ہوم << مفتی منیب صاحب اور جوابی کالم پر رد عمل - حافظ یوسف سراج

مفتی منیب صاحب اور جوابی کالم پر رد عمل - حافظ یوسف سراج

یوسف سراج گزشتہ کالم پر ملک و بیرون ِ ملک سے کئی طرح کا ردِ عمل یا کہہ لیجیے فیڈ بیک موصول ہوا۔ جن لوگوں نے دعائیں دیں اور جو خوش ہوئے ان کا حساب درِ دل درج ہوا، تاہم جن کا نقطۂ نظر اس کے سوا تھا، ان میں سے ایک امارات کے مستند کالم نگار منیر احمد خلیلی صاحب کا کہنا تھا کہ آپ کے موقف سےگو اتفاق کرتا ہوں مگر علمی مؤقف صرف دلائل اور سنجیدگی سے پیش ہونا چاہیے، عرض کیا، چلیے اگلی نشست یوں سہی، ویسے کاش وہ چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی میں ہونے والی اہلِ سنت کانفرنس کون؟ کی ویڈیو دیکھ لیتے۔ یقین کیجیے میں نے اس قدر سنجیدہ موضوع کو اس قدر منظم رقص کے تحت کبھی بروئے کار آتے نہیں دیکھا۔ یادش بخیر، مولانائے محترم مفتی منیب صاحب نے اردو اخبارات کی تاریخ میں اپنے پہلے بااعراب نیم عربی کالم میں لکھا تھا کہ یہ کانفرنس صرف اہل سنت کی تعریف کا حدود اربعہ مقرر کرنے کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ یقینا ایسا ہی ہے اور یہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی رہی۔ اتنی کہ جب تعریف کا اصلی حدود اربعہ مقرر ہوچکا تو الحمدللہ آدھے اہلِ سنت اپناحقیقی حدود اربعہ کھو چکے تھے۔ ویسے میرے ساتھی الل ٹپ کا کہنا ہے کہ بات اگر صرف تعریف ہی مقرر و متعین کرنے کی تھی تو اس کے لیے تو محض کسی پروفیسر کی نیم پخت پی ایچ ڈی کو تکلیف پہنچا کے بھی کام چلایا جا سکتا تھا، آخر اس کی خاطر گروزنی میں کروڑوں کے اخراجات اٹھا کے پیوٹن کو منظم رقص پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ مفتی صاحب نے مزید لکھا تھا کہ تعریف متعین کرنے کے لیے آنے والے مہمان عالمی سطح کے جید سکالر تھے۔ اس بات کی تحقیق اس لیے مشکل ہے کہ وہاں سکالرانہ عالم ِرقص میں معلوم و نامعلوم، شاہد و مشہود اور من و تو میں فرق کرنا بےحد مشکل بلکہ ناممکن ہو گیا تھا۔ اگر آپ وہ مبارک ویڈیو دیکھنے کی سعادت سے واقعی محروم رہ گئے ہیں تواس عاجز پر یقین کرلیجیے کہ اس روح پرور باوردی رقص میں ہر عالِم کا وہ عالَم تھا کہ سبحان اللہ ثم سبحا ن اللہ !یعنی
ایک ہی صفِ (رقص) میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی ’عالِم ‘رہا نہ عالم لوہار
ایک قاری کا خیال یہ تھا کہ مجھے محض مفتی صاحب کی عینک کو دیکھ کے کالم سے نہیں بدکنا چاہیے تھا۔ ان کا خیال تھا کہ عینک سے نہیں مجھے صاحبِ عینک سے کوئی معاملہ ہے، میں نے عرض کی کہ ہرگز نہیں۔ مفتی صاحب کے لیے میں نے کل بھی سنجیدہ و متین کے الفاظ استعمال کیے اور آج پھران کی شخصیت کے لیے اپنے انھی الفاظ پر اصرار کرتا ہوں۔ پیر نصیرالدین مرحوم کے بعداپنے مشرب میں آنجناب کا شمار ان چیدہ و چنیدہ شخصیات میں ہوتا ہے کہ جن کا احترام بین المسالک طور پر مسلم ہے۔ پھر مفتی صاحب کی نستعلیق نثر اور شستہ فکر کا میں باقاعدہ مداح ہوں۔ سچ کہوں تو مفتی صاحب جیسا بےباک آدمی پورے مسلک میں شاید دوسرا کوئی نہ ہو۔ کوئی ہے جو نعت جیسی مقدس و مطہر صنف کو سٹیج پر جھومتے نعت خوانوں پر وارے جاتے نوٹوں تلے دبی دیکھ کر بلبلا اٹھے اور اپنے اخباری کالم میں اسے سٹیج کی اُس ذوق مند صنف سے تشبیہ دے ڈالے کہ جسے پہلے شرفا چھپ چھپا کے کوٹھوں پر دیکھتے تھے اور آج کوٹھی میں مع فیملی اکتائے اکتائے دیکھتے ہیں۔ اور یہ بھی مفتی صاحب ہی تھے کہ جنھوں نے انٹرنیٹ پر وائرل ہو جانے والی اپنی ایک ویڈیو میں اپنے ہی ناموروں کو لتاڑ ڈالا کہ یہ جو ان کی غفلت یا تساہل کی بناپر خانقاہوں پر سجدہ ہائے جہالتِ ہو رہے ہیں اور یہ جو اس دنیا کی دیگر خرافات انھوں نے ڈھونڈ نکالی ہیں تو کیا اللہ کے ہاں دینے کے لیے اس کا کوئی جواب ہے ان کے پاس؟
دیکھیے دماغ اللہ نے سبھی کو الگ دیا ہے اور سوچ و فکر کی انفرادیت پر پابندی تو بےدماغوں کا دماغ ہو سکتی ہے اور کچھ نہیں، چنانچہ کسی کی فکر و فقہ سے اختلاف کرنا آپ کا محفوظ حق ہے۔ مگر شخصیات کا احترام بھی میرے ہاں واجب ترین ہے۔ اس کالم کے قارئین گواہ ہیں کہ اس خاکسار نے ممتازقادری کے حق میں اس وقت کالم لکھ ڈالا تھا کہ جب قلم اور کیمرے اور نوا اور وفا سبھی پر سلطانی پابندی عائد تھی۔ ’’سب اچھوں میں کیا اکیلا طاہرالقادری برا ہے؟‘‘ اس عاجز نے طاہرالقادری صاحب کے لیے یہ سوال اس وقت اٹھایا تھا کہ جب مذہبی و مسلکی اور سیاسی لوگ ہی نہیں، قاسمی و صدیقی صاحبان جیسے سرخیلِ صحافت بھی اپنے قلم کی جملہ جولانیاں اور اپنے فکر کی جمیع طغیانیاں بحق نوازشریف اور بخلاف ِ قادری صرفِ درِ میکدہ ٔ محبت کر چکے تھے۔ اور ہاں ٹھیک اس کالم سے پچھلا کالم اِس آدمی نے الزامات کی زد میں آئے اُس مولانا الیاس گھمن کو دستیاب شرعی حقوق کا واویلا کرتے لکھا تھا کہ جس الیاس گھمن صاحب کی تیزی زبان اور نامطلوب شعلے برساتی تقریر اس عاجز کو کبھی خوش نہیں آئی تھی۔ انسان ہوں اور غلطی کا پتلا مگر واقعہ یہ ہے کہ جب سے اخبار کے لیے قلم سنبھالا ہے۔ اسے قومی مفاد کی خاطر گروہی اور ادنیٰ مفادات سے جدا کر لیا ہے اور کم از کم اس کالم پر خدا کے بعد انسانوں میں سے سب سے پہلا حق مظلوم کا خود پر عائد کر رکھا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ اس کا رنگ، نسل یا قومیت کیا ہے۔ ویسے توا س سے بڑا جھوٹ بھی کوئی نہیں کہ کوئی اپنے آپ کو غیر جانبدار قرار دینے لگے ؎
ہوس چھپ چھپ کے سینے میں بنا لیتی ہے تصویریں
(ہاں آدمی کی ہمت یہ ہے کہ سینے میں پلتے تعصبات کو امکانی حد تک کم ترین سطح پر لے آئے۔) اور اس سے بڑا جرم اور افسوس بھی کوئی نہیں کہ گھٹیا مفادات کی خاطر آدم کی اولاد اور رسولِ رحمت کی امت کو رنگوں، مسلکوں اور فرقوں میں بانٹ دیا جائے۔ لیجیے احباب آج انھی غیر ضروری اور فضول گزارشات پر اکتفا کیجیے۔ فضول اور غیر ضروری اس لیے کہ اگر ہم انھیں مان ہی لیتے یا ان چیزوں کا اثر ہی لیا کرتے تو بھلا ایسی وضاحتوں کی نوبت ہی کیوں آتی۔ ان شااللہ ا س نوعیت کی چند سنجیدہ اور آخری باتیں اگلی نشست میں پڑھیے گا۔ اللہ حافظ !

Comments

Click here to post a comment