ہوم << امت مسلمہ اور دوسری امتیں، تاریخ، واقعات اور مستقبل - سرورالدین

امت مسلمہ اور دوسری امتیں، تاریخ، واقعات اور مستقبل - سرورالدین

امت مسلمہ کا وجود انسانی وجود کے تسلسل میں ایک فیصلہ کن موڑ ہے کیونکہ اس امت کا پیغام انسانیت کے لیے آخری پیغام ہے اور یہ امت اللہ رب العالمین کی طرف سے انسانیت کو یہ پیغام پہنچانے کی مکلف ہے، جیسا کہ قرآن کہتا ہے کہ: [pullquote]کنتم خیر امۃ اخرجت للنّاس[/pullquote] تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کیے گئے ہو
یورپ والوں نے انسانی تاریخ کو اپنے نقطہ نظر کے مطابق ان حالات اور واقعات کو مد نظر رکھ کر مختلف اقسام میں تقسیم کیا ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ انسانی تاریخ کے چار ادوار ہیں:
1۔ تاریخ سے قبل: جب انسان پسماندہ تھا اور ستر چھپانے سے بھی واقف نہیں تھا، یہ ان کے لبرل نظریے کے مطابق ہے کیونکہ وہ انبیاء کواہمیت نہیں دیتے۔
2۔ زمانہ قدیم: ان کے نزدیک یہ انسان کی طرف سے لکھنے سے واقفیت کے سال جو( 3200 ق۔م) سے (476 م) میں روما کے سقوط تک ہے، اس دوران بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہوئیں۔
3۔ قرون وسطی: (476 م) میں روما کے سقوط سے (857ء) میں قسطنطینیہ کی سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں فتح تک۔ اس کو کلیسا اور جاگیرداروں کے غلبے کا دور کہا جاتا ہے۔
4۔جدید دور: قسطنطینیہ کی فتح کے بعد سے موجودہ دور تک۔ اس کو صنعتی انقلاب اور سائنسی دور کہتے ہیں۔ یہ دور پھر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے
ا۔ جدید تاریخ: 1779ء میں فرانس کے انقلاب پر ختم ہو تی ہے۔
ب۔ معاصر تاریخ: فرانس کے انقلاب سے شروع ہو کر موجودہ دور تک۔
یورپ کی جانب سے تاریخ کی اس تقسیم میں یہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ یورپ میں رونما ہونے والے واقعات پر مبنی ہے، اس لیے یورپ کے مرتب کردہ تاریخ کو انسانی تاریخ کہنا انسانیت کے ساتھ بڑا ظلم ہے۔ خودیورپ کے کئی نامور مؤرخین اور سیاست دانوں نے تاریخ کی اس تقسیم کے غلط ہونے اور انسانی زندگی میں اسلام کے فیصلہ کن موڑ ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ بڑا قانون دان اور نصرانی ”فارس خوری“ کہتا ہے کہ: ”یورپ کے مورخین اور علماء نے انسانی تاریخ مرتب کرتے ہوئے انسانی تاریخ کے سب سے بڑے واقعے یعنی اسلام کے ظہور کو نظر انداز کیا ہے“۔
اسلام کے ظہور سے قبل کی انسانی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی انسانیت کو اسلام کی ضرورت اور انسانیت کے حوالے سے امت کی ذمہ داری کا اندازہ ہوتا ہے۔
