پڑیں. میرے بس میں ہوتا تو.. لیکن اس مقام پر تو سب بے بس ہوتے ہیں. یہی حقیقت ہے، باقی سب دھوکہ ہے. دنیا مچھر کے پر سے بھی حقیر ہے. زندگی کٹی پتنگ کی طرح ڈاواں ڈول ہے. معلوم نہیں کہ کس پل کس سمت جاگرے.
نسیم کوثر کے مسئلے میں عبدالرحمن بھائی کے ساتھ مختلف نشستیں ہوئی تھیں. بہت ہی ”ایگریسو پرسن“ ہیں لیکن آج کا عبدالرحمن ٹوٹا ہوا تھا. والد کی جدائی کے بوجھ نے ان کے مضبوط کندھوں کو جھکا دیا تھا، چہرے پر بہت گہرا کرب تھا، خشک ہونٹوں سے احساس زیاں عیاں تھا، انگ انگ سے ایک ٹھیس اٹھ رہی تھی، رواں رواں ہجوم درد میں جکڑا ہوا تھا، سرمگیں آنکھوں میں رتجگے کی سرخ ڈوریاں تھیں لیکن ان کی زبان سے کلمہ صبر ہی ادا ہو رہا تھا، گویا اس حدیث کا عملی مظاہرہ تھا
[pullquote]ان العین لتدمع والقلب لیحزن ولانقول الا مایرضی ربنا [/pullquote] آنکھ آنسو بہا رہی اور قلب محزون ہے لیکن زبان پر وہی کلمہ ہے جو رب کی رضا ہے.
یہ سارا منظر باپ بیٹے میں تعلق محبت اور عقیدت کا غماز تھا اور یہی اسلامی تہذیب کی برتری ہے. میں نے دنیا داروں اور دین سے دور مغرب کی چکاچوند سے خیرہ آنکھوں والوں کے بھی جنازے دیکھے، پڑھے، پڑھائے لیکن وہاں بوڑھے باپ کے جنازے پر جدائی سےاس طرح کا مغموم چہرہ نہیں دیکھا.
عبدالرحمن کے والد کا جنازہ ان کے گھر سے اٹھا جبکہ اپ ٹوڈیٹ کے ڈیڈی کا جنازہ ”اولڈ ہوم“ سے اٹھتا ہے.
عبدالرحمن نے والد کو خود غسل دیا تھا جبکہ صاحب کے ”پپا“ کو ایدھی کے اہلکاروں نے دھویا تھا.
عبدالرحمن نے شاید زم زم سے دھلا کفن والد گرامی کو پہنایا تھا لیکن پروفیسر صاحب کے ”ڈیڈ“ کو ایدھی مارکہ کالے سفید کفن میں لپیٹا گیا
عبدالرحمن نے والد کو خود قبر میں عقیدت واحترام کے ساتھ اتارا لیکن متجدد کے والد کو گور کن یا پی اے قبر میں پھینکتا ہے.
عبدالرحمن ایصال ثواب کے لیے خود قرآن پڑھ رہا تھا لیکن بابو صاحب اس لمحے بھی بزنس ڈسکس کر رہے ہوتے ہیں.
عبدالرحمن نے بیماری میں خود ثواب کی نیت سے خدمت کی اور سوٹڈ بوٹڈ ٹائی بردار ڈاکٹر صیب نے مصیبت گلے سے اتارنے کے لیے آشرم میں دھکیلا تھا.
عبدالرحمن صبح دفتر جاتے ہوئے اجازت لینے آتا اور رات کو واپس آکر تھوڑی دیر ابا کے پاؤں دبا کر مل کر کمرے میں جاتا، اور مستغرب بھائی فادر ڈے پر ایک گلدستہ نوکر کے ہاتھ بھجوا کر فون پر فادر ڈے وش کرتا تھا.
عبدالرحمن ہر اہم کام میں بوڑھے باباجی کو انوالو کرتا، ان کے تجربے سے فائدہ اٹھاتا اور اس کی روشنی میں اہمیت کے ساتھ لائحہ عمل ترتیب دیتا لیکن لبرل بھائی اولڈ مین کو پرانے زمانے کا سمجھ کر اگنور کرتا تھا.
عبدالرحمن کے اباجی جب کبھی بیمار ہوتے تو خود اچھے سے اچھے ڈاکٹر سے ٹائم لے کر اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے جاتا اور تمام ٹیسٹ کروانے کے لیے وھیل چیئر خود چلاتا لیکن مینیجر صاحب ”مسٹرابوجی“ کی بیماری کا سن کر ڈانٹتا ہے کہ کہا تھا کہ احتیاط کیا کریں، میرے پاس وقت نہیں ہوتا، چلو ڈاکٹر اے آر شیرانی کو کہتا ہوں کہ آپ کو دوائی سجیسٹ کردے، میرا ڈرائیور لے آئے گا.
خیر مغموم عبدالرحمن نے مجھ پر اسلامی سماجیات کے بہت سارے پرت کھولے، مجھے اپنی تہذیب پر بجا طور فخر محسوس ہوا، اپنی ثقافت پہ تفاخر کا احساس دلایا، قبر تیار ہوچکی تو میں ایک دفعہ پھر عبدالرحمن کو گلے لگایا، تعزیت کے دو بول بولے اوراجازت لی اور واپسی کے لیے مڑا تو نظر شیخ طاہر اسلام عسکری صاحب پر پڑی، اس کے بعد کی کارگزاری پھر کبھی سہی.