ایدھی سے کون کہے کہ تیری عمر دراز ہو، وہ تو اس ابدی زندگی کا در عبور کر چکے جو لاکھوں کےلیے باعث رشک ہے۔
بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے مرنے پر ان کے لیے دُعائے بخشش کرنے کو جی نہیں چاہتا، اس لیے کہ وہ اس احتیاج سے اتنے آگے جا اور بلند ہوچکے ہوتے ہیں کہ بخشش و نجات کا درجہ تو انہیں اول قدم پر ہی مل جانا متصور ہوتا ہے۔ اس کا یقین اور اطمینان تو همیں ان کی طرزِ زندگی میں ہی ہوجاتا ہے۔ ان کے لیے دست دعا بلند کرنا در حقیقت اپنے لیے سامان نجات کرنا ہوتا ہے۔ آئیے ایدھی صاحب کے لیے دعا کرکے ان کی بلندی درجات اور اپنے لیے نجات کا بہانہ پیدا کرلیں:
باین بہانہ مگر عمر خود دراز کنیم
ایدھی صاحب نے اپنے لیے جو ”میدانِ ملازمت“ چنا تھا ہمارے ماضی قریب میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس تنہا آدمی نے وہ کر دکھایا جو بڑے بڑے اداروں اور حکومتوں سے ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ایدھی میں ریاکاری اور دکھاوا نہیں تھا۔ اسے نہ صلے کی پروا تھی نہ ستائش کی تمنا۔ اسکی زندگی ”نیکی خود اپنا انعام“ کے اصول پر تھی۔ وہ حکومتی تعاون کے بغیر جیا اور زرداروں اور سرکاروں کے بغیر مر گیا مگر پاکستانی قوم کے لیے ایک بینظیر مثال بن گیا اور دنیا میں ہمارا سر ہمشیہ کےلیے فخر سے بلند کرگیا۔
ملک و قوم کے لیے جان دے دینا یقیناً ایک بڑا اور مستحسن کارنامہ ہوتا ہے، مگر عام لوگوں کےلیے بےنام لوگوں کے لیے جینا اور مسلسل جیتے رہنا بے غرضی سے جینا، بلا امتیازِ رنگ و نسل مذہب و ملت جینا، زخمیوں بیماروں، بھوکوں اور ننگوں کے لیے جینا صرف زندوں کے لیے ہی نہیں بلکہ کٹی پھٹی لاوارث و مسخ شدہ لاشوں کےلیے جینا، یتیم و لاوارث بچوں کے لیے جینا، بے کسوں بے بسوں اور بے حسوں کے لیے جینا نہایت نہایت نہایت، اے حضراتِ گرامی! بے حدو بے نہایت مشکل جینا ہوتا ہے۔ ایدھی صاحب نے اپنے لیے ایسی ہی زندگی پسند کی اور اسے لازوال مثال بنادیا۔ اس ملک میں سماجی خدمت کے میدان میں جو بھی اٹھا، ان کے بعد ہی اٹھا اور انہی کے نقوش پا پر چلا۔
ایدھی صاحب آپ کی زندگی کو سلام۔ آپ کی پُرعظمت خدمت گزاری کو سلام۔
آپ کی سادگی سادہ دلی سادہ بیانی اور سادہ کلامی کو سلام۔
جن چند جوڑے کپڑوں میں آپ نے 88 سالہ زندگی گزاردی ان کی دھجیوں کو سلام۔
آپ کی کم خوراکی اور مثالی صحت کو سلام۔
آپ کے خلوص دیانت اور راستبازی کو سلام۔
مولانا ڈاکٹر عبدالحئ ایک نہایت پتے کی بات کہا کرتے تھے۔ ”تم دنیا میں اپنے لیے جو میدان بھی منتخب کروگے اس میں تمہیں مسابقت اور مقابلہ درپیش ہوگا۔ صرف خدمت کا میدان ایسا ہے جو تمہیں ہمیشہ خالی ملے گا جہاں تمہارا رقیب کوئی نہیں۔ تمہارا حریف تمہارا راستہ کاٹنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ یاد رکھو! دنیا میں سارے جھگڑے مخدوم بننے میں ہیں خادم بننے میں کوئی خطرہ نہیں، جھگڑا نہیں ہے۔“ ایدھی صاحب نے اپنے لیے یہی میدان منتخب کیا۔ خادم بننے کا میدان۔ وہ مخدوم نہیں خادم تھے۔ خادم انسانیت، مسیحائے ملک و قوم۔
اے الله ہم تیرے شکر گزار ہیں کہ تونے ہمیں عبدالستار ایدھی جیسا انسان دیا اور دکھایا جو اپنی ظاہری وضع قطع رہن سہن، اوڑھنے پہننے اور کھانے پینے کے رنگ ڈھنگ میں بھی گزرے زمانے کے تیرے نیک دل درویشوں فقیروں اور صوفیوں سنتوں کی طرح کا تھا۔ انہی کی طرح اس نے بھی اپنی ایک خانقاہ سجائی، نرالی خانقاہ اور پھر اسے ملک کے کونے کونے میں پھیلا دیا۔ اس خانقاہ کا فقیر عبدالستار ایدھی تھا جس کی صبح کا آغاز نماز کے بعد تلاوت قران سننے سے ہوتا اور اس کے بعد وہ سات بجے اپنے دفتر میں آکر بیٹھ جاتا اور پھر خدمت خدمت اور صرف خدمت۔ رات گیے تک انسانوں کی خدمت! صوفی عبدالستار ایدھی نے تصوف کے جزو اعظم خدمت کو اپنی خانقاه کا سرنامہ بنالیا تھا۔
لاریب! ایدھی اس دور میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا زندہ نمونہ تھا۔
تبصرہ لکھیے