ہوم << مائنس ون کی رٹ-ڈاکٹر صفدر محمود

مائنس ون کی رٹ-ڈاکٹر صفدر محمود

dr-safdar-mehmood
پاکستان میں سیاسی رت اور موسم تیزی سے بدلتا رہتا ہے۔ آج کل مائنس ون کا موسم جوبن پہ ہے اور خان خاناں عمران سے لے کر طفل سیاست بلاول بھٹو تک سبھی مائنس ون پر تبصر ے بھی کررہے ہیں اور تجاویز بھی دے رہے ہیں۔ عمران خان اور بلاول دونوں آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور مجھے بھی کچھ عرصہ آکسفورڈ میں طالب علم رہنے کا موقع ملا ہے۔ لگتا ہے کہ ہمارے استاد الگ الگ تھے یا ہمارے استاد ریٹائر ہوگئے تھے۔ ہمارے وقتوں میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے طلبہ میں احساس تفاخر پیدا کرنے کے لئے انہیں بتایا جاتا تھا کہ برطانیہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ وزراء اعظم آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی آکسفورڈ سے فارغ التحصیل تھیں، وہ دو بار وزیراعظم بنیں اور ملک و قوم کا کچھ سنوارے بغیرحکومت کرنے کے بعد رخصت ہوگئیں۔ البتہ ان کےشوہر اور بلاول کے والد گرامی کیڈٹ کالج پٹارو سے فارغ التحصیل ہیں۔ آج کل پھر آکسفورڈ کے دو سابق طالب علموں....عمران خان اور بلاول بھٹو... . کے درمیان وزارت عظمیٰ کے لئے دوڑ لگی ہے اور ان دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاستدانوں نے بزعم خود موجودہ حکمرانوں کو مائنس ون کردیا ہے حالانکہ وہ اتنی جلدی ’’مائنس‘‘ یعنی منفی ہونے والے نہیں۔ ہاں یاد آیا۔ جب بے نظیر بھٹو کے بعد میاں نوازشریف وزیراعظم بنے تو ان کے میڈیا منیجرز نے بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ بے نظیر کے مقابلے میں ’’اپنے ملک کی پیداوار (Home Spun)کا نعرہ لگایا۔ وقت اور تاریخ نے ثابت کردیا کہ کوئی عالمی سطح کی بہترین یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو یا اپنے ملک سے سند یافتہ ہو، سیاست، کارکردگی، کرپشن اور لوٹ مار کے حمام میں سبھی ننگے ہوتے ہیں۔
معاف کیجئے گا بات دور نکل گئی۔ میرا آج کا موضوع گھسی پٹی کرپشن جو ہر حکمران کے ساتھ چپکی ہوئی ہے، میرا موضوع نئے موسم کی نئی لہر ہے اور وہ ہے مائنس ون کے نسخے، تذکرے اور بے لوث مشورے۔ میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ ہمارے استادوں نے تو ہمیں یہ پڑھایا تھا کہ سیاسی میدان میں کبھی بھی ... .کبھی بھی... .مائنس ون اوپر سے مسلط نہیں ہوتا اور اگر اوپر سے یہ کلیہ یا فیصلہ نافذ کیا جائے تو کبھی بھی موثر اور نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔ مائنس ون ہو یا مائنس ٹو اس کا فیصلہ جمہوریت کے ارتقائی عمل کا حصہ ہوتا ہے اور یہ صرف اسی صورت میں نتیجہ خیز ہوتا ہے جب یہ فیصلہ نیچے سے نمودار ہو یعنی جب یہ فیصلہ عوام کریں، جب اس کا اعلان جمہور کریں۔ بھلا جمہور اپنا فیصلہ کیسے سناتے ہیں؟ عوام اپنا فیصلہ ووٹ کے ذریعے سناتے ہیں چاہے عوام جمہوری عمل کے حوالے سے پختہ ہوں یا ناپختہ اور انہی کا فیصلہ آخری ہوتا ہے۔ میں تاریخ پاکستان کا ادنیٰ طالب علم ہوں اور میں نے اس اصول یا کلیئے کی حقانیت کے مظاہرے اپنے ملک اور اپنی تاریخ میں بار بار دیکھے ہیں۔ چنانچہ میں اس اصول کا دل سے قائل ہوگیا ہوں اور جب اچھے خاصے پڑھے لکھے قدآور سیاستدان مائنس ون کے مشورے دیتے ہیں تو میں اسے طنز سمجھ کر مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا اور ہاں طفل سیاست بلاول بھٹو گھاگ سیاستدان مولانا فضل الرحمٰن سے سیاسی گر سیکھنے اور اشیرباد لینے گیا تھا۔ شاید اسے علم ہوگا کہ مولانا کے ذہن پر آج بھی جمعیت علماء ہند کی سیاسی فکر، نظریہ پاکستان اور قائداعظم کے حوالے سے نظریاتی سائے دیکھے جاسکتے ہیں۔
