کیا دہشت گردی اور اسلام ہم معنی ہیں؟ جواب لازما نہیں میں ہے۔ دنیا کا کوئی بھی شخص اسلام پر یہ تہمت نہیں لگا سکتا کہ جو دین سراسر رحمت، انسانیت کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لانے کا دعویدار اور ایک انسان کی جان کو کل انسانیت کے برابر پلڑے میں تولتا ہے، اس پر یہ الزام جہالت ہے یا سوچی سمجھی سازش۔ لیکن آوازیں سنائی دیتی ہیں، انگلیاں بھی اُٹھائی جاتی ہیں اور گریبانوں تک ہاتھ بھی پہنچتے ہیں۔ قصور کس کا ہے؟ تقاضا ہے کہ سوال اضافی ہے۔ بس ہمارے بیانیے کے آگے سرِتسلیم خم کرتے ہوئے، نام، حلیے اور مذہب کی بنیاد پر مجرم کا تعین کیا جائے اور پھر، جھولے لال، نہ بندہ رہے نہ بندہ نواز۔
بات کچھ پرانی نہیں، انارکلی لاہور میں فلمائی گئی چند نامعلوم خواتین کے لبرل ڈانس کی ویڈیو، جو بظاہر کسی اشتہاری ادارے کی طرف سےکچھ منفرد کرنے کی کوشش تھی، دراصل مذہبی اور معاشرتی اقدار پر لبرل ازم کا تازہ حملہ تھا۔ میں اسےمعاشرے میں جبرا لبرل ازم نافذ کرنے کے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت سے دیکھتا ہوں۔ لبرل طبقے نے اس ویڈیو کے ذریعے طوائفوں کے کھوٹوں اور آرٹ کی تاریک گلیوں سے ہوتے ہوئے معاشرے کے قلب پر براہ راست حملہ کیا۔ یہ ایک طرح سے غیرت کا لٹمس ٹیسٹ بھی تھا۔ جس میں وہ بظاہر کامیاب نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لبرل طبقوں کی طرف سے اس پر خوب داد کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں اور ”ڈومور“ کا تقاضا بھی کیا جارہا ہے۔
میں نے اس ویڈیو پر ایک تنقیدی نوٹ لکھا تھا۔ جس پر ایک صاحب نے کمنٹ کرتے ہوئے کہا: ”ثقافت کے نام پر رقص کرنا، مذہب کے نام پر گردنیں اتارنے سے بہتر ہے۔“ اناللہ گویا دہشتگردی یا بےحیائی، انتخاب آپ کا ہے۔ یہ بیان کوئی پہلی دفعہ سننے کو نہیں ملا۔ اس کی بازگشت میڈیا اور لبرل طبقوں میں اکثر سنائی دیتی رہتی ہے۔ عرض کیا کہ پھر سلسلہ کہاں رکے گا؟ اس طرح تو ہم ہر حد کو پار کرجائیں گے لیکن ”بہتر ہے“ کے گورکھ دھندے سے باہر نہیں نکل پائیں گے۔ کیا یہ منطقی رویہ ہے؟ ہرگز نہیں! لیکن اصرار ہے کہ مانو یا مانو، دوسرا کوئی انتخاب نہیں۔
میں اپنی بات چند مثالوں سے واضح کرتا ہوں۔ مثلا اگر میں یہ کہوں: ”آزادی کے نام پر زنا، مذہب کے نام پر گردنیں اتارنے سے بہتر ہے.“ یا ”ضرورت کے نام پر سود کی گنجائش نکالنا، مذہب کے نام پر گردنیں اتارنے سے بہتر ہے.“ یا ”مصلحت کے نام پر ہم جنس پرستی کی اجازت دینا، مذہب کے نام پر گردنیں اتارنے سے بہتر ہے“ یا ”جنسی اشتہا کے نام پر جانوروں سے بدفعلی کرنا، مذہب کے نام پر گردنیں اتارنے سے بہتر ہے“ یا ”فطرت کے نام پر محرم رشتوں کے درمیان جنسی تعلق قائم کرنا، مذہب کے نام پر گردنیں اتارنے سے بہتر ہے“ یا ”فیشن کے نام پر کپڑے اتارنا، مذہب کے نام پر گردنیں اتارنے سے بہتر ہے“ یا ”حکمت کے نام پر امریکہ کے آگے سرنڈر کرنا، مذہب کے نام پر گردنیں اتارنے سے بہتر ہے.“، تو دنیا کا کون ذی ہوش انسان ان مفروضات کو منطقی کہے گا۔ ہاں لبرل کے لیے گنجائش موجود ہے۔
