ہوم << صنفِ نازک کی نزاکت کا محافظ ہے حجاب - عنایت علی خان

صنفِ نازک کی نزاکت کا محافظ ہے حجاب - عنایت علی خان

حریمِ ادب کراچی کی جانب سے حجاب مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا. یہ محفل شہر کے معروف ادبی وثقافتی مرکز آرٹس کونسل کراچی میں منعقد کی گئی. شہر کی ادبی تنظیموں سے تعلق رکھنے والی معروف شاعرات نے اس محفل کو رونق بخشی. میزبانی کے فرائض صدر حریمِ ادب کراچی, ثمرین احمد اور معروف قلمکارہ نیّر کاشف نےنہایت خوش اسلوبی سے ادا کئے. مشاعرے کا آغاز صدرحریمِ ادب پاکستان, عقیلہ اظہرکی صدارت سے ہوا جبکہ مہمانِ خصوصی مدیرہ ماہنامہ بتول, صائمہ اسماء کی نظامت میں اختتام پزیر ہوا. یہ محفل محض روایتی مشاعرہ نہیں تھی بلکہ ایک پیغام کے فروغ کے مقصد کے تحت تھی. اسی کی مناسبت سے مشاعرہ گاہ کو خوبصورت دعوتی بینروں سے مزیّن کیاگیا تھا. اسٹیج کی آرائش بھی حجاب کے پیغام پر مبنی نفیس بینروں کے ساتھ بہت ہی خوب تھی. سامعین کے ذوقِ ادب کی آبیاری کی غرض سے ایک مختصر گوشۂ کتب کابھی اہتمام تھا.
محفل کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک اور جذبوں کو گرما دینے والی نعتِ رسولِ مقبول ص سے کیا گیا. محفل کا باقاعدہ آغاز سیکریٹری جنرل حریمِ ادب کراچی, غزالہ عزیزکے خطبۂ استقبالیہ سے ہوا. انہوں نے حریمِ ادب کا تعارف ومقاصد بیان کرتے ہوئے بتایا: خواتین کی اس ادبی واصلاحی انجمن کے ذریعے مثالی معاشرے کی صورتگری کی جاتی ہے. بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار وروایات کو اپنی پاکیزہ تہذیب کی سمت گامزن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے نیز نئی قلمکاراؤں کو رہنمائی بھی فراہم کی جاتی ہے. اس کے بعد فرحانہ اورنگزیب نے حجاب کے خوبصورت عنوان سے منعقدہ اس محفلِ مشاعرہ کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا.
اور پھر سلسلہ شروع ہوا کلامِ شاعر بزبانِ شاعر کا. تمام ہی شاعرات نے عنوان کا بخوبی ادا کیا. ہر آنے والی شاعرہ نے پچھلی شاعرہ کے کلام سے قائم ہونے والی فضا کو مزید اثرانگیز کیا. یوں محفل کی روح دوبالا ہوگئی. ” بے چین روح اور بے چین قلب کو جب انسانی قالب میں ڈھالا جائے تو شاعر کی شخصیت وجود میں آتی ہے.“ محفل کی تمام ہی شاعرات، عنوان کے لحاظ سے اس قول کی تفسیر نظرآئیں.
قارئین کے ذوقِ طبع کے لیے ذیل میں شاعرات کے منتخب کلام کو پیش کیا جارہا ہے:
وہ جس سے لوگوں کوشرم وحیا کا درس ملے
ہمارے ملک اک میں ایسا حجاب لازم ہے
ہم اپنی بات زمانے سے بے جھجھک کہیں
وجودِ زن کی بَقا کو حجاب لازم ہے
(عقیلہ اظہر)
مجھے یقین ہے کہ حیا میں نمود ہے میری
اور اس یقین کو ہر آن بڑھاؤں گی میں
کمند ڈالی ہے شیطان نے ہر طرف تو کیا
