بیلاروس کے صدر الیگزینڈریا لوکاشنکو جب گذشتہ ہفتے اسلام آباد کے غیر معمولی دورے پر تشریف لائے تو میڈیا کی بہت کم نظر اس کے مقاصد تک جا سکی۔ اور یہ بات تو کافی دن بعد میں پتہ چلی کہ بیلاروس کے صدر کے دورہ پاکستان کے وقت پیوٹن والے روس کے نائب وزیر خارجہ بھی پاکستان میں موجود تھے اور اس کے بعد وہ اپنے دورے کے اگلے مرحلے میں نئی دہلی سدھار گئے۔
اب تو روس اور چین کا یہ دستور سا ہوگیا ہے کہ اس کے اعلیٰ عہدیدار جب بھی اس خطے کے کسی بھی قسم کے دورے پرتشریف لاتے ہیں تو (حوصلہ افزائی کے لیے ہی سہی) ہمارے ہاں کے بھی چکر لگا کر جاتے ہیں۔ یادش بخیر کسی زمانے میں یہ دستور امریکہ اور اس کی قیادت کا بھی رہا ہے، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بہت سے پاکستان کا دوست سمجھے جانے والے دیگر ممالک کی قیادت نے بھی اس عمل کو اپنا طریق بنایا ہوا تھا۔ لیکن امریکی صدر بل کلنٹن وہ آخری صدر تھا جس نے مشرف صاحب کے دور میں چند گھنٹوں کے لیے آخری مرتبہ یہ تکلف کیا اس کے بعد تو جب پاکستان نے مادر زاد امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں چھلانگ لگائی تو سفارتی محاذ پر ہمیں راندہ درگاہ کر دیا گیا۔
ظاہر ہے کہ ہمیں یہ بات سننے کو ملتی تھی کہ پیسے لے کر اپنے ملک پر حملہ کر دینے اور اپنے بندے مارنے والے کو ہم اپنا دوست کیسے کہہ دیں کہ دنیا میں ہم نے بھی کسی کو منہ دکھانا ہے۔ ایسے میں بھارت نے اس موقع سے خوب خوب فائدہ اٹھایا اور یوں خطے میں اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ امریکیوں کو لبھانے کی آخری کوشش کے طور پر ہم نے مشاہد حسین سید کو امریکہ روانہ کیا ہے کہ وہ اپنے ایرانی رابطوں کو عمل میں لا کر امریکیوں کو یہ باور کروائیں کہ ہم اب بھی بندے مارنے اور مروانے کے علاوہ بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔ تمام تر کوششوں کے باوجود بھی ق لیگ کے سینیٹر کو امریکہ میں ایک بہت ہی نچلے درجے کے عہدیدار سے ملاقات کا وقت مل پایا ہے۔
تاہم دوسری طرف نیٹو کی طرف سے جنرل پیٹر پاول کو ہی بھیجنا کافی خیال کیا گیا اور پیغام صرف ایک سطری تھا کہ ’’ آپ جو مرضی کریں لیکن مغربی (افغان ڈیورنڈ لائن) سے فوجیں ہٹانے کی کوشش نہ کیجیے گا‘‘۔ اس کا تو سیدھا مطلب یہی تھا کہ تم اور تمہارا ملک جائے بھاڑ میں، تم افغانوں کو گھیر کر ہمارے ہاں پیش کرو تاکہ ہم ان کا شکار کر سکیں جس طرح پرانے دور میں مغل بادشاہ شیر کا شکار کیا کرتے تھے۔ یعنی جو کام اربوں ڈالر لگا کر ہماری ایک لاکھ فوج نہیں کر سکی، تم صرف اس قیمت پر کرو جو ہم نے روک بھی لی ہے۔ ہم تمہیں یہ ’بول بچن‘ دیں گے کہ تم پر دہشت گردی کے مددگار ہونے کا الزام نہیں لگائیں۔ ظاہر ہے سامنے کوئی ایک فون کال پر ڈھیر ہوجانے والا جرنیل تو تھا نہیں، اس لیے صاف اور ستھرا جواب یہ دیا گیا کہ ہم کشمیر کی صورتِ حال سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔
اب کی بار دورہ کرنے والے نیٹو جرنیل سے میاں نواز شریف نے ملاقات کی۔ اور اس ملاقات کی جو سرکاری پریس ریلیز جاری کی گئی، اس میں صرف اور صرف کشمیر میں جاری بھارتی سفاکی اور جارحیت کا ذکر تھا اور کچھ نہیں تھا۔ اس کا مطلب صاف تھا کہ پاکستان نے نہ صرف اپنی سرحدوں کو اپنی مرضی سے حفاظت کرنے کی کوششوں کا دفاع کیا ہے۔ پاکستان کے سر پر ہر وقت سفارتی تنہائی کے جوتے برسانے والے نام نہاد ماہرین کو شاید اب روسی نائب وزیر خارجہ کے خطے کے دورے کا احساس ہو ہی جائے لیکن جب وہ پاکستان کے دورہ پر تشریف لائے توتب تک انہیں کسی نے درخورِ اعتنا نہیں جانا۔
ریاستی پروٹوکول کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ اصولی طور پر بیلا روس کے صدر الیگزینڈریا کاشنکو کا میزبان ان کے پاکستانی ہم منصب ممنون حسین کو ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا اور ہمارے وزیر اعظم میاں نوازشریف نے اپنے صدر کو ساتھ کھڑا کرنے کا تکلف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس کا مطلب کچھ اور بھی ہے۔ لیکن اندر کی بات یہ ہے کہ الیگزینڈر کو روسی صدر پیوٹن کا قریب ترین ہم راز سمجھا جاتا ہے۔ وہ پیوٹن کی خفیہ پیغام رسانی کے حوالے سے بھی معروف ہیں۔
ایسے میں بظاہر محسوس تو یہی ہوتا ہے کہ بڑھتی علاقائی کشیدگی میں کوئی کردار ادا کرنے سے مسلسل انکار کرنے اور اپنا وزن بدستور بھارتی پلڑے میں ڈالے رکھنے سے علاقے میں قوت کا جو عدم توازن اور خلا پیدا ہوا تھا اس کو پورا کرنے کے لیے خطے میں موجود دیگر علاقائی طاقتیں تو بہ عمل ہو رہی ہیں اور اس دفعہ اسلام آباد ان کو علاقے میں زیادہ ’’معتبر‘‘ بننے کے مواقع فراہم کر رہا ہے۔
ایسے میں جبکہ بھارت کے میڈیاء نے جنگی ماحول پیدا کر دیا ہے اور وہ سفارتی حوالے سے پاکستان کو تنہا کرنے کا دعویدار ہے، ایسے میں اس قدر اعلیٰ سطح کی سفارت کاری شاید سفارتی تنہائی نہیں کسی اور طرف اشارہ کر رہی ہے۔ ایسے میں ایک آدھ مزید دھرنا دے لینے اور اسلام آباد کو سیل کر لینے میں حرج ہے؟
تبصرہ لکھیے