نئے دور کی نئی باتیں جو سمجھ سے بالاتر ہیں. ایک دور تھا جب کسی شخص کی عزت اس کی تعلیم، تہذیب، نظریات، خوش اخلاقی اور بلند خیالی کی وجہ سے کی جاتی تھی، چاہے وہ کوئی امیر ہو یا پھر غریب۔ وہ گھرانہ ہی اعلیٰ کہلاتا تھا جس کے پاس تعلیم، تہذیب اور رکھ رکھائو تھا۔ جبکہ آج کے دور میں معاشرے میں صرف ان لوگوں کی عزت کی جاتی ہے جن کے پاس پیسہ ہو یا پھر وہ منہ بنا بنا کر انگلش بولتے ہوں. یہ ہم کس سمت جا رہے ہیں؟ ہمیں پتہ ہی نہیں ہے. ہم نے اپنی تہذیب، اپنا کلچر اور اپنی زبان تو کہیں گم کر دی ہے.
حال ہی میں ایک نجی یونیورسٹی میں ایک ورکشاپ میں جانا ہوا۔ یونیورسٹی جدید طرز کے مطابق بہت خوب صورت بنی ہوئی ہے، بڑے بڑے کلاس رومز، جدید کمپوٹر لیب، کینٹین، پلے گرائونڈ، اور بہترین اساتذہ جو دیار غیر سے فارغ التحصیل ہو کر آئے ہیں اور وہ اپنے طلبہ کو ہر معلومات اور آگہی دے رہے ہیں مگر افسوس کہ اپنی تہذیب اور اپنی زبان کے علاوہ۔ اُس ورکشاپ میں بہت اچھی اچھی باتیں سکھائی جا رہی تھی،گفتگو اور طرز تکلم بھی سیکھا گیا لیکن تمام کی تمام انگریزی میں. اچھی بات ہے ہمیں دوسری زبان پر بھی عبور حا صل ہونا چاہیے لیکن اپنی مادری زبان کا کیا ہوگا؟ اس کو پس پشت پر ڈال کر مغربی زبان کو اہمیت دی جائے گی؟ ہم مغربی تہذیب میں ایسے رچ بس گئے ہیں کہ بس ممی، ڈیڈی، پاپا، مام ہی زبان سے نکلتا ہے، باباجانی، ابو، امی، اماں جیسے الفاظ کی مٹھاس تو کہیں گم کردی گئی ہے. زبان تو زبان، لباس بھی مغربی ہوتا جارہا ہے، اُس تعلیمی ادارے میں بیشتر ٹیچرز مغربی لباس میں ملبوس تھیں۔ کہتے ہیں استاد طالب علم کے لیے مثالی کردار ہوتے ہیں، سوچنے کی بات ہے جب استاد مغربی تہذیب کی پیروی کر رہے ہوں تو طالب علم کا کیا حال ہو گا. یہ صرف ایک ادارے کی بات نہیں ہے، تقریباً ہر پرائیویٹ یونیورسٹی اور کالج کا یہی حال ہے۔
یونیورسٹی سے واپسی کے بعد دل مضطرب رہا اور سوچتی رہی کہ کیا ہم بے راہ روی کا شکار ہو تے جارہے ہیں؟ ہماری تہذیب جو خدا پرستی اور فکر آخرت کی اساس پر قائم ہے اور عفت و عصمت کے ستونوں پر کھڑی ہے، مغرب کی دنیا پرست اور آزاد تہذیب سے مغلوب ہونا شروع ہوگئی ہے۔ ممکن ہے کہ ہم قوم پرستی کے جذبے سے مغرب کے خلاف کھڑے ہوں، مگر تہذیبی طور پر مغربی انداز فکر کو قبول کرچکے ہیں۔ آج معیارِ زندگی بلند کرنے کی جو دوڑ لگی ہوئی ہے اور دنیاوی لذتوں اور تعیشات کو زندگی کا مقصد بنا لینے کا جو عمل شروع ہوگیا ہے، اس کے نتائج ہمارے کھوکھلے اخلاقی وجود کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔ ہم دنیا بھر سے اسلام کے نام پر لڑتے ہیں، مگر انفرادی یا اجتماعی سطح پر اپنے سیرت و کردار میں وہ مثالی نمونہ پیش نہیں کرپاتے جو صحابہ کرام یا ان کے بعد بھی مسلمانوں کا شعار تھا۔ مثالی ہونا تو دور کی بات ہے ہم معمول کا وہ اخلاقی رویہ بھی پیش نہیں کرپاتے جس کی توقع بحیثیت ایک اچھے انسان سے کی جاسکتی ہے.