عیسائیت مکمل طور پر بت پرستی بن چکی تھی، شہنشاہ ہرقل 610 سے 641 نے فارس پر غلبے کے بعد ریاست میں موجود تمام مذاہب کو عیسی علیہ السلام کی ذات کے حوالے سے بحث سے منع کیا اور ایک این آر او جاری کیا مگر یہ کامیاب نہ ہو سکا، مصر کے عیسائیوں نے یہ قبول نہیں کیا تو ان کو پکڑ پکڑ کر سمندر میں پھینک دیا گیا یا جلادیا گیا۔ کلیسا نے دین کے نام پر مکمل کنٹرول قائم کیا حتی کہ گناہوں کو معاف کرنے کی باقاعدہ رسید کا اجرا کیا گیا، انحطاط اس درجے تک پہنچا کہ لوگ شادی پر اکیلے رہنے کو ترجیح دیتے تھے، انصاف بکتا تھا، رشوت خیانت کا بازار گرم تھا، گبن کہتا ہے کہ چھٹی صدی عیسیوی کے اواخر میں ریاست ذلت کی تمام لکیریں عبور کر چکی تھی۔
مصر جیسی وسائل سے بھرپور سرزمین میں لوگ عیسائیت اور رومی ریاست کے ہاتھوں زندگی سے تنگ آئے ہوئے تھے،گوسٹاف لوبون اپنی کتاب ”عرب تہذیب“ میں کہتا ہے ”مصر کو زبردستی عیسائی بنا یا گیا مگر اس سے وہ انحطاط کی وادیوں میں گر گئے جس سے وہ اسلامی فتوحات کے ذریعے ہی نکلے“۔
مصر ہی رومی سلطنت کی محصولات کا بڑا ذریعہ تھا جبکہ فارس نے روم کے ساتھ دنیا کی حکمرانی کو تقسیم کر رکھا تھا اور اخلاقی تباہی کی پستیوں کی ہر لکیر عبور کر چکا تھا، حتی کہ یزد جرد دوم جو پانچویں صدی کا حکمران تھا، نے اپنی ہی بیٹی سے شادی کی، پھر اس کو قتل کیا، اور ”بہرام جو“ نے اپنی بہن سے شادی کر رکھی تھی۔
مانی نے تیسری صدی عیسوی میں نکاح کو حرام قرار دیا کیونکہ وہ نسل انسانی کو ختم کرنا چاہتا تھا جس کو 276 میں بہرام نے قتل کیا، پھر پانچویں صدی میں ”مزدک“ آیا جس نے سارے انسانوں کو ایک اور عورت کو پانی، چراگاہ اور آگ کی طرح مشترکہ چیز (عوامی ملکیت) قرار دیا جس کا ذکر شہرستانی نے”الملل والنحل“ میں بھی کیا ہے۔
اس کی دعوت نے ایران کے نوجوانوں، مالداروں اور بااثر لوگوں میں بہت مقبولیت حاصل کر لی جس کی وجہ سے اخلاقی تباہی اور شہوت رانی کی انتہا ہوگئی، امام الطبری کہتے ہیں کہ: ”کمینے لوگوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور مزدک کے مددگار بن گئے، اس وقت لوگ کسی بھی شخص کے گھر جا کر گھر کے مرد کو قابو کر کے عورتوں کے مالک بن جاتے تھے اور اس کو مال غنیمت سمجھتے تھے، حالت یہ ہوگئی تھی کہ کسی شخص کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کون اس کا بچہ ہے اور وہ کس کا باپ ہے“۔
کسری کہتے تھے کہ ان کی رگوں میں اللہ کا خون دوڑ تا ہے (نعوذ باللہ)، اس لیے قوم اپنے حکمرانوں کو معبود کی طرح پوجتی تھی، وہ مقدس سمجھے جاتے تھے، کوئی شخص ان کا نام لے کر ان کا ذکر نہیں کر سکتا تھا اور ان کی مجلس میں نہیں بیٹھ سکتا تھا، یہ سمجھا جاتا تھا کہ ان کا ہر انسان پر حق ہے اور کسی انسان کا ان پر کوئی حق نہیں، حکمرانی کو تو صرف انہی کا حق سمجھا جاتا تھا، اگر کوئی مرد نہ ہو تو بچے کو بادشاہ بناتے تھے جیسا کہ ”ازد شیر“ کو بنایا، اگر بچہ بھی نہ ہوتا تو بیٹی کو ملکہ بنایا جاتا جیسا کہ ”بوران“ کو ملکہ بنایا پھر کسری کی دوسری ”ازرمی دخت“ کو ملکہ بنایا مگر انہوں نے رستم جیسے سپہ سالار یا جابان کو اپنا حکمران بنانے کا سوچا بھی نہیں کیونکہ وہ شاہی خاندان سے نہیں تھے۔
