ہوم << مسجدِاقصیٰ سرنگوں کی زد میں - مسعود علوی

مسجدِاقصیٰ سرنگوں کی زد میں - مسعود علوی

مسعود احمد علوی مسلمانوں کے قبلہء اول، مسجدِ اقصیٰ کو شہید کر کے اس کی جگہ ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر اسرائیلیوں کا پرانا خواب ہے۔ اور اپنے اس خواب کی جلد سے جلد تکمیل کے لیے اسرائیل نے زیر زمین خفیہ سرنگوں کا جال پھیلانا شروع کر دیا ہے۔ اپنے دیگر مذموم مقاصد کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ان سرنگوں کے بنانے کا ایک بڑا مقصد مسجد اقصیٰ کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا بھی ہے۔
مذہبی کتابوں کی پیشن گوئیوں کو پورا کرنے کیلئے یہودی انتہا پسند سمجھتے ہیں کہ ایک تیسرا ہیکل لازمی تعمیر کیا جانا چاہئے، لیکن ان کیلئے ایک ناخوشگوار حقیقت یہ ہے کہ اس مخصوص جگہ پر اسلام کے مقدس ترین مقامات مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخریٰ موجود ہیں۔ اسرائیلی ان قدیم ہیکلوں کا سراغ بھی لگانا چاہتے ہیں جو جو 586 قبل مسیح اور 70 عیسوی میں تباہ کر دیے گئے تھے۔
ایک فلسطینی نژاد امریکی صحافی کے بقول "دن کے اوقات میں جب اسرائیلی بلڈوزر یہودی بستیوں میں توسیع کیلیے فلسطینی علاقوں میں زمین کھودتے، ٹیلوں کو ہموار کرتے اور زیتون کے درختوں کو تباہ کرتے ہیں، تو راتوں میں بھاری مشینری کے ذریعے یروشلم یا القدس کے قدیم شہر کے نیچے زیر زمین کھدائی کرنے کا کام بھی کیا جاتا ہے"۔
مسجد اقصیٰ کو منہدم کرنے کی کارروائیوں کی رفتار کتنی تیز ہو چکی ہے اس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے، جس کے مطابق الاقصیٰ کی حیثیت کے تعین کے بارے میں بحث کے آغاز کے دوسرے روز رات کے 3 بجے یروشلم کے جنوب میں سلوان کے علاقے کے قریب وادی " الحِلوہ" میں ایک زوردار دھماکہ سنائی دیا۔ مکینوں نے رات بھر اپنی گھروں کے نیچے یعنی زیر زمین بھاری مشینوں سے کھدائی کیے جانے کی آوازیں سنیں۔ معان نیوز ایجنسی کے مطابق اس کے بعد ایک بڑی دیوار اچانک منہدم ہو گئی اور کئی گھروں کو بھی نقصان پہنچا۔
اسرائیلی کسی بھی قیمت ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کا عمل مکمل کرنا چاہتے ہیں، لیکن ان کے لیے سب سے بڑی پریشانی کی بات یہ ہے کہ جس جگہ وہ ہیکل تعمیر کرنا چاہتے ہیں ٹھیک اسی جگہ پر مسلمانوں کے مقدس مقامات مسجدِ اقصیٰ اور قبۃ الصخریٰ موجود ہیں، جن پر کبھی کسی بھی قیمت مسلمان سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہو سکتے۔ یہ مقامات تقریباً پانچ عشروں سے مستقل خطرے میں ہیں۔ حملوں، آتشزنی، فوجی حملوں کا نشانہ بننا تو معمول کی بات ہے۔ اس علاقے میں ذمہ داریاں سرانجام دینے والے مسلم علماء ہمہ وقت جاری اسرائیلی خطرے کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں، جو بسا اوقات ان کے لیے ہلاکت خیز بھی بن جاتا ہے۔
اسرائیلی لیڈر ایریل شیرون نے 2000ء میں الاقصیٰ کمپاؤنڈ کے اندر اپنے شرانگیز دورے کے لیے بھی ٹھیک اسی جگہ کو منتخب کیا تھا، جہاں یہ ہیکل بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اپنے مذموم عزائم کے اظہار پر شیرون تو بعد میں اسرائیل کے وزیر اعظم بن گئے جبکہ یہاں نمازیں پڑھنے والے سینکڑوں لوگ شہید کر دیے گئے۔ نیتن یاہو کی موجودہ حکومت بھی مسجداقصیٰ کو اسرائیلی حدود میں ضم کرنے پر تلی ہوئی ہے اور اس نے اس حوالے سے اپنی کارروائیوں کو تیز کر دیا ہے۔
نیتن یاہو حکومت اوراس کے خیرخواہوں کی ایک بڑی تعداد مسلم اکثریت کے اس علاقے میں بزورِ طاقت اسرائیلی حکومت کی "خودمختاری" نافذ کیے جانے کے خواہاں ہیں۔ جبکہ طاقت کے اس نشے میں وہ یہ بھول چکے ہیں کہ 1994ء کے اردن-اسرائیل امن معاہدے کی رو سے اس علاقے کا انتظام اردن کے ذمے ہے۔