بلاول نے اچھا کیا کہ اس موقع پرحب الوطنی کے سرٹیفکیٹ تقسیم نہیں کئے اور نہ ہی منتخب وزیراعظم کی حب الوطنی پر شک کا اظہار کر کے ان کے عوامی مینڈیٹ کی توہین کی مگر ان کا ایک ’’مائنس ون‘‘ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہوسکے تو گجرات کے دو وفادار جیالوں، چودھری قمر الزمان اور چوہدری اعتزاز احسن... . میں سے کوئی انہیں سمجھا دے کہ وہ ایسے شخص کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ جاری کر کے سخاوت کا مظاہرہ کیوں کررہے ہیں جس نے 1979ء میں پاکستانی پرچم جلایا اور روندا اور اگست 2016ء میں پاکستان کے خلاف نعرے لگائے۔ جو مودی کی ’’را‘‘ کے فنڈز پر پلتا اورپاکستان کو تباہ کرنے کے لئے بیرونی دشمن قوتوں کو دعوت دیتا ہے۔ اگر سندھ کے حوالے سے بلاول کی کوئی مجبوری تھی تو مجبوری میں خاموشی بہتر ہوتی ہے اور خاموشی میں ہی حکمت پوشیدہ ہے۔ بلاول سے اس کے نانا کی خوشبو آتی ہے۔ مجھے ان کا الطاف حسین کو بانس پہ چڑھانا اچھا نہ لگا... . چودھری صاحبان کو میرا مشورہ ہے کہ وہ عزیزی کو تدبر کی تعلیم دیں کیونکہ یہ تعلیم یا تربیت آکسفورڈ یونیورسٹی میں نہیں دی جاتی، تدبر زندگی کی یونیورسٹی سے سیکھا جاتا ہے۔ بات ہورہی تھی مائنس ون کی۔ دراصل یہ موضوع طویل بحث کا متقاضی ہے لیکن کالم کی تنگ دامنی کے پیش نظر صرف اتنا عرض کروں گا کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی اوپر سے نافذ کردہ مائنس ون کا فارمولا کامیاب نہیں ہوا۔ آپ سب جمہوریت کے علمبردار ہیں۔ آپ کو سمجھنا چاہئے کہ اسکا فیصلہ بہرحال عوام کریں گے اور وہی ٹھوس فیصلہ ہوگا۔
چند مثالوں کو ہی کافی سمجھیں۔ بلاول کے بقول کہ ان کے نانا جان مائنس ون فارمولے کا نشانہ بنے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو فوجی حکمران کے ہاتھوں مائنس ہو کر عوامی نظروں میں مائنس ہوئے؟ آج انہیں مائنس کرنے والا حکمران کہاں ہے؟ جب کہ بھٹو قبر سے بھی حکمرانی کررہا ہے اور بے نظیر مرحوم سے لے کر بلاول بھٹو تک سبھی ذوالفقار علی بھٹو کی کاشت کردہ فصل کا پھل کھا رہے ہیں۔ زرداری صاحب نے مبینہ طور پر اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں لوٹ مار کے وہ ریکارڈ قائم کیے اور میاں نوازشریف کو اس طرح استعمال کیا کہ وہ پی پی پی کے سب سے بڑے دشمن ثابت ہوئے۔ 2013ء کے انتخابات میں عوام نے زرداری کو ’’مائنس ون‘‘ کا اشارہ دے دیا لیکن اشارہ عقلمندوں کے لئے ہوتا ہے، شاطروں کے لئے نہیں۔ کیا زرداری صاحب کو مشرف یا کسی حکمران نے مائنس ون کا نشانہ بنایا؟ مشرف نے تو زرداری صاحب کو سرے محل بھی دے دیا اور اپنی جگہ صدر بننے کی راہ بھی ہموار کردی اب اگر زرداری صاحب پی پی پی کا حشر اور اپنی حکمرانی کا انجام دیکھ کر اشارہ نہیں سمجھیں گے تو پارٹی گھاٹے میں رہے گی۔ شاید اسی لئے وہ بیرون ملک بیٹھے ہیں اور میدان سیاست بلاول نے گرم کر رکھا ہے۔ گویا عملاً مائنس ون ہو چکا۔ وہ کس نے کیا؟ اوپر والوں نے یا نیچے والوں نے؟
میاں نوازشریف کو جدہ بھجوا کر بھی مشرف نے مائنس ون کے فارمولے پر عمل کرنا چاہا تھا لیکن بری طرح ناکام ہوا۔ وقت بدلا تو میاں صاحب وطن لوٹے اور وزیراعظم بن گئے۔ بے نظیر بھٹو کو بھی اسی خواب اور خواہش کے تحت جلاوطن کیاگیا تھا۔ کیا یہ فارمولا کامیاب ہوا؟ مختصر یہ کہ طاقتور ایجنسیوں، اسٹیبلشمنٹ اور منہ زور سیاستدانوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ سیاست میں صرف وہی اصول یا فیصلہ کامیاب ہوتا ہے جسے عوامی حمایت حاصل ہو۔ اوپر سے نافذ کردہ فیصلے کاغذی شیر کی مانند ہوتے ہیں جنہیں وقت بدلتے ہی ٹکڑے ٹکڑے کردیا جاتا ہے۔