چین کی حکومت خود بھی اس کلیے پر عمل کرتی ہے اور دوستوں کو بھی یہی نصیحت کرتی ہے کہ عمل زیادہ اور قول کم ۔ وہ منصوبوں کے اعلانات اور ان کے فوائد کے ڈھنڈورے کی بجائے اس بات کے قائل ہیں کہ منصوبے کو تکمیل اور فوائد کی شکل میں خود بولنا چاہئے نہ کہ منصوبہ ساز بولتے رہیں ۔چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور(CPEC) ان چھ اکنامک کاریڈورز میں سے ایک ہے جو چین کی حکومت ون بلٹ ون روٹ منصوبے کے تحت بنارہی ہے ۔ (1) چانئا منگولیا اکنامک کاریڈور (2) نیوایروایشیا لینڈ برج اکنامک کاریڈور (3) چائنا سینٹرایشیا ۔ ایسٹ ایشیا اکنامک کاریڈور (4) چائنا ۔انڈوچائنا پننسویلا اکنامک کاریڈور اور (5) بنگلہ دیش ۔چائنا۔انڈیا میانمار اکنامک کاریڈور ، پاکستان سے گزرنے والے کاریڈور کے علاوہ ہیں۔ اب پورے چین میں ان چھ کاریڈورز کا اتنا ڈھنڈورا نہیں پیٹا گیا جتنا کہ پاکستانی حکمرانوںنے ایک کا پیٹ دیا بلکہ عام چینیوں کو علم تک نہیں کہ ان کی حکومت کیا کررہی ہے ۔
اسی طرح مزید پانچ کاریڈورز خطے کے ایک درجن سے زائد ممالک سے گزررہے ہیں لیکن کسی اور حکومت کی طرف سے آپ نے اعلانات سنے ہوں گے اور نہ اشتہارات دیکھے ہوں گے ، اسی طرح چونکہ ان کو علم ہے کہ بنیادی طور پر یہ چینی حکومت کے منصوبے ہیں جن سے ان کو بھی فائدہ مل رہا ہے ، اس لئے کسی اور ملک کی حکومت نے ان کو اپنا کارنامہ بھی قرار نہیں دیا لیکن پاکستانی حکمران سیاسی مقاصد کے لئے اٹھتے بیٹھتے ، ہر جلسے ، ہر پریس کانفرنس اور اجلاس میں اس کا ورد کرتے رہتے ہیں ، جس کی وجہ سے عام پاکستانی کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ شاید چینی حکومت پیسے، ترقیاتی پروجیکٹس اور خوشحال دنیا میں داخلے کے ٹکٹ بانٹ رہی ہے جس میں اس کو اس کا حصہ نہیں مل رہا ۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ پروجیکٹ ابھی شروع نہیں ہوا تھاکہ سی پیک کے دشمن پہلے سے متحرک ہوگئے۔
چین اگرچہ فیڈریشن نہیں لیکن اس کے حکمرانوں نے اپنی طرف کے جے سی سی (JCC) ( جو سی پیک کے حوالے سے اصل فیصلہ ساز فورم ہے اور جس میں دونوں حکومتوں کے نمائندے بیٹھ کر منصوبوں کا تعین کرتے ہیں اور پھر اس کے تحت قائم چار ورکنگ گروپس عمل درآمد کو یقینی بناتے ہیں) میں سنکیانگ کی ریاست کو مستقل ممبر بنا دیا ہے اور ہر ورکنگ گروپ میں بھی اس کا نمائندہ بیٹھتا ہے لیکن پاکستان کی حکومت نے تنازعات کا شکار فیڈریشن کی حکومت ہو کر بھی صوبوں اور گلگت بلتستان یا کشمیر کو نمائندگی نہیں دی ۔ گزشتہ تین سال سے یہی میرا اور چھوٹے صوبوں کی حکومتوں کا مطالبہ ہے لیکن حکمران ، اسے ایک پارٹی یا پھر ایک خاندان کا پروجیکٹ بنانے پر مصر ہیں ۔ اگر پرویز خٹک یا مراد علی شاہ خود وہاں بیٹھے ہوتے تو آج وہ کس منہ سے اعتراض کرتے اور مجھ جیسے لوگوں کو اعتراض کی ہمت کیسے ہوتی؟۔
چین کی ضرورت صرف ایک یعنی مختصر ترین راستے سے گوادر تک پہنچنا ہے اور باقی چھ کاریڈورز وہ جہاں بنارہا ہے ، وہ بنیادی طور پر انفراسٹرکچر کے پروجیکٹس ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں نے سیاسی ضرورتوں کے تحت اس میں انرجی کو اولیت دی ۔ پھر اسی سوچ سے کہ 2018ء تک مکمل ہوکر اگلے انتخابات کے لئے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوں ، ہائیڈل کی بجائے صرف اور صرف تھرمل پروجیکٹس کو ترجیح دی ۔شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس میں کمائی کے مواقع بھی زیادہ تھے ۔ پھر ان میں بھی ایک خاص علاقے کو اولیت دی ۔ پھر ان معاہدوں کی تفصیلات کو اخفا میں رکھا اور آج تک پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کو نہیں دکھارہے ہیں ۔ اسی طرح انفراسٹرکچر کے ٹھیکوں کی تفصیلات کو بھی خفیہ رکھا جارہا ہے ۔ یہی شکایت سینیٹر تاج حیدر کی سربراہی میں قائم سینیٹ کی خصوصی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کی ہے ۔اب چلیں بقول احسن اقبال صاحب میں تو تعصب کا شکار ہوگیا ہوں یا پھر ان کے بقول کسی کا ایجنٹ ہوں لیکن تاج حیدر صاحب اور ان کی کمیٹی کے دیگر ارکان تو ایسی کسی بیماری میں مبتلا نہیں ۔ پھر انہوںنے بعینہ وہی شکایت کیوں کی ہے جو میں گزشتہ دو سال سے کررہا ہوں۔
