زندگی میں دو خواہشیں ایسی تھیں کہ رب کائنات نے میری بساط سے بڑھ کر پوری کیں۔ پہلی تھی کہ میری ایک بیٹی ہو، اور دوسری کسی ایسی درس گاہ میں پڑھنا جس کی روایت صدیوں پیچھے سے چلی آتی ہو۔ میرے اللہ نے بیٹی بھی دی اور قدیم درس گاہوں کے ملک برطانیہ کی ایک سات سو سالہ پرانے شہر لیسٹر کی ایک قدیم درس گاہ سے ابلاغیات پڑھنے کا موقع بھی دیا۔
اسی یونیورسٹی میں پہلے ہفتے کا ذکر ہے کہ ہمارے پروفیسر نے پہلی اسائنمنٹ دی۔ گزشتہ لیکچرز کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک موضوع پر دو ڈھائی ہزار الفاظ لکھنا تھے۔ تقریباً سب ہی طالب علم جو مختلف ممالک سے آئے ہوئے تھے، نروس تھے کہ جانے پہلی اسائنمنٹ کیسی لکھی جائے۔ پروفیسر نے کلاس کی اس حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ رعایت کی کہ اسائنمنٹ کو باقاعدہ جمع کروانے سے پہلے وہ پروفیسر کی اسسٹنٹ کترینہ کو ایک نظر دکھا سکتے ہیں، تاکہ واضح قسم کی غلطیاں درست کی جاسکیں۔
لکھنا لکھانا تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اسکول کے زمانے میں رسالے کی ادارت اور کالج کی ادبی سرگرمیوں کے بل پر اتنا تو اندازہ تھاکہ آٹھ دس صفحات کسی موضوع پر لکھنے کے لیے مجھے کوئی خاص تردد نہیں کرنا پڑے گا۔ یونیورسٹی سے واپس ہاسٹل آیا اور ایک کپ چائے پی کر لکھنے بیٹھ گیا۔ دو گھنٹے میں آرٹیکل تیار تھا۔ مگر میں نے احتیاطاً پروفیسر کی اسسٹنٹ کو دکھانا ضروری سمجھا، حالانکہ میرے نزدیک اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔
مس کترینہ کا کمرہ یونیورسٹی کی فالکن بلڈنگ کی آٹھویں منزل پر تھا اور اس بلڈنگ میں آج کل کی ماڈرن لفٹ نہیں تھی، بلکہ ایک پرانی جھولا نما چیز تھی جس میں جھولے آپ کے سامنے اوپر نیچے آتے جاتے ہیں۔ آپ کو چلتے جھولوں میں چڑھنا ہوتا ہے اور منزل آنے پر چلتے جھولے سے ہی چھلانگ مار کر اترنا پڑتا ہے۔
مس کترینہ گردن تک کٹے بالوں اور گول شیشوں والی عینک کے ساتھ پی ایچ ڈی اسکالر کے بجائے نویں جماعت کی طالبہ لگتی تھی۔ لیکن یہ بات میں نے تب اسے نہیں بتائی جب اس نے میری اسائنمنٹ کا پہلا صفحہ پڑھتے ہی اعتراض جڑ دیا، ”حوالہ نہیں ہے، حوالہ ہونا ضروری ہے، اسے مکمل کر کے لاؤ۔“، اس نے میکانیکی انداز میں کاغذوں کا پلندہ مجھے واپس کر تے ہوئے کہا۔
کم علمی انسان کو کتنا بے بس کر دیتی ہے، اس دن میری سمجھ میں آیا۔ بچپن میں ہم جس محلے میں رہتے تھے، اس کے کونے والی سڑک پر ایک اسنوکر کا اڈہ تھا، جہاں علاقے کے اوباش لوگ دن رات بیٹھے رہتے تھے۔ مجھے کبھی وہاں جانے نہیں دیا گیا کیونکہ وہاں بیٹھنے والے گالیوں کے علاوہ کسی اور زبان میں بات ہی نہیں کرتے تھے۔ اس لیے نہ میں وہاں گیا اور نہ ہی گالیاں سیکھ سکا۔ مگر اس دن کترینہ کے سامنے کھڑا میں شدت سے اپنی اس ”کم علمی“ کو محسوس کررہا تھا کہ میرے ذہن میں کترینہ کے شایان شان پنجابی گالیوں کا وہ ذخیرہ موجود نہیں تھا جو میں اس اسنوکر کے اڈے سے حاصل کر سکتا تھا۔
