ہوم << آلودگی کے محاصرے میں کراچی کا دل - ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

آلودگی کے محاصرے میں کراچی کا دل - ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

کراچی کے صنعتی دل سائٹ ایریا میں واقع کلثوم بائی ولیکا سوشل سیکورٹی ہسپتال ایک جانب جہاں مزدور طبقے کے لیے طبی امداد کا واحد سہارا ہے، وہیں اب خود ایک ماحولیاتی سانحے کی زد میں آ چکا ہے۔

اس شفا خانے کے اردگرد پھیلی سینکڑوں فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلنے والا گاڑھا دھواں، زہریلے کیمیکل، کاربن پارٹیکلز، راکھ اور دیگر خطرناک عناصر فضا میں یوں تحلیل ہو چکے ہیں کہ انسانوں کی سانسیں، آنکھیں، جلد، کپڑے اور یہاں تک کہ در و دیوار و سطح بھی روزانہ کی بنیاد پر اس کا شکار ہوتی ہیں۔ ہسپتال کی عمارت پر مسلسل اترتی سیاہ راکھ، کھڑکیوں، دروازوں اور ایمرجنسی و مختلف طبی وارڈز نیز رہائش گاہوں کے فرش کو کالک زدہ کردیتی ہے، جنھیں ہسپتال کا انتظامی عملہ ہر لمحہ مستعد رہ کر بڑی محنت و مشقت سے صاف کرتا ہے، یہ سنگین صورتحال گویا چیخ چیخ کر ہماری ماحولیاتی غفلت اور متعلقہ اداروں کی نااہلی کا ماتم کر رہی ہے۔

یہ صورتحال کسی عارضی پریشانی کا نام نہیں بلکہ ایک تسلسل سے جاری ماحولیاتی دہشتگردی ہے، جو نہ صرف مریضوں بلکہ ڈاکٹروں، نرسوں، تیمارداروں اور عملے کے لیے بھی براہ راست خطرہ بن چکی ہے۔ سائنسی و طبی تحقیقی ادارے برسوں سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ صنعتی فضائی آلودگی کے نتیجے میں انسان دمہ، برونکائٹس، پھیپھڑوں کے کینسر، دل کی بیماریوں، آنکھوں کی جلن، جلدی امراض اور دماغی کمزوری جیسے سنگین مسائل کا شکار ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر سال کم از کم 70 لاکھ افراد فضائی آلودگی کے سبب وقت سے پہلے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، اور ایسے متاثرہ خطوں میں سائٹ جیسے صنعتی علاقے سرِفہرست ہیں۔

یہ صورتِ حال جہاں طب اور ماحولیاتی تحفظ کے عالمی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے، وہیں اسلامی و اخلاقی تناظر سے بھی انتہائی افسوسناک ہے۔ دین اسلام میں صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے، اور انسانی جان کے تحفظ کو سب سے بڑی عبادت۔ سورہ البقرہ میں واضح حکم ہے کہ اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ مگر یہاں متعلقہ اداروں، صنعتکاروں، اور ماحولیاتی اداروں کی مجرمانہ غفلت نے ایک شفا خانے کو زہر خانے میں بدل دیا ہے۔

قانونی طور پر پاکستان میں ماحولیاتی تحفظ کے قوانین، خصوصاً پاکستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 1997 اور سندھ ماحولیاتی تحفظ ایکٹ 2014 موجود ہیں۔ ان کے تحت کسی فیکٹری کو بغیر ایئر فلٹر یا ویسٹ گیس کنٹرول سسٹم کے کام کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ لہذا مذکورہ تمام صورتحال سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (SEPA) کی خصوصی توجہ اور مؤثر کارروائی کی متقاضی ہے۔ کیونکہ نہ صرف ہسپتال کی عمارت آلودہ ہو رہی ہے بلکہ اندر کا عملہ بھی روزانہ سانس، کھانسی، آنکھوں اور جلد کی تکالیف کا شکار ہے۔

یہاں صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ صبح زیب تن کیے گئے کپڑے شام تک کالک سے سیاہ ہو جاتے ہیں۔ مریض جنہیں شفا ملنی چاہیے، مزید امراض لے کر لوٹتے کا قوی امکان پیدا ہوچکا ہے۔ ہسپتال میں داخل ہونے سے پہلے ماسک، چشمے، فلٹر، اور دوائیں لے کر جانا لازمی ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ ہم کب آنکھ کھولیں گے؟ کب زہریلے دھوئیں کے سائے کو ماحولیاتی ہنگامی صورتِ حال قرار دے کر اقدامات کیے جائیں گے؟ کب سچ میں انسان کی جان کو اس کے مالی مفاد سے زیادہ اہمیت دی جائے گی؟