مغربی کی بجائے مشرقی روٹ کو ترجیح دینا ہو، ہائیڈل کی بجائے ، تھرمل بجلی کے منصوبوں کو فوقیت دینا ہو یا پھر بلوچستان اور گلگت بلتستان کی بجائے وسطی پنجاب کو منصوبوں کا مرکز بنانا ہو، سب کچھ پلاننگ کمیشن نے کیا ہے ۔ میرے پاس جے سی سی کے سارے منٹس موجود ہیں جس میں چینی ذمہ داران اسٹرٹیجک پہلوئوں کو مدنظر رکھنے پر زور دے رہے ہیں لیکن پاکستانی نمائندے ان کو اپنی علاقائی ، سیاسی اور مالی ضرورتوں کے تحت منصوبوں پر قائل اور مجبور کررہے ہیں اور چینی نمائندوںنے پاکستان ہی کی بات مانی ہے ۔ لیکن جب ہم جیسے لوگ کچھ حقائق سامنے لے آئے تو حکومتی ترجمان ، چین کی حکومت کو بدنام کرکے یہ عذر پیش کرنے لگے کہ یہ تو چینی بھائیوں کے پروجیکٹس ہیں اور جو کچھ کیا ہے چینیوں نے کیا ہے ۔ گویا اپنے مالی اور سیاسی مفادات کی خاطر ، قوم سے جھوٹ بول کر چین جیسے محسن دوست کو اپنے عوام اور سیاستدانوں کی نظروں میں متنازع کرنے کی کوشش کی ۔
پاکستانی حکمران نہ صرف مغربی روٹ بلکہ دیگر پروجیکٹس سے متعلق غلط بیانی سے کام لیتے رہے ۔ پہلے یہ کہا جاتا رہا کہ مغربی کی بجائے مشرقی روٹ بدلا ہی نہیں گیا لیکن جب ہم جیسے لوگ حقائق سامنے لے آئے اور ایک طرف حویلیاں تا اسلام آباد (واضح رہے کہ حسن ابدال کی بجائے اسے اسلام آباد تک تعمیر کیا جارہا ہے اور اگر مستقبل میں بھی مغربی راستے کو روٹ بنانے کا ارادہ ہوتا توپھر اس کا رخ حسن ابدال سے اسلام آباد کی طرف نہ موڑا جاتا ) موٹروے اور دوسری طرف لاہور ملتان اور ملتان کراچی موٹروے کی تعمیر شروع ہوئی جبکہ مغربی روٹ پر خاموشی تھی تو صدائے احتجاج بلند ہوا۔ جس سے مجبورہوکر پہلی اے پی سی بلائی گئی ۔ اس میں وزیراعظم نے قوم کے سامنے اعلان کیا کہ پہلے مغربی روٹ مکمل کیا جائے گا لیکن وعدہ مکمل کرنے کی بجائے سی پیک کے مغربی روٹ کے نام پر ژوب میں ایک عام سڑک کا افتتاح کروا کر دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی ۔ پھر جب ہم جیسے لوگوں نے اس دھوکے کی نشاندہی کی اور پھر دبائو بڑھا تو دوسری اے پی سی بلائی گئی ۔
دوسری اے پی سی میں وزیراعظم نے پھر تمام سیاسی رہنمائوں سے زبانی وعدہ کیا کہ مغربی روٹ کو ترجیح دی جائے گی لیکن اعلامیہ جاری کرتے وقت دھوکہ دے دیا گیا ، جسے عمران خان سمجھ سکے اور نہ پرویز خٹک ۔ وہ دھوکہ کیاکیا گیا، زندگی رہی تو اگلے کالم میں اس کا جواب دینے کی کوشش کروں گا کیونکہ جنگ کے ایڈیٹوریل صفحے کے منتظمین نے سختی سے احکامات جاری کردئیے ہیں کہ کالم کا سائز ایک ہزار الفاظ سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے ۔ تاہم مذکورہ چند حقائق سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سی پیک کو کسی اور نے نہیں بلکہ خود موجودہ حکومت نے متنازع کردیا ہے اور اسی وجہ سے جہاں ہماری آئندہ نسلیں چین کو محسن سمجھیں گی ، وہاں موجودہ حکمران ان کے مجرم ہوں گے ۔واضح رہے کہ چینی سفارتخانے کے وضاحتی بیانات ، وفاقی حکومت کے موقف کی تائید نہیں بلکہ تردید کررہےہیں ۔افسوس کہ پرویزخٹک صاحب آج تک سی پیک کو سمجھ پائے ہیں اور نہ اس پریس ریلیز کو ، اس لئے چینی سفیر سے متعلق غلط بیانی کرکے سفارتی آداب کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ آج ہی کے کالم میں واضح کرلیتاسفارتخانے کی پریس ریلیز کس طرح ہمارے موقف کی تائید اور حکومتی موقف کی تردید ہے لیکن ادارتی صفحے کے حکام کی ناراضی سے بچنے کے لئے ایسا نہیں کرسکتا ۔زندگی رہی تو وہ وضاحت بھی پھر کبھی۔
تبصرہ لکھیے