ہوم << غیرت کے نام پر قتل: نہ شریعت کی اجازت، نہ قانون کی رو سے جائز. شبانہ آیاز

غیرت کے نام پر قتل: نہ شریعت کی اجازت، نہ قانون کی رو سے جائز. شبانہ آیاز

بلوچستان کے ضلع نصیرآباد کے علاقے سنجیدی ڈیگاری میں ایک نوجوان جوڑے، بانو ستک زئی اور احسان اللہ سمالانی کو مبینہ طور پر غیرت کے نام پر فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا۔
ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ بانو 5 بچوں کی ماں تھی،شوہر کے رویوں سے تنگ آکر اس نے 4 بچوں کے باپ احسان اللہ سے شادی کی،مگر کچھ عرصہ بعد جب دونوں میں اختلاف پیدا ہوا تو وہ واپس اپنے پہلے شوہر کے پاس آگئی۔
وائرل ویڈیو میں خاتون قرآن پاک ہاتھ میں لیے اپنے نکاح کا اعلان کرتی نظر آتی ہے،اس کا کہنا تھا کہ اس نے نکاح کیا تھا (زنا نہیں۔)
لیکن اس کے باوجود اسے اور احسان اللہ کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ واقعے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نے نوٹس لیا، مقتولہ کی قبر کشائی کا حکم دیا، اور 11 ملزمان کی گرفتاری کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے فوری تحقیقات اور ملزمان کی گرفتاری کا حکم دیا، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر قتل کی ویڈیو بنائی گئی تھی تو جرگے کی کارروائی اور بانو کے نکاح کے بیان کو کیوں محفوظ نہ کیا گیا؟
یہ کوئی واحد واقعہ نہیں۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں بھی اسی طرح کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
گوجرانوالہ (نوشہرہ ورکاں): دو بہنوں، انیلا اور ثانیہ کو والدین نے پسند کی شادی پر قتل کر دیا۔
جھنگ: 19 سالہ طالبہ کو رشتے سے انکار پر اغوا کرکے زہر دیا گیا۔
لاہور (اقرا کیس): شوہر نے بیوی کو قتل کیا۔
حافظ آباد: ایک لڑکی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ واقعات اس سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جو عورت کی مرضی کو جرم اور اس کے انکار کو غیرت کا مسئلہ بنا دیتی ہے۔