یہ میرا عہد ہے اپنی حیا بچاؤں گی
(نیّر کاشف)
سورۂ نور کی روشنی میں چلو
اوڑھنی یہ چُنریا یہ آنچل تیرا
تیری حُرمت کا، تہذیب کا پاسباں
جاہلیّت کی یلغار کو روک دو
سورۂ نور کی روشنی میں چلو
(ہاجرہ منصور)
ہمارا چہرہ مسلسل حجاب مانگتا ہے
ہر ایک لمحہ یہ ہم سے حساب مانگتا ہے
وہ ایک طبقہ جو مغرب زدہ ہے لوگو یہاں
نہ جانے کیوں وہ خدا کا عذاب مانگتا ہے
حیا کا نُور ہے چہرے پہ کس قدر یہ یکھو
جو سیدھی راہ پہ چلنے کا باب مانگتا ہے
(غزل انصاری)
خالی ہاتھ میں محبت بانٹتی رہ جاؤں گی
اپنے خالی ہاتھ آخر دیکھتی رہ جاؤں گی
آج سوچا ہے خود رستے بنانا سیکھ لوں
اس طرح تو عمر ساری سوچتی رہ جاؤں گی
(صائمہ اسماء)
جو پوچھا میں نے اپنے دل سے آخر حیا کیوں کر
محافظ صنفِ نازک، زیورِنسواں حیا کیوں کر
بتایا مجھ کو میرے آپ نے شرم و حیا کیا ہے ؟
میں وہ ہیرا ہوں جس کو رب نے چھپایا ہے
(ادیبہ فریال انصاری)
بُھلا کے ترکِ تعلق کی تلخیاں دل سے
چلو کہ پھر سے کریں اپنے پیار کا آغاز
(امت الحئی وفا)
عورت کی شان وعزت ,توقیر ہے حجاب
کہ اس کی شخصیت کےلیئے تعمیر ہے حجاب
شرم وحیا کا پرتَو ہے کہ روشنی بھی ہے
اللّٰہ کی رضا، یہی بندگی بھی ہے
زیور ہے قیمتی، اسے سمجھو نہ بے وُقعت
نِسوانیت کی عزت و توقیر ہے حجاب
مغرب یہ چاہتا ہے ڈھلیں اس کے رنگ میں
ان سازشوں کو فاش کرتا ہے یہ حجاب
(پروین رئیس)
بے حیائی کا یہ بڑھتا ہوا سیلابِ جُنوں
جسدِمِلّت میں ہےپھونکا ہوا شیطاں کا فسوں
عزتِ نسواں سرِراہ ہوئی جاتی ہے نیلام
اس کی عزت کےمحافظ کوکہاں سےڈھونڈوں
(زکیہ فرحت)
آخر میں مہمانِ خصوصی صائمہ اسماء نے حقِ نظامت ادا کرتے ہوئے سامعین سے مختصر اختتامی خطاب کیا.ان کے مطابق: یومِ حجاب منانے کا آغاز خواتین کے حقِ حجاب کو منوانے کے لیے کیا گیا تھا. اس دن کو منانے کا مقصد برائی اور بےحیائی کے مقابل, معاشرے میں موجود اچھائی کو فروغ دینا ہے. یہی وجہ ہے کہ مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والی شاعرات کے کلام میں بےحجابی کا دکھ بولتا نظرآیا اور عورت کی عزت و وقار کی علامت کے طور پر حجاب کی عکاسی کی گئی.
اس طرح یہ محفلِ مشاعرہ اپنی یادوں کے دلگداز نقوش لیے دعا اور پُرتکلف عصرانے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی.
رُسواکیا اس دورکی جَلوت کی ہَوس نے
روشن ہے نگاہ آئینۂ دل ہے مُکدّر
بڑھتا ہے جب ذوقِ نظر اپنی حدوں سے
ہوجاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
آغوشِ صدف جس کےنصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرۂ نِیساں کبھی بنتا نہیں گوہر
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تُو
مجھ کوتوگِلہ تجھ سے ہےیورپ سے نہیں ہے

Comments

Click here to post a comment