مفروضہ بھی کسی بنیاد پر گھڑا جاتا ہے۔ یہاں تو سرے سے بنیاد ہی موجود نہیں۔ ایک ضد ہے کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ۔اگر ہمارے ساتھ ہیں تو ”بہتر ہے“ کی گردان کرنا اور اس پر سرجھکانا سیکھ لو۔ ایک خوف کا نو فلائی زون ہے، جہاں بے خوفی کی اجازت نہیں۔ سوال پوچھنے کی اجازت نہیں۔ بس ایک ضد ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اگر آپ اسلامی نظام کی بات کریں تو مشکوک، غلطی سے نفاذ کا ذکر چل نکلا تو ہمدرد اور اگر کہیں بدقسمتی سے خلافت کا ذکر آگیا تو بس پھر آپ داعش یاکسی دہشت گرد گروہ کے سرگرم کارندے قرار پا سکتے ہیں۔گویا آگ کا دریا ہے اور صرف ڈوبنا ہی مقدر ہے، کسی دوسرے انتخاب کی اجازت نہیں۔
زخم گہرے اور رات تھوڑی ہے۔ سو کہاں تک سنیں گے اور کہاں تک سناؤں۔ اک خوف ہے جو میرے چاروں طرف ہے۔ دہشت گردی کےنام پر ایک نئے فتنے کا ظہور ہے۔ اس خوف کا تقاضا ہے کہ میں چپ رہوں، دستورِ زباں بندی رکھوں اور ہمہ تن گوش رہوں۔ لڑکیاں ناچتی ہیں تو ناچنے دوں، بےلباسی حد سے بڑھتی ہے تو بڑھنے دوں، بےحیائی پر حرف نہ اُٹھاؤں، سود کی گنجائش نکلے تو دانت نکالوں، آگے بڑھ کر اپنا حصہ ڈالوں، کار خریدوں، گھر بناؤں، لڈی ہے جمالو کی دھن پر ناچوں، لیکن ہمہ تن گوش رہوں کہ محرم سے مجرم کا سفر صرف ایک نکتے کا سفر ہے جو طے ہونے کے لیے چندگھڑیاں درکار ہیں اور ابد، ابھی بہت دور ہے۔
پھر بتائیے کہ یقین کیوں نہ آئے کہ جب لوگ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کی آگ بڑھکانے والے ”خفیہ ہاتھوں“ کے مقاصد ”عظیم تر“ ہیں۔ نائن الیون سے لے کر مردان میں ہونے والے خود کش حملے تک، سب دانے کسی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ جو کسی ان دیکھے ہاتھوں کی لرزش سے تھرکتے ہیں اور قیامت برپا کرتے ہیں۔ اور مقصد صرف دہشت گردوں کو شکست دینا نہیں، بلکہ ایک تہذیب کی شکست ہے۔ ادھر دہشت گردی بڑھتی ہے اور ادھر بےلباسی حد سےگزرتی ہے۔ دونوں متوازی خطوط بن چکے ہیں۔ لیکن سوال اُٹھانے کی اجازت نہیں، تقاضا ہے کہ سوال اضافی ہے۔ بس ہمارے بیانیے کے آگے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے نام، حلیے اور مذہب کی بنیاد پر مجرم کا تعین کیا جائے اور پھر جھولے لال، نہ بندہ رہے نہ بندہ نواز۔
تبصرہ لکھیے