دور حاضر میں ملک پاکستان جس امتحانی و تعلیمی نظام سے گزر رہے ہیں، وہ ایک پرانی عمارت کی مانند ہے جو اب بھی کھڑی تو ہے، لیکن اس کی بنیادیں کمزور ہو چکی ہیں۔ ہمارے اسکول اور کالج اب بھی کامیابی کو صرف اچھے نمبروں، گریڈز اور امتحانی نتائج سے ناپتے ہیں، جیسے ہمارے بچے کی قدر و قیمت صرف ایک رزلٹ کارڈ سے معلوم کی جا سکتی ہو۔جو کہ اپنے بچوں کی ناقدری ہے ۔
لیکن حقیقت یہ ہے ،کہ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے۔ اب کامیابی کا مطلب صرف ڈاکٹر، انجینئر یا سرکاری ملازم بننا نہیں رہا۔ اب دور ہے وژن، مہارت اور مقصد کا۔ وہ وقت گزر چکا جب رٹا لگانا ہی ذہانت کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ آج کے نوجوان کو صرف کتابیں یاد کرانے کے بجائے، سوچنے، سمجھنے اور اپنے خوابوں کی سمت میں بڑھنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ تعلیمی و امتحانی نظام ہمارے بچوں کو صرف مصروف رکھتا ہے، بااثر نہیں بناتا۔ وہ دن رات اسباق یاد کرتے رہتے ہیں، امتحانات کی تیاری کرتے ہیں، لیکن ان سے کبھی یہ نہیں پوچھا جاتا کہ تمہاری دلچسپی کس میں ہے؟
تم زندگی میں کیا بننا چاہتے ہو؟ تمہارا خواب کیا ہے؟ یوں لگتا ہے جیسے ہم ہر بچے کو ایک ہی سانچے میں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کامیابی اور فلاح کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کے پاس ایک کاغذ کی ڈگری ہو، بلکہ یہ ہے کہ آپ کے علم وعمل سے دوسروں کو فائدہ پہنچے۔ آپ کے ملک وقوم کو فائدہ پہنچے ،جو علم صرف نمبروں تک محدود ہو، وہ علم نہیں، بوجھ ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہوگا ،اور اس کی ذہنی دباؤ کو دور کرنا ہوگا، کہ وہ زندگی کو نمبروں کی نظر سے نہ دیکھیں، بلکہ مقصد حقیقی، خدمت اور اثر کے زاویے سے سمجھیں۔
اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ ہماری نئی نسل کامیاب ہو، تو ہمیں یہ فرسودہ نظامِ تعلیم خاموشی سے نظرانداز کرنا ہوگا، اور بچوں کو یہ موقع دینا ہوگا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق راستہ چُنیں۔ اور یوٹیوب سے اور دیگر ان لائن ذرائع ابلاغ سے اپنے پسند کے مطابق سکلز سیکھے۔۔ایسے نوجوان تیار کرنا ہوں گے، جو بہترین و بامقصد سوال کرنا جانتے ہوں، جو صرف مصروف نہیں بلکہ بااثر ہوں، اور جو اپنے علم سے معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکیں۔ یاد رکھیے، اصل کامیابی وہ ہے جو دل کو اطمینان دے، دوسروں کے کام آئے اور دنیا میں آپ کے بعد بھی یاد رکھی جائے۔
تبصرہ لکھیے