ہوم << صوفیہ میں صوفیہ کے ساتھ - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

صوفیہ میں صوفیہ کے ساتھ - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

بلغاریہ کے دارلحکومت صوفیہ کے سٹی سنٹر میں شہر کے سب سے مصروف چوک کو صوفیہ اسکوائر کہتے ہیں جس کے عین درمیان میں سینٹ صوفیہ کا پانچ ٹن وزنی کانسی اور تانبے سے بنا مجسمہ نصب ہے ۔ یہ مجسمہ چھبیس فٹ اونچا ہے اور ایک باون فٹ اونچے چبوترے پر کھڑاہے ۔

اس کے سر کا سنہری تاج طاقت کی علامت ہے اور بائیں کندھے پر بیٹھا الو عقل ودانش اور حکمت کو ظاہر کرتاہے جبکہ دائیں ہاتھ میں پکڑی پھولوں کی مالا شہرت کی علامت ہے ۔ کبھی یہاں صوفیہ کی جگہ کیمونزم کے بانی ولادی میر لینن کا مجسمہ نصب تھا اور یہ چوک لینن اسکوائر کہلاتا تھا لیکن 1991 ء میں سوویت یونین کے زوال کے بعد لینن کا مجسمہ بھی دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح عوام کے غیض وغضب کا نشانہ بنا اور اسے مسمار کر دیا گیا لینن کے مجسمے کا سر آج بھی صوفیہ کے آرکیالوجیکل میوزیم کے باغ میں دنیا کی بے ثباتی کی داستان بنا نظر آتا ہے ۔ 25 دسمبر 2000ء میں نئے ملینیم کے موقعہ پر صوفیہ کے شہر کے باشندوں نے لینن کے مجسمے کی جگہ سینٹ صوفیہ کا مجسمہ کھڑاکر دیا ۔

عیسائی روایات کے مطابق دوسری صدی عیسوی میں رومی شہنشاہ ہیدریان Hadrian کے دور میں اٹلی کے شہر میلان میں ایک بیوہ عورت صوفیہ رہتی تھی جس کی تین بیٹیاں تھیں ۔ فیتھ Faith کی عمر بارہ سال ، ہوپ Hope دس سال جبکہ لو Love نو سال کی تھی ۔ صوفیہ اور اس کی تینوں بیٹاں سر عام اپنے عیسائی مذہب کا پرچار کرتی تھیں ۔ شہنشاہ ہیدریان کو پتہ چلا تو اس نے صوفیہ کو اس کی تینوں نوعمر بیٹیوں کے ساتھ گرفتار کر کے دربار میں حاضر کرنے کا حکم دیا۔ اور جب انہوں نے اپنا مذہب تبدیل کرنے سے انکار کر دیا تو شہنشاہ کے حکم پر صوفیہ کے سامنے اس کی تینوں بیٹیوں پر یکے بعد دیگرے شدید تشدد کیا گیا ۔

فیتھ کو جلتی ہوئی آگ میں ڈالا گیا جبکہ ہوپ پر پگھلتی کوئی کولتار ڈالی گئی اور لو کو ایک پہئیے پر باندھ کر کھینچاگیا ۔ پھر ان کے سر قلم کردئیے گئے. مجبور ماں کو مجبور کیا گیا کہ بیٹیوں پر ہونے والے ظلم وستم اور تشدد کو دیکھے جب وہ آنکھیں بند کرتی تو اسے پیٹا جاتا اور آنکھیں کھولنے پر مجبور کیا جاتا ۔ ایک روایت تو یہ ہے کہ شہنشاہ نے ان کے سر قلم کرنے کے بعد لاشیں ماں کے حوالے کر دیں اور وہ انہیں ایک بیل گاڑی پر لاد کر شہر سے باہر ایک پہاڑی چوٹی پر آگئی اور انہیں اس چوٹی پر دفن کرنے کے بعد ان کی قبروں پر بیٹھی روتی رہی اور تین دن کے بعد شدت غم اور بھوک پیاس کی وجہ سے اس کی بھی موت واقع ہوگئی.

اور دوسری روایت یہ ہے کہ صوفیہ کی بیٹیوں کو مارنے کے بعد شہنشاہ کے حکم پر صوفیہ کو بھی شدید تشدد کے بعد آگ میں زندہ جلادیاگیا اور ان چاروں ماں بیٹیوں کی لاشیں شہر سے باہر پہاڑی چوٹی پر پھینکوادیں ۔ جہاں چیلیں کوے اور کتے انہیں نوچ نوچ کر کھاتے رہے ۔ چھٹی صدی عیسوی میں ان چاروں ماں بیٹیوں کو سینٹ Saint کے رتبے سے نوازا گیا ۔ 343 ء میں بزنطینی شہنشاہ قسطنطین اول نے مشرقی اور مغربی چرچ کے اختلافات ختم کرنے کے لئے اجلاس بلوایا تو اس اجلاس میں دنیا بھر سے تین سو سولہ بڑے پادری اور بشپ شامل ہوئے اس اجلاس کو کونسل آف سر ڈیکا Council of Serdica کہتے ہیں ۔

بلغاریہ کے دارلحکومت سرڈیکا میں جس جگہ یہ اجلاس منعقد ہوا وہاں بعد میں یہاں ایک چرچ قائم کرکے اسے چرچ آف سینٹ صوفیہ کا نام دیا گیا ۔ مشرقی اور مغربی چرچ کی تقسیم اور اختلافات تو ختم نہ ہوئے لیکن یہ چرچ بھی صوفیہ میں موجود ہے اور بلغاریہ کا سب سے پرانا چرچ ہے ۔ اور بعد میں سرڈیکا کا نام بھی بدل کر صوفیہ رکھ دیا گیا ۔ ان ماں بیٹیوں کی باقیات اور یادگار چیزیں فرانس کے شہر سٹراس بورگ Stausbourg کے نواح میں اسکاچو Eschau نامی قصبے کے ایک چرچ میں رکھی گئی ہیں ۔ کیتھولک عیسائی ہر سال پچیس مئی اور آرتھوڈوکس سترہ ستمبر کو سینٹ صوفیہ کا دن مناتے ہیں اور آج ساری دنیا میں سینٹ صوفیہ کے چرچ اور کلیسا قائم ہیں ۔

اور بلغاریہ کے دارلحکومت صوفیہ میں سینٹ صوفیہ کا اسی فٹ اونچا یہ مجسمہ ایک ماں کی ہمت وشجاعت غم واندوہ دکھ اور کرب اور اپنے نظریے پر ڈٹ جانے کی نا قابل فراموش کہانی سناتا نظر آتاہے .