اپریل 2016 پاکستانی سیاست کے لیے ایک غیر معمولی موڑ لایا، جب عالمی سطح پر پانامہ پیپرز لیکس منظر عام پر آئیں۔ پانامہ پیپرز کے انکشافات نے پاکستانی سیاست میں ایک زلزلہ برپا کر دیا۔ یہ انکشاف محض ایک مالیاتی اسکینڈل نہ تھا، بلکہ اس نے عالمی قیادت کو شفافیت اور احتساب کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔
پاکستان میں اس کا سب سے بڑا سیاسی اثر اُس وقت کے وزیر اعظم محمد نواز شریف اور ان کے خاندان پر پڑا، جن کے بچوں کے نام بیرونِ ملک آف شور کمپنیوں اور لندن کے مہنگے ترین علاقوں میں فلیٹس کی ملکیت کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف،جن کا نام براہِ راست ان لیکس میں شامل نہ تھا، ان کے بچوں حسن، حسین اور مریم نواز کی ملکیت میں غیر ملکی اثاثوں کا انکشاف اس وقت کی اپوزیشن، خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک مؤثر سیاسی ہتھیار بن گیا۔ عمران خان نے اسے ''کرپشن بم'' قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور ملک بھر میں احتجاجی تحریک شروع کی۔
حکومتی صفائی اور عدالت میں جمع کرائی گئی دستاویزات نے معاملات کو مزید مشکوک بنا دیا۔ عدالت عظمیٰ نے معاملے کی تہہ تک جانے کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (JIT) تشکیل دی۔ اس JIT رپورٹ کی بنیاد پر 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کو اثاثے چھپانے کے الزام میں نااہل قرار دیا۔ فیصلہ کی بنیاد یہ تھی کہ نواز شریف نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں دبئی کی کمپنی Capital FZE سے ''قابلِ وصول تنخواہ'' کو ظاہر نہیں کیا، جو کہ ایک "چھپا ہوا اثاثہ" شمار کیا گیا۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے نواز شریف کو نہ صرف وزارتِ عظمیٰ سے محروم کیا بلکہ ان کے خلاف نیب نے تین الگ الگ ریفرنسز بھی دائر کیے:
1. ایون فیلڈ ریفرنس (لندن فلیٹس سے متعلق)
2. العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس
3. فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس
6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10 سال قید، مریم نواز کو 7 سال، اور کیپٹن صفدر کو 1 سال قید کی سزا سنائی۔ 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں مزید 7 سال قید کا فیصلہ آیا، جب کہ فلیگ شپ کیس میں انہیں بری کر دیا گیا۔ پانامہ انکشافات کے بعد عمران خان، شیخ رشید، سراج الحق اور دیگر سیاسی رہنما میدان میں سرگرم ہو گئے۔ پی ٹی آئی نے اسلام آباد کی سڑکوں کو احتجاج کا مرکز بنایا اور ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ، ریلیاں، دھرنے اور میڈیا مہم سب مل کر ایسی فضا بنانے میں کامیاب ہو گئے جس میں عوامی رائے مسلم لیگ (ن) کے خلاف اور پی ٹی آئی کے حق میں ہوتی چلی گئی۔
پانامہ کیس، پی ٹی آئی کے سیاسی بیانیے کا محور بن گیا۔ عمران خان نے کرپشن کے خلاف علم بلند کیا، اور اس جدوجہد کے نتیجے میں 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو اکثریت حاصل ہوئی، اور عمران خان وزیر اعظم بن گئے۔ کہا جا سکتا ہے کہ پانامہ اسکینڈل نے عمران خان کی 22 سالہ جدوجہد کو اقتدار کی دہلیز تک پہنچایا۔ یہ محض ایک عدالتی مقدمہ نہ تھا، بلکہ پاکستان کے سیاسی، عدالتی اور احتسابی نظام کے لیے ایک کڑا امتحان بھی تھا۔ کچھ حلقوں نے اسے "سلیکٹو احتساب" قرار دیا تو کچھ کے نزدیک یہ طاقتوروں کے خلاف کارروائی کا تاریخی آغاز تھا۔
نواز شریف نے اس پورے عمل کو ’’سیاسی انتقام‘‘ سے تعبیر کیا۔ ان کے مطابق جے آئی ٹی اسٹیبلشمنٹ کے زیراثر بنی، اور عدلیہ، خفیہ اداروں اور مخصوص عناصر نے گٹھ جوڑ سے انہیں اقتدار سے ہٹایا۔ ان کا یہی بیانیہ آگے چل کر ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی صورت اختیار کر گیا۔ وہ گرفتار ہوئے، جیل گئے، پھر علاج کی غرض سے بیرون ملک گئے، اور لندن میں قیام پذیر رہے۔ 2022-23 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزائیں معطل کیں، اور بالآخر 2024 میں تمام ریفرنسز کالعدم قرار دے دیے گئے۔ یوں نواز شریف ایک بار پھر سیاسی میدان میں واپس آ گئے۔
دوسری طرف عمران خان آج وہی حالات بھگت رہے ہیں جن سے کبھی نواز شریف گزرے۔ توشہ خانہ، سائفر، غیر قانونی نکاح، اور دیگر مقدمات میں وہ سزائیں بھگت رہے ہیں، اڈیالہ جیل میں قید ہیں، اور ان کی جماعت سخت ریاستی دباؤ، گرفتاریوں اور تقسیم کا شکار ہے۔ صورتحال نے ایک دائرہ مکمل کیا ہے۔کل کا مدعی آج کا مدعا علیہ ہے، اور کل کا مجرم آج کے سیاسی افق پر واپس آ چکا ہے۔یہی پاکستانی سیاست کی اصل پہچان ہے۔اقتدار کبھی مستقل نہیں ہوتا، صرف کردار بدلتے ہیں، اسٹیج وہی رہتا ہے۔ ایسے میں آصف علی زرداری کی مثال بھی قابلِ غور ہے، جن پر ماضی میں کرپشن کے سنگین مقدمات بنے، جیل گئے، عدالتوں کا سامنا کیا، مگر ایوانِ صدارت تک پہنچے۔
بعد ازاں وہی کیسز دوبارہ کھلے، مگر قانونی عمل سے گزر کر ایک بار پھر وہ سیاسی افق پر نمایاں ہو گئے۔ حال ہی میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، جنہیں عدالتی فیصلے کے ذریعے برطرف کیا گیا تھا، کرپشن کے کیسز میں باعزت بری ہو چکے ہیں۔ یہ تمام مثالیں اس سوال کو پھر سے جنم دیتی ہیں۔ کیا پاکستان میں احتساب کا عمل ایک اصولی، غیرجانبدار اور شفاف نظام ہے یا پھر یہ محض سیاسی انتقام اور اقتدار کی بساط پر مہروں کی ترتیب ہے؟
اس سوال کا جواب عدالتیں بھی دیں گی، عوام بھی، اور مورخ بھی اور شاید یہ جواب آنے والے انتخابات اور عدالتی فیصلوں کے ساتھ مزید واضح ہوتا چلا جائے۔ فی الحال اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے پاکستان میں سیاست ایک مسلسل چلنے والا کھیل ہے کردار بدلتے ہیں، بیانیے نئے بنتے ہیں، مگر کھیل کا اسٹیج وہی رہتا ہے۔
تبصرہ لکھیے