اگرچہ یہ منظرنامہ ناگفتہ بہ ہے، مگر اس کا حل ممکن ہے، بشرطیکہ ہم اجتماعی شعور، فوری اقدامات اور مستقل منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھیں۔ سب سے پہلے سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (SEPA) کی جانب سے سائٹ کی تمام فیکٹریوں کا فوری اور غیرجانبدار ماحولیاتی آڈٹ ناگزیر ہے۔ ہر اس صنعت کو فی الفور بند کیا جائے جو ایئر ایمیشن کنٹرول، ویسٹ گیس فلٹرنگ یا کیمیکل نیوٹرلائزیشن سسٹم کے بغیر کام کر رہی ہو۔ خلاف ورزی کرنے والی فیکٹریوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور بھاری جرمانے عائد کیے جائیں تاکہ دوسروں کے لیے نشانِ عبرت بنے۔

محکمہ صنعت و ماحولیات کو پابند کیا جائے کہ ہر نئی اور پرانی فیکٹری کے لیے ماحولیاتی اثرات کی تشخیص (EIA) اور اس پر عملدرآمد کی نگرانی کی جائے۔ اس کے علاوہ صنعتی علاقوں میں فضائی آلودگی ماپنے کے لیے خودکار ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) سسٹم نصب کیے جائیں جو روزانہ کی بنیاد پر ڈیٹا فراہم کریں اور خطرناک سطح پر ریڈ الرٹ جاری کریں۔

نیز متعلقہ اداروں کو لازم قرار دیا جائے کہ سائٹ انڈسٹریل ایریا میں فوری طور پر بڑے پیمانے پر شجرکاری کی جائے، خصوصاً فضائی فلٹرنگ پودے جیسے نیم، برگد، گل مور، ببول اور پیپل کے درخت لگائے جائیں جو زہریلی گیسوں اور دھوئیں کو جذب کر سکیں۔عدلیہ اور وکلاء برادری سے اپیل ہے کہ وہ اس اجتماعی المیے پر ازخود نوٹس یا ریٹ پٹیشن کے ذریعے آئینی اور قانونی فرائض کی یاد دہانی کروائیں۔ ماحولیاتی جرائم کو ضابطہ فوجداری کے تحت قابلِ دست اندازی جرم قرار دیا جائے تاکہ اس پر فوری کارروائی ممکن ہو۔

میڈیا اور سوشل ایکٹوسٹس پر یہ اخلاقی و انسانی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس سنگین بحران کو اجاگر کریں، مظلوم طبقات کی آواز بنیں، اور معاشرتی دباؤ کے ذریعے ماحولیاتی اصلاحات کی مہم کو قوت دیں۔ ہر بڑے چینل، اخبار، یوٹیوب پلیٹ فارم اور ٹوئٹر/فیس بک صارف کو اس سنگین بحران پر آواز بلند کرنی چاہیے۔بین الاقوامی ادارے جیسے WHO اور UNEP کو بھی اعتماد میں لے کر ان کی تکنیکی اور مالی معاونت حاصل کی جائے تاکہ سائٹ انڈسٹریل زون اور متاثرہ علاقوں میں عالمی معیار کے ماحولیاتی تحفظاتی ماڈل نافذ کیے جا سکیں۔ ان اداروں کی مشاورت سے پاکستان میں ماحولیاتی بہتری کے لیے ایک طویل المدتی پالیسی ترتیب دی جائے۔

محکمہ تعلیم اور نصاب ساز ادارے اس مسئلے کو معاشرتی اور سائنسی نصاب میں شامل کریں تاکہ آئندہ نسلیں ماحولیاتی شعور سے بہرہ ور ہوں۔سول سوسائٹی، ڈاکٹروں کی تنظیمیں، ماہرینِ ماحولیات، وکلاء، انجینئرز، اور شہری نمائندے ایک مشترکہ ماحولیاتی نگرانی کمیٹی بنائیں جو حکومت، صنعت اور عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کرے، سفارشات دے، نگرانی کرے اور ہر ماہ کی رپورٹ جاری کرے۔ آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس اجتماعی ماحولیاتی جرم پر آج ہم نے خاموشی اختیار کی تو کل یہ زہر آلود فضا پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے لے گی۔

کلثوم بائی ولیکا سوشل سیکورٹی ( سائٹ ) ہسپتال کا ماحولیاتی محاصرہ محض ایک ادارے کا المیہ نہیں، بلکہ ایک قوم کی ماحولیاتی بےحسی، صنعتی لالچ، اور ہمارے نمائندوں و ترجمانوں کی نااہلی کا اجتماعی اعتراف ہے۔ اگر ہم نے آج ایک فعال، سنجیدہ، اور ہمہ جہتی حکمتِ عملی اختیار نہ کی، تو شاید ہمیں کل صرف آکسیجن ہی نہیں، ضمیر بھی مصنوعی مشینوں پر چلانا پڑے۔