ہوم << یہ شہرِ نبی ﷺ ہے - سعدیہ نعمان

یہ شہرِ نبی ﷺ ہے - سعدیہ نعمان

باورچی خاُنہ میں برتن دھوتے ہاتھ تھم گئے تھے اور پانی بند کرتے ہوئے میں جلدی سے کھڑکی کی جانب گئی تھی، آواز بہت پر سوز تھی اور یہ آواز جس کی مدح کا شرف حاصل کر رہی تھی، وہ ہستی ہاں وہ ہستی تو سب کچھ تھی۔
یا رب میری سوئی ہوئی تقدیر جگا دے
آنکھیں مجھے دی ہیں تو مدینہ بھی دکھا دے
آنکھیں مجھے دی ہیں تو،،،،،،،،،،،
میرے دل کی آواز تھی، دعا تھی جو آنسوؤں میں ڈھل رہی تھی۔ یہ کوئی دس بارہ سال کی بچی کی آواز تھی اور سامنے والے گھر سے آ رہی تھی۔
اگلے روز شام کے وقت پھر وہی سوز بھری آواز اور وہی نعت۔
میرے قدم بےاختیار ٹیرس کی طرف اٹھ گئے.
کچھ دیر بعد کھیر کا پیالہ لیے وہی بچی ہمارے گھر کے دروازے پہ موجود تھی.
”آنٹی یہ امی نے بھیجی ہے.“ وہ بولی
اندر آ جاؤ۔ میں نے اسے بٹھا لیا اور کہا کہ آپ نعت بہت اچھی پڑھتی ہو.
”جی آنٹی سکول میں نعتیہ مقابلہ ہے نا اسی کی تیاری کر رہی ہوں.“ اس نے بتایا.
”اچھا اللہ کرے آپ انعام حاصل کرو“. میں نے اسے دعا دی.
اس واقعہ کو آٹھ دس سال کا عرصہ بیت گیا، واہ کینٹ سے ملتان آئے تو وہاں کی بہت سی خوبصورت یادوں کے ساتھ ایک یہ یاد بھی جگمگ کرتی ساتھ آئی.
”آنکھیں مجھے دی ہیں تو مدینہ بھی دکھا دے.“
یہ آواز کانوں میں رس گھولتی اور ساتھ ہی نمی سی گالوں تک اترنے لگتی۔
جانے کیسے لمحے تھے وہ جب دل اور زبان یکجا ہوئے اور دعا آرزو کے قالب میں ڈھلی۔
”یا رب مدینہ میں گھر ہو اور بس وہیں موت آ جائے۔“
مدینہ میں گھر؟ کچھ نے حیرت کا اظہار کیا۔ ہاں تو مانگنے میں کیا ہے؟ رب ہی سے تو مانگا ہے اس کے لیے کیا مشکل؟
پھر کچھ سال سرک گئے۔ آنے والوں سے مدینہ کے محبت بھرے قصے سنتے اور رب کے حضور ایک درخواست پھر جمع کرواتے رہے.
یہ کہناآقا بہت سے عاشق
تڑپتے سے چھوڑ آیا ہوں میں
اور پھر منظوری ہوگئی، بلاوا آ گیا.
محبتوں سے گندھا ہوا پاکیزہ اور خوشبوؤں میں بسا شہر نبی ﷺ.
جو سکون اور راحت یہاں ہے وہ دنیا کے کسی خطے میں میسر نہیں۔
جنت البقیع کی دیوار کے ساتھ قدم اٹھاتے میں نے اندر جھانکا، شہر ِخموشاں کے باسی سکون کی نیند سو رہے تھے، میں نے سلام کیا اور کچھ دل کی باتیں بھی۔ مجھے یہاں جگہ مل جائے، ان ہستیوں کے قدموں میں۔ بخدا قبر سے زیادہ وحشت ناک جگہ کبھی کوئی محسوس نہیں ہوئی مگر یہاں تو ایک سکینت سی ہے کہ یہاں کے باسی بھی تو خاص ہیں۔ اچھا جلد ملیں گے۔
یہ شہدا روڈ ہے، سامنے احد پہاڑ اپنی سرخی مائل رنگت لیے سر بلند کھڑا ہے. مرے نبی ﷺ کو احد سے محبت تھی، اے احد مجھے بھی تجھ سے بہت محبت ہے، اس کی مٹی سے اک عجب سا لگاؤ محسوس ہوتا ہے، لگتا ہے احد پہاڑ کی زمین سانس لے رہی ہو اور دھڑکنیں محسوس ہوتی ہوں، کہ یہاں شہداء دفن ہیں اور شہید زندہ ہی تو ہوتے ہیں۔
مدینہ کی گلیاں ہیں، مدینہ کی رونقیں ہیں، مدینہ کی صبحیں ہیں، مدینہ کی شامیں ہیں۔ چودہ صدیاں یوں سمٹ جاتی ہیں گویا وقت کے دونوں سرے مل گئے ہوں۔ نگاہوں میں مدینے والے ہیں اور ان کی زندگیاں ہیں۔ جہاں ہم بیٹھے ہیں ہو سکتا ہے یہاں صحابیات میں سے کوئی بیٹھتا ہو، یہ جہاں عبداللہ کھیل رہا ہے، ممکن ہے یہاں عبد اللہ بن زبیر رض کھیلتے پھرتے ہوں اور حضرت اسما رضی اللہ عنہ ان کو تھامنے دوڑتی ہوں، یہ جہاں گاڑی پارک کی ہے، عین اسی جگہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر نے اپنے گھوڑے اور اونٹ باندھے ہوں۔ یہ ریاض الجنت میں جہاں سجدے میں سر رکھا ہے، عین اسی مقام پر، ہاں! عین اسی مقام پر میرے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک............ بس سوچ ختم ہو گئی ہے، ایک ہیبت سی طاری ہے.
یا رب مجھے اور میرے اہل و عیال کو مدینہ والوں کی زندگیاں عطا کر
یا رب تو ہمیں اس شہر میں رہنے اور اس کی ر حمتیں برکتیں سمیٹنے کا مستحق بنا دے۔
یا رحمان بس ایسا کر دے جیسا تو چاہتا ہے، ہم ویسے بن جائیں جن سے تو محبت رکھتا ہے، اور جو تم سے محبت رکھتے ہیں۔
یہاں فاصلوں میں ہیں قربتیں
یہاں قربتوں میں ہیں شدتیں
کوئی دور رہ کے اویس رض ہے
کوئی پاس رہ کے بلال رض ہے۔

Comments

Click here to post a comment