اینن سیفلی ایک انتہائی شدید اور دل دکھانے والا پیدائشی عارضہ ہے جس میں بچہ سر کے اہم حصوں کے بغیر پیدا ہوتا ہے۔ یہ حالت عصبی نالی کے نقص (Neural Tube Defect) کی ایک قسم ہے جو حمل کے ابتدائی ہفتوں میں ہی جنین کی نشوونما کے دوران پیدا ہو جاتی ہے۔
اس میں بچے کے دماغ اور کھوپڑی کے بڑے حصے مناسب طریقے سے نہیں بن پاتے، جس کی وجہ سے پیدائش کے بعد بچے کی زندہ رہنے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں صحت عامہ کے مسائل پہلے ہی سنگین ہیں، وہاں اینن سیفلی جیسے عارضے کے بارے میں آگاہی کی شدید کمی ہے۔ اینن سیفلی کی بنیادی وجہ حمل کے ابتدائی مراحل میں فولک ایسڈ کی کمی ہے۔ فولک ایسڈ (وٹامن B9) ایک ایسا ضروری غذائی جزو ہے جو عصبی نالی کی درست تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
حمل کے پہلے چار ہفتوں میں، جب عصبی نالی بند ہو رہی ہوتی ہے، اگر ماں کے جسم میں فولک ایسڈ کی مناسب مقدار موجود نہ ہو تو یہ سنگین نقص پیدا ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں غذائی قلت کا مسئلہ عام ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں خواتین کو متوازن غذا میسر نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ، خاندانی شادیاں (کزن میرجز) بھی اس عارضے کے خطرات کو بڑھا دیتی ہیں۔ اینن سیفلی کی تشخیص عام طور پر حمل کے دوران ہی ہو جاتی ہے۔ جدید الٹراساؤنڈ ٹیکنالوجی کی مدد سے ڈاکٹرز دوسرے یا تیسرے مہینے میں ہی اس عارضے کا پتہ لگا سکتے ہیں۔
خون کے ٹیسٹ جیسے کہ "میٹرنل سیرم الفا فیٹو پروٹین ٹیسٹ" بھی اس کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ تشخیص والدین کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے، لیکن اس سے وہ ذہنی طور پر تیار ہو سکتے ہیں اور ڈاکٹرز سے مشورہ کر سکتے ہیں کہ آگے کیا کرنا چاہیے۔ پاکستان میں اکثر خواتین کو ابتدائی حمل کی دیکھ بھال تک مناسب رسائی نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے یہ عارضہ وقت پر تشخیص نہیں ہو پاتا۔ اینن سیفلی کے شکار بچے عام طور پر مردہ پیدا ہوتے ہیں، یا پھر پیدائش کے چند گھنٹوں یا دنوں کے اندر ہی انتقال کر جاتے ہیں۔
یہ ایک انتہائی دردناک تجربہ ہے جو والدین کو عمر بھر کے لیے متاثر کر دیتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں، جہاں بچوں کو اللہ کی رحمت سمجھا جاتا ہے، وہاں ایسے واقعات کو اکثر تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا جاتا ہے، جبکہ درحقیقت کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس عارضے کو روکا جا سکتا ہے۔ اینن سیفلی سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم چیز فولک ایسڈ کا مناسب استعمال ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر شادی شدہ خاتون کو، چاہے وہ حمل کی منصوبہ بندی کر رہی ہو یا نہ ہو، روزانہ 400 مائیکرو گرام فولک ایسڈ ضرور لینا چاہیے۔ حمل کے پہلے تین مہینوں میں یہ مقدار بڑھا کر 600 مائیکرو گرام روزانہ کر دینی چاہیے۔ پ
اکستان میں سرکاری سطح پر فولک ایسڈ سپلیمنٹس مفت تقسیم کیے جانے چاہئیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں غذائی قلت زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، حمل کے دوران باقاعدہ طبی معائنے بھی انتہائی ضروری ہیں۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ ماہر امراض نسواں سے باقاعدہ چیک اپ کرواتی رہیں اور تمام تجویز کردہ ٹیسٹ کروائیں۔ حمل کے دوران تمباکو نوشی، شراب نوشی اور غیر ضروری ادویات کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے، کیونکہ یہ سب عوامل اینن سیفلی کے خطرات کو بڑھا سکتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں اینن سیفلی کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے میڈیا، اسکولوں اور کالجوں میں مہمات چلائی جا سکتی ہیں۔ صحت کے مراکز پر پمفلٹ تقسیم کیے جا سکتے ہیں جن میں فولک ایسڈ کی اہمیت اور حمل کی دیکھ بھال کے بارے میں معلومات دی گئی ہوں۔ مذہبی رہنماؤں کو بھی اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ عوام الناس کو صحت کے بنیادی اصولوں سے آگاہ کیا جا سکے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اینن سیفلی جیسے عوارض سے نمٹنے کے لیے ایک جامع پالیسی ترتیب دے۔
اس میں فولک ایسڈ سپلیمنٹس کی مفت تقسیم، حاملہ خواتین کے لیے مفت طبی معائنے، اور جدید ترین تشخیصی سہولیات کو عام کرنا شامل ہونا چاہیے۔ دیہی علاقوں میں تربیت یافتہ دائیوں کی تعداد بڑھائی جانی چاہیے جو ابتدائی حمل کی دیکھ بھال کر سکیں۔ اینن سیفلی جیسے عارضے سے متاثرہ خاندانوں کو نفسیاتی مدد کی بھی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس قسم کی خدمات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حکومت اور این جی اوز کو مل کر ایسے مراکز قائم کرنے چاہئیں جہاں ایسے والدین کو کاؤنسلنگ دی جا سکے جو اس المناک تجربے سے گزر چکے ہیں۔
آخر میں، یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اینن سیفلی ایک قابل روک تھام عارضہ ہے۔ مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کر کے ہم اس کے واقعات کو کم کر سکتے ہیں۔ ہر عورت کو چاہیے کہ وہ حمل کی منصوبہ بندی کرتے وقت ہی فولک ایسڈ لینا شروع کر دے اور اپنی صحت کا خاص خیال رکھے۔ یاد رکھیں، ایک صحت مند ماں ہی صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔
تبصرہ لکھیے