خیر میں نے صبر کرتے ہوئے اس سے پوچھا کہ کوئی مثال جہاں اس کو محسوس ہوا ہو کہ حوالہ نہیں دیا گیا۔ اس نے پہلےورق کو پکڑا اور بولی، ”مسٹر محمود! تم نے لکھا ہےکہ اکثر لوگ اپنی تہذیب کو برتر سمجھتے ہیں، اس کا حوالہ کدھر ہے۔“ میں نے کہا، ”اب یہ تو واضح سی بات ہے، اس کا حوالہ تو نہیں، یہ تو میں نے اپنے علم کی بنیاد پر لکھا ہے۔“ کترینہ نے اپنی عینک کو دبا کر ناک پر اچھی طرح بٹھایا اور میری طرف یوں دیکھنے لگی جیسے بچے پانڈہ کی نایاب نسل کو دیکھتے ہیں۔ ”مسٹر محمود! آپ کا علم ہم نہیں مانتے۔ ہم صرف وہ مانتے ہیں جو علمی اور عقلی طور پر ثابت کیا جاچکا ہے۔ کسی ریسرچ کے ذریعے، کسی جرنل میں چھپا ہوا، یا کسی اسٹڈی کے حوالے سے“۔ وہ کچھ دیر رکی، اور اپنی کرسی کے پیچھے والی کھڑکی کا پردہ ہٹا کر سامنے لائبریری کی سہہ منزلہ عمارت کی طرف اشارہ کر کے بولی، ”اس لائبریری میں دس لاکھ سے زیادہ کتابیں ہیں۔ اور ان کی ایک ہی خوبی ہے۔ وہ یہ کہ ان میں جو کچھ لکھا ہے، وہ ایک دوسرے سے تجربے، تحقیق اور حوالے سے جڑا ہوا ہے۔ یہ دس لاکھ کتابیں نہیں، علم کی عمارت کی دس لاکھ اینٹیں ہیں جو حوالے کے سیمنٹ سے جڑی ہوئی ہیں“، وہ سانس لینے کو رکی، اپنے بالوں کو کانوں کے پیچھے اٹکایا، اور کرسی سے آگے جھک کر اپنی کہنیاں میز پر ٹکا دیں اور میری طرف سیدھا دیکھتے ہوئے بولی، ”تو مسٹر محمود! ایک بات یاد رکھو، اگر تم چاہتے ہو کہ تم ایک اچھے اسکالر بنو، تو پھر آج سے ایسا ایک جملہ نہ لکھنا جس کا تم حوالہ نہ دے سکو۔“ وہ چپ ہو گئی۔
میں کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ میں اس کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ وہ مجھے نویں جماعت کی طالبہ کے بجائے جہنم کے نویں طبقے کی داروغہ لگ رہی تھی، جو میری ننگی پیٹھ پر حوالوں اور مقالوں کے چھانٹے مار رہی تھی۔ ”کوئی بات نہیں، ابھی تمہارے پاس پانچ دن باقی ہیں۔ تم اسے مکمل کر کے لے آؤ“، اس نے میری شکل پر بجا وقت دیکھ کر تسلی دی۔ انگریزوں کی تسلی بھی ان کی طرح ٹھنڈی ٹھار ہوتی ہے، میں نے جھولے والی لفٹ میں چھلانگ مارتے ہوئے سوچا۔
اگلے پانچ دن عذاب بن گئے، ایک جملہ لکھتا اور پانچ کتابیں کھنگالتا، حوالہ دینے کے لیے۔ میرے ذہن میں موجود کہانیاں، روایتیں، تیز نوکیلے جملے اور تیکھے طنز، سب مجھے کاٹ رہے تھے۔ ہر ہر جملے پر وہ باہر نکل آتے اور ”مجھے لکھو، مجھے لکھو“ کا شور مچاتے۔ میں جب ان کے سامنے کترینہ کا جملہ دہراتا کہ ”حوالہ لاؤ“ تو وہ میری ہی طرح شرمسار واپس ذہن کے تہہ خانے میں جانے والی لفٹ پر چھلانگ لگا دیتے۔
”میں سمجھتا ہوں کہ ۔۔۔“، ”ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ۔۔“، ”حکایت ہے کہ ۔۔۔“، ”روایت ہے کہ۔۔۔“، ”اکثر لوگوں سے سنا ہے کہ ۔۔۔“، والے جملے نکال کر میرے لیے آٹھ صفحات پورے کرنا مشکل ہو گیا۔ پانچویں دن جب میں کترینہ کو اسائنمنٹ جمع کروانے گیا تو بمشکل چھ صفحات لکھ سکا تھا، جو کٹے بالوں والی داروغہ جہنم نے ایک لمبی ”ہوں۔۔۔“ کے ساتھ قبول کر لیے۔
دوستو! ہر علم کی بنیاد ہوتی ہے۔ ہر دلیل کے پیچھے علم ہوتا ہے۔ کوئی مستند حوالہ، کوئی ایسا تجربہ جو پھر سے دہرایا جا سکے۔ علم تب ہی آگے بڑھ سکتا ہے جب اخذ کردہ نتائج کو علمی بنیادوں پر آگے بڑھایا جا ئے۔ آج میں جب اپنے اردگرد ”حکایت ہے“، ”روایت ہے“ سے شروع ہونے والے عالم دیکھتا ہوں، جو درجنوں کتابیں لکھ چکے ہیں، تو مجھے کترینہ بہت یاد آتی ہے۔ کاش وہ ان عالموں کو بھی کہہ سکتی کہ حوالہ لے کر آؤ ورنہ اپنا علم واپس لے جاؤ۔
تبصرہ لکھیے