ہوم << خواتین کےلیے تفریح کی شرعی حیثیت - حنا تحسین طالب

خواتین کےلیے تفریح کی شرعی حیثیت - حنا تحسین طالب

یہ ایک حقیقت ہے کہ تفریح انسان کی ایک فطری ضرورت ہے. انسان جب مشکلات، غم، مسائل، غم روزگار، یکسانیت اور شب و روز کے معمولات سے اکتا جاتا ہے تو مسرت انگیز تفریحات کا خواہشمند ہوتا ہے. اور اگر اس خواہش کی وقتا فوقتا تکمیل نہ ہو تو انسان زندگی میں اپنے فرائض بخوبی ادا نہیں کر سکتا بلکہ غالب گمان یہ ہے کہ وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو جائے.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے قلوب کو وقتا فوقتا آرام دیا کرو. (ابو داؤد)
اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے اور خود سے متعلقہ لوگوں کے لیے مثبت اور جائز تفریح کا اہتمام کرتا رہے.
یہ ذمہ داری خصوصا گھر کے سربراہ کی ہے کہ وہ اپنی فیملی اور خصوصا گھر کی خواتین کو بھی اپنی ہی طرح انسان سمجھیں اور ان کے لیے بھی تفریح کا اہتمام کریں، ایک مشین کو بھی اگر مسلسل چلایا جائے تو وہ ناکارہ ہو جاتی ہے، مشین کو بھی مناسب وقت کے بعد آرام اور سروس کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ بعض اوقات ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مرد حضرات کو یہ غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ مصروف اور پر مشقت زندگی صرف وہ گزارتے ہیں تو لہذا تفریح کی ضرورت بھی صرف انھیں ہی ہے، اس لیے وہ تفریحی پروگرامز میں گھر کی خواتین اور بچوں کو شامل نہیں کرتے.
اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ سامنے رہنا چاہیے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنی اوٹ سے حبشیوں کا کھیل دکھایا، یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھک کر کبھی ایک پاؤں پہ بوجھ ڈالتے کبھی دوسرے پاؤں پہ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں خود منع نہیں کیا، جب تک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود تھک کر نہیں چلی گئیں.
ضروری ہے کہ تفریح کے لیے جائز اور مثبت سرگرمیاں اختیار کی جائیں. ٹی وی، موسیقی، انٹر نیٹ وغیرہ کو تفریح طبع اور سکون حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھنا بہت بڑی حماقت ہے. ان ذرائع میں عموما گناہ تو ہوتا ہی ہے مگر جدید تحقیق سے ان کے انسانی صحت و اخلاق و کردار پہ منفی اثرات بھی ثابت ہو چکے ہیں. مثلا ٹی وی ذہنی سکون کے بجائے ذہنی تناؤ کا سبب بنتا ہے، اس میں جو حالات و واقعات انسان دیکھتا ہے، خواہ وہ فرضی ہی کیوں نہ ہوں، اس کا دماغ ان باتوں کا اثر قبول کرتا ہے. اسی طرح موبائل کا زیادہ استعمال انسان کی بینائی کو متاثر کرتا ہے خصوصا اندھیرے میں استعمال. ایک تحقیق کے مطابق اگر کسی کو فیس بک پہ منفی تجربے کا سامنا ہو تو اسے ڈپریشن کا مرض ہونے کے قوی امکان ہیں وغیرہ. اس لیے تفریح ہمیشہ مثبت ہونی چاہیے. حدیث میں آتا ہے کہ دنیا کا ہر لہو (کھیل) باطل ہے مگر تین چیزیں ایک یہ کہ تم تیر کمان سے کھیلو، دوسرے اپنے گھوڑے کو سدھانے کے لیے کھیلو، تیسرے اپنی بیوی کے ساتھ کھیل کرو. (مستدرک حاکم)
اگر غور کریں تو تینوں کھیل بامقصد اور فائدہ مند ہیں. خاص طور پہ یہاں بیوی کے ساتھ خوش طبعی کی جو بات آئی اس میں فائدہ یہ ہے کہ شوہر کے اپنی بیوی کے ساتھ تعلقات بہتر ہوتے ہیں، دوستانہ ماحول گھر میں پیدا ہوتا ہے، باہم اعتماد کی فضا پیدا ہوتی ہے اور بچے اور بڑے سب گھر میں راحت پاتے ہیں. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دو مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا.
گھر کے سربراہ کو چاہیے کہ شام کے وقت فیملی کو پارک لے جائیں، میاں بیوی ساتھ چہل قدمی کریں، جس سے انھیں ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیال کا موقع ملے گا اور وہ گھر اور بچوں سے متعلق بہتر منصوبہ بندی کر سکیں گے، اور بچوں کے سماجی تعلقات نہ صرف بہتر ہوں گے بلکہ بچوں کو تعلقات قائم کرنا آئیں گے کیونکہ بچہ جب پارک جاتا ہے تو دوسرے بچوں کو اپنے ساتھ کھیلنے پہ آمادہ کرتا ہے، وہاں دوست بناتا ہے، اور ویسے بھی تعلیمی مصروفیت کے بعد بچے کے لیے کھیل کود بہت ضروری ہے. ایک مقولہ ہے کہ راحت پانے والے دل نصیحت قبول کرتے ہیں، لہذا بچے اور بڑے سب ہی تازہ دم ہو کر اپنی ذمہ داریوں کو اور بہتر انداز میں ادا کرتے ہیں. اس کے علاوہ ورزش، اور بہترین کتب کا مطالعہ بہت فائدہ مند ہے. بچوں کو بھی ورزش کی عادت ڈالیں اور فیملی کے ساتھ زیرمطالعہ کتب پہ تبادلہ خیال کریں. اپنے شریک حیات اور بچوں کو بھی مطالعہ کی جانب راغب کریں. اسی طرح نشانے بازی بھی کہتے ہیں کہ اس سے قوت فیصلہ مضبوط ہوتی ہے. آپس میں دوڑ کی مشق کرنا، سلمہ بن اکوع رض نے مدینہ میں نبی ص کی اجازت سے دوڑ کے مقابلے میں حصہ لیا، اس کے علاوه تیراکی بھی نہایت مفید ہے.
اصلاحی اور حکیمانہ شاعری بھی پڑھی اور سنی جا سکتی ہیں، نشید (جائز موسیقی یعنی دف کے ساتھ اصلاحی شاعری کو ترنم سے پڑھنا) بھی سننا یا پڑھنا جائز ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیر اندازی بھی کیا کرو اور سواری بھی کیا کرو. ( ترمذی) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ جب وہ قرآن و حدیث سے تھک جاتے تو بعض اوقات عرب کے اشعار اور تاریخی واقعات سے دل بہلاتے اور ہنسی مذاق بھی کرتے.
غرض تفریح انسان کی ضرورت ہے لیکن اس کی تکمیل کے لیے جائز اور فائدہ مند ذرائع استعمال کیے جائیں. جو تفریحات فرد، معاشرے، دین و اخلاق کے لیے مضر ہوں، ان کی اجازت اسلام نہیں دیتا. اور سب سے بڑھ کر دل اللہ کی یاد سے سکون پاتے ہیں، نماز، تلاوت قرآن اور دیگر اذکار و نیک کاموں کا خاص اہتمام کیا جائے- اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ
الله کی یاد ہی وہ چیز ہے، جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے. ( الرعد: 28)

Comments

Click here to post a comment