خالق کے مخلوق کے لیے محسن ہونے میں رائی برابر بھی شک نئیں، ہر تخلیق پر خالق حقیقی نے احسانات کی بارش کر رکھی ہے جبکہ بحیثیت انسان ہم پر ان احسانات کا دائرہ وہ وسعتیں سمیٹ لیتا ہے کہ باقی مخلوقات پر حضرت انسان کی سبقت تابندہ ستارے کے مثل منور دکھائی دیتی ہے.
اشرف المخلوقات ہونا ایک طرف اور حق خودارادیت دوسری طرف پیر پیر پر نعمت اور گام گام پر اسکی رحمتیں سر پر سایہ فگن رہتی ہیں. والدین نعمت، اولاد نعمت، نیز ہر رشتہ نعمت کی بے مثل نظیر ہے، ہدایت نعمت، شجاعت نعمت، ریاضت نعمت، خطابت نعمت، حتی کہ عنایت نعمت اور اطاعت بھی اس کی نعمتوں کا ہی ثمر ہیں. اللہ سوہنے نے انسان کو جہاں اس زندگی جیسی کمال نعمت بخشی ہے وہیں اس سے جڑی صحت کی نعمت بھی لاثانی ہے جس کا نہ کوئی مول ہے اور نہ کسی منڈی میں اس کی بولی لگتی ہے.
یوں تو اس کی عنایت کردہ ایک ایک نعمت انمول نہ بکنے والی اور نایاب ہے، صحت تو بہت بڑی شے ہے، اس کا عطا کردہ تو ابرو کا اک بال بھی سارے جہاں کی دولتوں سے قیمتی اور مہنگا ہے.
یہ تو انسان کی فطرت میں حرص کا عنصر ہی کچھ زیادہ ہے جو وہ حاصل پر شکر کے بجائے لاحاصل کے حصول کےلیے چاروں سمت کھلے منہ دوڑتا نظر آتا ہے حالانکہ میرے اللہ کی عنایتیں صرف دینے تک محیط نہیں بلکہ وہ لے کر بھی کرم فرماتا ہے، وہ الگ بات ہے کہ بندہ صرف یکطرفہ نظر کا حامل ہے. یعنی اسے آتے ہوئے میں کرم اور جاتے ہوئے میں قہر دکھائی دیتا ہے، مصیبت عذاب اور آسائش کرم معلوم ہوتا ہے حالانکہ ان کا مفہوم متضاد بھی ہو سکتا ہے. انسان کسی انسان پر کوئی احسان کردے تو با ظرف آدمی اسکے گن گاتے نہیں تھکتا جبکہ ایسے کم ظرف بھی اسی دنیا ہی میں پائے جاتے ہیں کہ جو جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرنے کی مشقیں کرتے نظر آتے ہیں.
یہ تو خاک کی خاک سے وابستگی کا معاملہ ہے تو اس خاک کو کندن کرنے والے خالق کا معاملہ تو انوکھا، جدا، بے مثل اور قابل رشک ہونا چاہیے کہ جیسے اس نے بیکار کسی نہ کام کے مادے میں اپنے لفظ کن کی برکتیں یوں رسا کن کیں کہ آج ہر مخلوق انسان سے مقام اور مرتبے میں ناک کے نیچے کھڑی نظر آتی ہے ورنہ نوریوں کی حشمت بھی بڑی اعلی ہے اور ناریوں کا رتبہ بھی بہت بلند رہا ہے.
نمک حلالی اور نمک حرامی دونوں ہمارے معاشرے کی بہت مشہور اصطلاحیں ہیں. جو غلام اپنے مالک کا وفادار ہو اسے نمک حلال کہتے ہیں اور جو نمک بھی کھائے اور نمک والے سے وفا بھی نہ کرے وہ حلال کا نمک حرام ہوتا ہے. بس یہی مثال بندگان خالق حقیقی پر صادر آتی ہے کہ جیسے اللہ رب العزت نے انہیں شرف سے نوازا یہ ان نوازشات کا پورا پورا بدلہ چکائیں گوکہ پورا پورا حق ادا کرنے کا دعوی خود میں بہت بڑا بول ہے کیونکہ اس زندگی کا لمحہ لمحہ بھی اگر اسکی اطاعت میں گزار دیا جائے تو حق یہی ہے کہ حق ادا نہ ہوگا. مگر جتنی بساط ہے جہاں تک بن پڑے وہاں تک کمر بستہ رہنا ہی شکر گزاری ہے.
نعمت کا حق یہ ہے کہ جیسے خالق حکم فرمائے مخلوق ویسے آمین کہہ دے، آنکھیں نعمت، دیکھنا بھی نعمت، مگر جہاں ان کے جھکانے کا فرمان ہے وہاں ان نگاہوں کا اٹھنا نعمت کی تذلیل ہے. زبان نعمت، گفتگو بھی نعمت، مگر جہاں چپ رہنے کا کہا جائے وہاں بولنا اور جہاں بولنا فرض ہو وہاں خاموشی نعمت کی ناقدری ہے. بہادری نعمت اور بیباک دل اس سے بھی بڑی نعمت مگر جہاں حوصلہ کا درس ہو وہاں شجاعت کی شمشیر چلانا نعمت کی پامالی ہے. آسان لفظوں میں نعمت کی شکر گزاری کا پہلو یہ ہے کہ نعمت انعام کرنے والے کی مرضی کے مطابق اپنی منشا کو تیاگ دیا جائے... اسی میں دوامی کامرانی اور فلاح کے مقفل دریچوں کی کنجیاں موجزن ہیں.
تبصرہ لکھیے