کہتے ہیں سچائی ایسی طاقت ہے جو انجام میں سرخرو ہوتی ہے، جھوٹ اپنی دلفریبی کے باوجود شکست کھاجاتا ہے، سچ و صداقت کی روح میں ایسی جذب و کشش ہے جو پتھر دلوں کو موم کردیتی ہے، جھوٹ و بدیانتی سے پھوٹنے والی لہریں وحشت و نفرت کی آبیاری کرتی ہیں۔ سچائی سے محبت کی اور جھوٹ سے نفرت کی فطری صلاحیتیں روز اول سے انسانی شعور کا حصہ ہیں، سطح زمین کی اگلی پچھلی تمام تہذیبیں اس صداقت کی روشنی میں قانونِ زندگی تشکیل دیتی ہیں، اقدار و اخلاق کی صبحِ روشن اسی مہر تاب کی کرنوں سے آباد ہے۔ سچائی درحقیقت حقائق کشائی کا نام ہے، ایمانداری، دیانتداری، قانون کی پاسداری ، الغرض تمام انسانی اعمال کی تشکیل میں حقائق بیانی ہی سچ و صداقت کی مکمل تصویر ہے۔
مذکورہ باتیں معلومات میں نیا اضافہ نہیں، بچپن سے پچپن تک یہی سنتے سناتے زندگی گذر جاتی ہے، لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، سچائی و صداقت کے مطلوبہ معیار پر ہم رتی برار ہی اترتے ہوں ورنہ بحیثیت قوم پستی کی گہرائیوں میں جی رہے ہیں، تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں، پیہم محرومیوں نے صلاحیتوں کو زنگ آلود کردیا ہے، ناگفتہ بہ حالات سے مایوسی میں اضافہ ہی ہوا، ہم کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں جو اَلہ دین کا چراغ اپنی قبا سےبرآمد کرے اور چٹکی بجا کر سارے مسائل حل کردے، ناامیدی کے بھنور میں پھنسے اِس بھول کا شکار ہیں کہ ہم میں سے خود ہر ایک مسیحا ہے، ہر فرد کی مسیحائی اس کی زندگی میں انقلاب برپا کرسکتی ہے، تبدیلی کی نوید حقیقت میں رونما ہوسکتی ہے، لیکن ہمارا مسیحا خوابیدہِ غفلت ہے، اسے فقط معمولی جنبش کی ضرورت ہے، پھر انقلاب و تبدیلی کی ایسی داستان رقم ہوگی جسے سنہری حروف سے زینت بخشی جائے گی۔
ہر انسان کی طرح ہم بھی یہ بات بھول گئے کہ خود کو سچائی کے پیکر میں ڈھالنا ہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے، فرد سے معاشرہ پیدا ہوتا ہے، لیکن جب یہی فرد جھوٹ و خیانت کا اشتہاری بن جائے ، اور فریب و غبن کا متعدی مرض اسی کردار سے پھیلنا شروع ہوجائے ہو تو زوال کا آغاز ہوجاتا ہے، اس کی مثال ہوبہو اس مزمن مرض کی طرح جس کا شکار زندگی کے آخری لمحات میں اپنی بیماری سے آگاہ ہوتا ہے ، اور جب یہی کیفیت وبائی صورت اختیار کرلے تو پھر سوائے ماتم کدے کو رونق بخشنے کے یا کسی مسیحا کے انتظار میں وقت بتانے کے کوئی کام سود مند نہیں رہتا۔ ہماری سچائی کی قیمت چند کھوٹے سکوں سے زیادہ نہیں، ہماری صداقت کا نشہ متاع دنیا کی دلفریبی میں کافور ہوجاتا ہے، ہم میں ادنی و اعلی، امیر غریب، الغرض ہر طبقہ اپنی بساط بھر کوشش سے سچائی و صداقت کی نیلامی میں کوشاں ہے، کہیں پر تکلف طریقے سے، کہیں نام کی تبدیلی سے، گلی گلی میں جھوٹ و خیانت کابازار قائم ہے، جہاں ہر شکل میں انسانی اقدار کی تذلیل کی جارہی ہے ۔
دردمندانِ قوم کی اس متعدی مرض کی کسک سے بلبلارہے ہیں، لیکن انسان اپنی بےحسی میں مدہوش اس حقیقت کو فراموش کرچکا ہے، اور جب تک انسان خود کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کرتا ممکن نہیں کے عزت و سرفرازی نصیب ہو ، کیونکہ یہی سنت خداوندی ہے قوموں کے رویے پر۔
تبصرہ لکھیے