ہوم << دنیائے کرکٹ اور پاکستان، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ محمود شفیع بھٹی

دنیائے کرکٹ اور پاکستان، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ محمود شفیع بھٹی

محمود شفیع
کرکٹ کا خالق تو گورا ہے، اسی نے اس کو پروان چڑھایا، اور جینٹل مین گیم کا نام دیا، گورا ہی اس کھیل کو برطانوی دور میں برصغیر لایا مگر اس نے یہاں آتے ہی قدم جما لیے۔اس وقت دنیائے کرکٹ کا سب سے زیادہ ریونیو اسی خطے سے حاصل ہوتا ہے۔ یہیں سب سے زیادہ کرکٹ کھیلی اور دیکھی جاتی ہے۔ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں اس کھیل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، اور یہ تفریح کا بنیادی اور بڑا ذریعہ ہے۔ عالمی مقابلوں میں جس دن میچ ہو، اس دن بازار بند اور گلیاں سنسان ہوجاتی ہیں۔ لوگ جنون کی حدتک اس کھیل کے دیوانے ہیں۔ اس کھیل میں سپانسرز، میڈیا پارٹنرز اور اشتہارات کی بھرمار ہے۔ ساتھ میچ فکسنگ کی بھی یلغار ہے۔
کرکٹ پاکستان میں ایک جذبہ، ایک جنون ہے، نوجوان نسل میں ایک مقصد تصور کیا جاتا ہے۔ اس وقت کرکٹ کھیل کم اور سائنس زیادہ بن گیا ہے۔ آئے روز بننے والے قوانین، کرکٹ کے بلوں کے سائز، باؤلر کے بازو کا مخصوص ڈگریز میں خم وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جن کو جب تک اپنایا نا جائے باقی دنیائے کرکٹ سے ہم آہنگی ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کرکٹ نے ماضی میں کئی ستارے پیدا کیے۔ دنیا آج تک عمران خان جیسے کپتان، وسیم اور قار جیسے تیز باؤلر، عبدالقادر جیسے لیگ سپنر، ثقلین مشتاق جیسے آف سپنر اور انضمام الحق جیسے ٹائمر کی مثالیں دیتی ہے۔
آج دنیائے کرکٹ اور پاکستان کرکٹ کا موازنہ کیا جائے تو ہم پچھلی صف میں کھڑے ہیں۔ کسی بھی کھیل کی پختگی کا انحصار اس کے بنیادی ڈھانچے پر ہوتا ہے لیکن افسوس کہ اس وقت ہمارے ہاں بنیادی ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈومیسٹک میں بجائے کوالٹی کے تعداد پر انحصار کیا جاتا ہے۔ اس وقت چوبیس سے زائد ریجنز اور درجن سے زائد ڈیپارٹمنٹس ہیں جن سے معیاری کرکٹرز کا انتخاب ناممکن ہے۔ بین الاقوامی سطح پر مقابلوں میں کوکا بورا گیند کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ڈومیسٹک نظام میں گریس بال کا استعمال ہوتا ہے جس سے باؤلرز کو آگے جا کر مشکلات پیش آتی ہیں اور اس گیند کے درست استعمال میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ گریس بال کی سلائی (سیم) موٹی اور باؤلر کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے جبکہ کوکابورا کی باریک، ڈومیسٹک میں بھی کوکابورا گیند کا استعمال ہونا چاہیے۔ ماضی میں کوششوں کے باوجود یہ تجربہ ناکام ٹھہرا جس کے کئی محرکات ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں پچز کا معیار بھی دوسرے ممالک سے بہت برا ہے جس کی وجہ سے تین سو رنز بھی بڑی مشکل سے بن پاتے ہیں۔ ڈومیسٹک پچز کا معیار اتنا برا ہے کہ کیا کہنے۔ یہ پچز پروفیشنل کیوریٹرز کے بجائے مالی تیار کرتے ہیں۔ ناقص ایمپائرنگ بھی بہت زیادہ ہے، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کم ہے جس کی وجہ سے غلط فیصلے ہوتے ہیں، بالخصوص بائولر کی تکنیک جیسے مسائل جنھیں ڈومیسٹک لیول پر اجاگر ہونا چاہیے۔ اس وقت پاکستان ایک روزہ کرکٹ میں آٹھویں نمبر پر ہے جس کی بڑی وجہ ناقص نظام اور نا اہل انتظامیہ ہے۔ ترجیحات واضح نہیں ہوں گی تو نتائج خاک آئیں گے؟
پاکستان سپر لیگ کا انعقاد خوش آئند تھا اور امید تھی بین الاقوامی کرکٹ نہ ہونے کی وجہ سے کھلاڑیوں میں حوصلے کی کمی پوری ہوجائے گی لیکن یہاں بھی پچز کے معیار نے قلعی کھول دی۔ لو سکورنگ میچز سے شائقین کرکٹ مایوس رہے۔ جب کراچی جم خانے جیسی پچز بنائی جائیں گی تو معیار کیسے حاصل ہوگا؟ ساری لیگ میں سپنر ہی چھائے رہے۔
پاکستان کرکٹ کے لیے ضروری ہے کہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی کی رونقیں بحال کی جائیں۔ کھلاڑیوں کی ٹیکنیک پر کام کیا جائے۔ ڈومیسٹک نظام کو عالمی معیار کے مطابق لایا جائے۔پاٹا، فلیٹ پچز اور Turning کی جگہ سپورٹنگ پچز بنائی جائیں۔ ٹیموں کی تعداد کم کر کےمعیار کو بلند کیا جائے۔ انڈر 19، انڈر 16 اور اے ٹیم کے ساتھ ہائی کوالی فائیڈ سٹاف رکھا جائے. تبھی آئندہ سالوں میں بہتر نتائج کی توقع کی جا سکے گی۔

Comments

Click here to post a comment