ہوم << اہل السنۃ والجماعۃ کون؟ - مفتی منیب الرحمن

اہل السنۃ والجماعۃ کون؟ - مفتی منیب الرحمن

مفتی منیب الرحمن ’’اَھلُ السُّنَّـۃ والجماعۃ کون؟‘‘ کے عنوان سے روزنامہ دنیا کے ادارتی صفحات پر یکم اکتوبر 2016ء کو میرا کالم چھپا۔ یہ کالم بعد ازاں دلیل پر بھی شائع ہوا. اس پر دلیل پر حافظ یوسف سراج صاحب کا بہ اندازِ استہزاء ردِعمل پڑھ کر حیرت ہوئی، یہ کسی صاحب علم کا انداز نہیں ہوتا، بہرحال یہ شِعار اُن کومبارک ہو، علامہ اقبال نے کہا ہے:
اے اہلِ نظر! ذوقِ نظر خوب ہے، لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا
میں نے گروزنی کانفرنس کے بارے میں سنا تو اُس وقت تک اس پر کچھ نہیں لکھا، جب تک کہ مجھے ثقہ ذرائع سے اس کا متن دستیاب نہیں ہوا، میرا مزاج اندھیرے میں تیر چلانا نہیں ہے۔ یہ آرٹیکل میں نے کسی مسلکی جریدے میں نہیں لکھا، بلکہ ایک مؤقّر قومی روزنامے میں لکھا ہے اور اس کا مقصد اہلِ علم اور خاص طور پر اپنے ملک کے دینی طبقات کو حالاتِ حاضرہ کے بارے میں آگہی دینا تھا۔ میں نے نہایت دیانت داری سے یہ بھی لکھا کہ یقینا شام کے حالات کے تناظر میں اِسے روس اور ایران کی آشیرباد بھی حاصل ہوگی اور اہلِ تشیُّع کی ویب سائٹس نے اس کی خوب تشہیر بھی کی، لیکن چیچنیا کی اِس پیش رفت کا اصل مُحَرِّک اُن کے اپنے داخلی مسائل ہیں، کیونکہ وہاں عسکریت پسند یا خارجی تکفیری تحریکیں زیرِ زمین موجود ہیں۔ اس کانفرنس میں پاکستان کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا کہ اسے یہاں کے مسلکی خلافیات کا شاخسانہ قرار دیا جائے، بلکہ اس میں شیخ الازہر سمیت عالَمِ عرب کے نمائندے شامل تھے۔ حافظ صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ چند سال پہلے الجامعۃ الازہر میں
[pullquote]’’التوَسُّط بینَ الْغُلُوِّ وَالتَّطَرُّفْ، تحتَ فِکرِ امام ابی الحسن الاشعری‘‘[/pullquote] کے عنوان سے ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوچکی ہے، سو فسادی عناصر نے عالمی سطح پر امتِ مسلمہ کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سعودی علماء نے اس کانفرنس کا نوٹس لیا اور انہیں اپنی پوزیشن کی وضاحت کرنی پڑی، اگر یہ مسئلہ ایک مزاحیہ کالم کی مار ہوتا تو یقینا وہ آپ کی مدد لیتے اور مورچہ فتح کر لیتے، لیکن ناگواری کے باوجود بعض حقائق کا سامنا کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ میں نے اُن کا مؤقف بھی بیان کیا اور اُس پر ڈاکٹر عبداللطیف سعید فُودہ نے جو وضاحتی بیان جاری کیا، اُسے بھی بیان کر دیا ہے۔ عام قارئین کی آگہی کے لیے میں نے چند اصطلاحات کی وضاحت کی اور اُس میں، میں نے اپنی سوچ شامل نہیں کی۔ حافظ صاحب نے یہ تاثر دیا کہ جیسے کسی کو’’اہلُ السنّہ والجماعہ‘‘ میں داخل یا خارج کرنے کے لیے میرے ایما پر یہ کانفرنس منعقد ہوئی ہو۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سوچنے کا انداز محدود ہے اور ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ پتھر ہماری طرف ہی پھینکا گیا ہے۔ حضورِ والا! یہ مسئلہ عالَمی فورم پر اٹھایا گیا ہے اور اس کا تناظر بھی عالَمی ہے اور خاص طور پر شام اور خود چیچنیا کے حالات کے زیرِ اثر ہے۔ داعش تو بہت پہلے ابوبکر البغدادی کی قیادت میں قائم ہوچکی تھی، لیکن کافی عرصے سے یہ زیرِ زمین چلی آ رہی تھی۔ جب اُس نے ایک خطے پر قبضہ کر کے اپنا اقتدار قائم کیا اور اُن کا فساد کھل کر دنیا کے سامنے آیا، تو ناگزیر طور پر سعودی عرب کے علماء کو انہیں خارجی اور تکفیری قرار دے کر ان سے برات کا اعلان کرنا پڑا، کیونکہ اب یہ بلا اُن کی سرحدوں کے قریب پہنچ چکی ہے اور اس کی تپش انہیں قریب تر محسوس ہو رہی ہے۔ یہاں کے اہل حدیث علماء کی بھی خروج اور بغاوت پر کتابیں سامنے آچکی ہیں اور توحید کی اقسام (توحیدِ ربوبیت ،توحیدِ الوہیت اور توحید ِاسماء و صفات) پر توحیدِ حاکمیت کا اضافہ بھی سلفی مکتبِ فکر کے لیے ایک چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔
میرا کالم پڑھ کر وفاق المدارس السلفیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا یاسین ظفر نے بہ حیثیت مجموعی اس کی تحسین کی اور کہا کہ ہمارے حوالے سے یہ جملہ ڈال دیا ہوتا: ’’آج کل کے سلفی، تکفیری اور خارجی نظریات سے برملا برات کا اعلان کرتے ہیں‘‘۔ مسلکی خلافیات اور کلامی مسائل میں نے اختراع نہیں کیے، یہ پہلے سے چلے آرہے ہیں اور نہ ہی میں نے مذکورہ کالم میں براہِ راست انہیں اپنا موضوع بنایا ہے۔ میرا مقصد تو یہ تھا کہ ہمارے اہلِ علم کو عالَمی سطح پر ان حرکیات کے بارے میں آگہی حاصل ہو۔ البتہ مجھ سے یہ ریمارکس دینے کا’’جرم‘‘ ضرور سرزد ہوا ہے کہ سعودی عرب کے علماء کو امت کی مشکلات کے عالمی تناظر کا ادراک کرتے ہوئے توسُّع اختیار کرنا چاہیے اور امتِ مسلمہ کے تمام مکاتبِ فکر کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر مُثبت رابطے کے لیے کوئی حکمتِ عملی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ یہ دورِ حاضر کی ناگزیر ضرورت ہے۔
(مفتی منیب الرحمن، چیئرمین مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان، صدر تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان، سیکرٹری جنرل اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان، مہتمم دارالعلوم نعیمیہ اہلسنت پاکستان)

Comments

Click here to post a comment