شرعی موقف یہ ہےکہ غیرت کے نام پر قتل حرام ہے۔

غیرت کے نام پر قتل کو اسلام نے جاہلیت کی رسم قرار دیا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
"تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنی عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرے۔" (ترمذی)
پاکستان علماء کونسل نے واضح کیا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل غیر شرعی اور دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے کہنا ہے کہ اسلام کسی صورت غیرت کے نام پر قتل کی اجازت نہیں دیتا۔
ملزمان کے خلاف دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔"
دارالافتاء دیوبند نے بھی فتویٰ دیا کہ زنا کی سزا صرف عدالت (قاضی) دے سکتی ہے، خاندان یا افراد کو قتل کا کوئی حق نہیں۔ غیرت کے نام پر قتل ناحق خون بہانا اور سنگین گناہ ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ
قانون موجود ہے مگر عملدرآمد کمزور ہے
پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قوانین موجود ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد ناکافی ہے۔
2016 کی ترامیم: غیرت کے نام پر قتل کو "قتل عمد" قرار دیا گیا۔ ورثا کی معافی کے باوجود قاتل کو کم از کم 25 سال قید کی سزا دی جاتی ہے۔
قصاص و دیت قانون (1990): اس قانون کے تحت اکثر قاتل، جو قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں، معافی لے کر سزا سے بچ جاتے ہیں۔
2013 میں چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ مرحوم جسٹس نور محمد مسکانزئی نے اعلان کیا تھا کہ غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چلیں گے، لیکن اس فیصلے کو قانونی تحفظ نہ مل سکا، جس سے مقدمات کمزور پڑے۔
نقصانات میں تفتیش کی کمزوری، ثبوت کی کمی، اور قبائلی دباؤ شامل ہیں۔ مثال کے طور پر، نصیرآباد واقعے میں ویڈیو موجود ہونے کے باوجود جرگے کی کارروائی یا نکاح کے بیان کو محفوظ نہ کیا گیا، جو تفتیش کو کمزور کر سکتا ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا "تمام ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ ریاست مظلوم کے ساتھ کھڑی ہے۔" انہوں نے واضح کیا کہ مقتولہ اور مقتول کے درمیان ازدواجی تعلق نہیں تھا، دونوں پہلے سے شادی شدہ تھے اور ان کے بچے بھی ہیں۔
پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے کہا: "یہ قتل پوری انسانیت کے ضمیر پر حملہ ہے۔"
پاکستان علماء کونسل نے ملزمان کے خلاف دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلانے اور سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی اس عمل کی شدید مذمت کی اور کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کا کوئی جواز نہ آئین میں ہے نہ شریعت میں۔
سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل غم و غصے سے بھرپور ہے۔ ایک صارف نے لکھا: "غیرت صرف عورت کے حصے میں کیوں؟ 90 فیصد قاتل بغیر سزا کے چھوٹ جاتے ہیں۔"
ہمارے
معاشرے میں غیرت کا پیمانہ دوہرا ہے۔ جب غیر ملکی خاتون پاکستانی مرد سے شادی کرتی ہے، تو اسے فخر سمجھا جاتا ہے، لیکن مقامی لڑکی کا وہی فیصلہ موت کا باعث بنتا ہے۔ قبائلی روایات اور جرگہ سسٹم غیرت کے نام پر قتل کو روایت کے طور پر قبول کرتے ہیں، جو اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق، 2020 میں 422 افراد غیرت کے نام پر قتل ہوئے، جن میں زیادہ تر خواتین تھیں۔ یہ اعداد و شمار جہالت اور فرسودہ روایات کی عکاسی کرتے ہیں۔
معاشرے میں تبدیلی کے لئے
دینی شعور کی مہم چلائی جائے مساجد، مدارس، اور اسکولوں میں نکاح کے شرعی اصول اور عورت کے حقوق پر تعلیم دی جائے۔ علما کو اس حوالے سے آگاہی پھیلانی چاہیے، کیونکہ لوگ ان کی بات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ
سخت قانونی اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔
غیرت کے نام پر قتل کو دہشت گردی کے زمرے میں لایا جائے اور جرگہ سسٹم پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ اس کے علاوہ
شفاف تفتیش کی جائے۔
جرگے کے فیصلوں اور ملزمان کے بیانات کو ویڈیو میں محفوظ کیا جائے تاکہ عدالت میں پیش کیے جا سکیں۔
میڈیا کی بھی ذمہ داری ہے۔ سوشل میڈیا، ٹی وی، اور ریڈیو پر ایسی مہمات چلائی جائیں جو عورت کے حقوق کو اسلامی تناظر میں پیش کریں۔
خاندانی تربیت کی بھی اہمیت کلیدی ہے۔والدین کو سکھایا جائے کہ بیٹی کی رائے کی عزت کریں اور انا کو ترجیح نہ دیں۔
بیٹی کا حق زندگی ہے...
نصیرآباد کی بیٹی بانو کے معاملے کی شفاف تحقیقات کرنا ضروری ہے، جو قرآن پاک کو گواہ بنا کر اپنے نکاح کا دفاع کر رہی تھی، سوال یہ نہیں کہ وہ کیوں مری، بلکہ یہ کہ ہم نے اس کی بات کیوں نہ سنی؟
اس کے جرم کی سزا کا اختیار ریاست کے ہوتے ہوئے افراد کو کب سے حاصل ہوگیا ۔
غیرت کے نام پر قتل نہ صرف شرعی طور پر حرام ہے بلکہ قانونی طور پر بھی قابل سزا جرم ہے۔ لیکن جب تک معاشرتی سوچ نہ بدلے، قوانین اور فتاویٰ اپنا اثر نہیں دکھا سکتے۔
وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کا جرگہ سسٹم کو تسلیم کرنا اور اسے معاشرتی حقیقت قرار دینا ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگر غیرت کے نام پر قتل کو روایت سمجھ کر نظر انداز کیا گیا تو بلوچستان میں پنجابیوں کے قتل یا پاک فوج کے جوانوں کی شہادتوں کو بھی کیا اسی طرح جواز دیا جائے گا؟؟؟؟
وقت آ گیا ہے کہ غیرت کے نقاب میں چھپی جہالت کو بے نقاب کیا جائے۔ عورت کے حق زندگی کو تسلیم کرنا اور اسے شرعی و قانونی تحفظ دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