طبقاتی فرق اس قدر بڑھ گیا تھا کہ پروفیسر ارتھرسین اپنی کتاب ”ساسانیوں کے عہد میں ایران کی تاریخ“ میں لکھتا ہے کہ ”فاصلے ناقابل یقین حد تک بڑھ گئے تھے، حکمران نے اعلان کر رکھا تھا کہ کوئی عام شخص سے کوئی پلاٹ بھی نہیں خرید سکتا“۔
ایرانی حکمران مال کو صرف اپنے لیےجمع کرتے رہتے تھے جب 607 م میں خسرو دوم نے اپنے اموال کو نئی عمارت میں منتقل کیا، اس کی قیمت 468 ملین دینار تھی، حکمران بننے کے تیرھویں سال ان کا مال 800 ملین دینار تھا جو سینکڑوں نہیں ہزاروں ارب ڈالرز کے برابر ہے۔
زمانہ قدیم میں ایرانی اللہ کی عبادت کرتے تھے، پھر سورج اور ستاروں کی عبادت شروع کی، زرتشت مجوسی تھا، اس نے معبودوں کو یکجا کیا اور ہر چمک دار چیز کو معبود قرار دیا جیسے سورج آگ۔
چین کی جہاں تک بات ہے وہاں تین مذاہب تھے: لاوتسو، کنفوشیوس اور بدھ مت، لاوتسو بت پر ستی کے ساتھ عملی کاموں کے بجائے تصوراتی باتوں پر یقین رکھتے تھے اور شادی نہیں کرتے تھے اور عورت کی طرف دیکھتے بھی نہیں تھے۔ کنفوشیوس پتھروں اور درختوں کی عبادت کرتے تھے جبکہ بدھ مت والے اپنے پاس بت رکھتے تھے، یہ لوگ انتہائی منفی سوچ رکھتے تھے، جادو اور مال جمع کرنے پر توجہ ہوتی تھی۔
ہندوستان کی صورت حال تو ناقابل بیان تھی، چھٹی صدی عیسوی میں معبودوں کی تعداد 330 ملین تک پہنچ چکی تھی، ہر دلکش یا ضروری چیز کو معبود سمجھتے تھے، پہاڑ ، سونا، چاندی، جنگی آلات، آلہ تناسل، حیونات جیسے گائے، ہاتھی اور چوہا وغیرہ سب معبود تھے۔
ہندوستان کے تمام مذاہب پر جنس (سیکس) کا اس قدر غلبہ تھا کہ وہ اپنے معبود کے درمیان جنسی تعلقات کے قائل تھے اور بڑے معبود ”مہادیو“ کے آلہ تناسل کی عبادت کرتے تھے، کچھ لوگ برہنہ عورتوں کی عبادت کرتے تھے اور عورتیں برہنہ مردوں کی عبادت کرتے تھے، مذہبی پیشوا سب سے بڑے فاسق ہوا کرتے تھے، مذہب کے نام پر زنا عام تھا، زیادہ تر لوگ مندر جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے جاتے تھے۔
ان حالات میں اسلام کا ظہور حقیقی معنوں میں انسانی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ ہے جس کو نظرانداز کر کے تاریخ مرتب ہو ہی نہیں سکتی۔ صرف یورپ میں رونما ہونے والے بعض واقعات کو تاریخ کے مختلف ادوار سے تعبیر کرنا تاریخ اور انسانیت کے ساتھ ظلم ہے۔ تاریخ انسانی کو جن حقیقی ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہو سکتے ہیں، اسلام کے ظہور اور اسلامی ریاست کے قیام سے پہلے کا دور (جاہلیت اولی کا دور)، اسلامی ریاست اور دنیا میں اسلام کی قیادت کا دور، 1924ء میں اسلامی ریاست کے انہدام کے بعد کا دور (دوسری جاہلیت کا دور)، اللہ کے اذن سے سے عنقریب قائم ہونے والی خلافت راشدہ کا دور جس کی انسانیت کو سخت ضرورت ہے۔

Comments

Click here to post a comment