آج ہمارے اکثر تعلیمی اداروں میں یہ بات دیکھی جا رہی ہے کہ وہاں ’’ہم نصابی‘‘ لیکن درحقیقت غیر تعمیری سرگرمیوں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ خصوصاً گرلز کالجز اور نجی تعلیمی اداروں میں غیر نصابی پروگرامز اور فن فیئرز کے نام پر اخلاقیات کی حدود پامال کی جا رہی ہیں۔ سالانہ تقریبات، مقابلہ حسن، فیشن شوز، ملبوسات کی نمائش، کیٹ واک اور کبھی ڈانس مقابلوں کے عنوان سے پروگرامز کے انعقاد کے ذریعے ہماری ملی و دینی، ثقافتی اور قومی غیرت وحمیت کا جنازہ نکالا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں پرائمری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک تعلیمی اداروں میں ’’روشن خیالی‘‘ کے نام پر جو وبا پھیل رہی ہے، وہ ہمارے معاشرے اور تمدن کودیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اور نتیجتاً ان تعلیمی اداروں سے محب وطن لوگ اور مستقبل کے دانشور پیدا ہونے کے بجائے رومانوی داستانوں کے ہیروز اور مستقبل کے لالی وڈ اور ہالی وڈ کے ’’ٹاپ ا سٹارز‘‘ بنائے جا رہے ہیں۔
معاشرے اپنی تہذیب، تمدن اور ثفاقت سے پہچانے جاتے ہیں، سوچتی ہوں کہ ہمارا ملک کس تہذیب سے پہچانا جائے گا؟ کیا مغربی تہذیب سے؟ جبکہ یہ تو ایک اسلامی ملک ہے، ہماری اپنی تہذیب اور ثفاقت ہے، ہمارا اپنا لباس بہت خوب صورت ہے، پھر ہم کیوں اس کو ترک کر کے دوسروں کی پہچان اپنا رہے ہیں؟ یہ ہم کس راہ پر گامزن ہیں؟ کیا ہمارے ملک سے ہماری زبان، ثفاقت بلکل ختم ہو گئی ہے.
اسی شام ایک بہت نفیس اورسادہ طبیعت کے مالک معروف کالم نگار و شاعریعقوب غزنوی صاحب سے روزنامہ امت کے دفتر میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا، ان کی گفتگو سے مستفید ہوئے تو دل کو سکون ملا کہ آج بھی ہمارے درمیان ایسی مثالی کردار موجود ہیں جن کی وجہ سے ہماری زبان اور تہذیب زندہ ہے. ان کا تعلیمی سفر کیسا تھا؟ انہوں نے لالٹین کی روشنی میں تختی پر لکھ لکھ کر وہ تعلیم حاصل کی تھی جو آج کی نسل ہر آسائش ہونے کے باوجود بھی حاصل نہیں کر سکتی، ان کی اچھی اچھی باتیں سن کر میں نے صبح و شام کا موزانہ کیا، صبح کیا سبق سیکھا اور شام میں کیا سیکھا؟ وہاں لبر ل لوگوں کی زبان سے قرآن کا ترجمہ سن کر کیسا لگا تھا اور ابھی ان سے اسلام کی تاریخ سن کر کیسا لگ رہا ہے۔ ہمیں یقوب غزنوی صاحب جیسے قلم اور زبان سے محبت کرنے والے لوگوں کو اپنا مثالی کردار بنانا چاہیے جنہوں نے اپنے ہی ملک میں رہتے ہوئے ہی بڑی جدوجہد سے کامیابی حاصل کی نہ کہ ان لوگوں کو اپنا مثالی کردار بنائیں جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مغرب میں گزرا اور وہی سے تعلیم حاصل کی اور آج وہ ہمارے ملک بھی مغربی تہذیب اور ثقافت کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہمیں مغرب کے بجائے اپنی زبان، ثقافت اور تہذیب کواجاگر کرنا ہے! ہماری اپنی زبان جو مٹھاس، ہماری اپنی تہذیب میں جو آداب و شائستگی ہے، ہمارے اپنی ثقافت میں جو پاکیزگی ہے وہ مغرب میں نہیں۔
تبصرہ لکھیے