ہوم << الوداع، آکسفرڈ - ڈاکٹر مشتاق احمد

الوداع، آکسفرڈ - ڈاکٹر مشتاق احمد

بچوں کی چھٹیاں ہیں، تو آج کل انھیں نئی کتابیں خریدنے اور پڑھنے کےلیے زیادہ مواقع میسر ہیں۔ چنانچہ پچھلے چند دن اسلام آباد میں ان کے ساتھ کتابوں کی خریداری میں لگائے۔ اس ضمن میں کئی دلچسپ اور افسوسناک تجربات ہوئے۔ ان تجربات میں پہلے آکسفرڈ کی کہانی سن لیجیے۔

جاننے والے جانتے ہیں کہ میں آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کی کتابوں، خصوصاً اس کی ”اے ویری شارٹ انٹروڈکشن“ سیریز کا پرجوش پرچارک رہا ہوں اور اسلام آباد میں ہر سال جب آکسفرڈ کی کتابوں پر سیل لگتا ہے، تو میں دوستوں کو ترغیب دیتا ہوں کہ وہاں سے ضرور کچھ خریدیں۔ جب فیملی کے ساتھ سینٹورس جانا پڑتا، اور فیملی شاپنگ میں مصروف ہوجاتی، تو میں آکسفرڈ کی دکان میں وقت گزارتا اور کتابیں خریدتا۔ کچھ عرصے بعد سینٹورس میں آکسفرڈ کی دکان ختم ہوئی، تو میں نے اس کے بعد سینٹورس جانا ہی چھوڑ دیا۔ ویسے بھی سرمایہ دارانہ مذہب کے ایسے مندروں کی یاترا سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کتابوں کی دکان گئی، تو ہماری دلچسپی بھی ختم۔

اس کے بعد بلیو ایریا والی دکان ہی باقی رہی، اور مہینے میں ایک آدھ دفعہ ادھر کا چکر ضرور لگتا۔ تاہم پچھلے کچھ عرصے سے یہ سلسلہ بھی چھوٹ گیا کیونکہ وہ دکان بھی ختم ہوگئی۔ بتایا گیا کہ مالیاتی بحران کی وجہ سے آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے دکان آئی ٹین میں منتقل کردی ہے، یعنی:
وہ جو بیچتے تھے دواے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے!

آئی ٹین جانا ایک مسئلہ تھا کیونکہ وہ عام راستے سے کافی ہٹ کر ہے اور جب تک خصوصی کام وہاں نہ ہو، آئی ٹین بندہ کیوں جائے؟ لیکن رہ رہ کر خیال آتا تھا تھا کہ کافی عرصہ ہوا، آکسفرڈ سے کوئی نئی کتاب نہیں خریدی۔ اب کے خصوصی موقع بن گیا کہ بچے پاس ہو کر اگلی کلاسوں میں چلے گئے ہیں، تو ان کی نصابی کتب میں بھی کئی کتب آکسفرڈ کی شائع کردہ ہیں۔ چنانچہ خصوصی ارادہ کرکے آئی ٹین کےلیے چل پڑے۔ اب جا ہم آئی ٹین رہے ہیں، لیکن گوگل میپ ہمیں آئی نائن کی طرف کھینچ رہا تھا۔

چونکہ ہم اصولی طور پر اس کے قائل ہیں کہ کسی کو امام مان لیا، تو اس کی باتیں ماننے میں "پک اینڈ چوز" نئی نہیں کرنی جب تک اس کی اصولی غلطی واضح نہ ہو، تو ہم نے گوگل میپ ہی کی اقتدا میں عافیت جانی اور پہنچ گئے آئی نائن، انڈسٹریل ایریا، میں ایک بڑے ویئر ہاؤس، یعنی گودام! اب اندازہ تو ہوگیا کہ یہ گودام چند ایک کتابیں خریدنے والوں کےلیے تو نہیں ہے، بلکہ بڑے پیمانے پر خریداری کرنے والوں کےلیے ہوسکتا ہے، لیکن گیٹ پر کھڑے گارڈ نے کہا کہ آپ اندر کتابیں خرید سکتے ہیں۔اندر گئے، تو شیشوں میں بند ایک کیبن میں تھورا سا سوراخ موجود تھا اور اندر بیٹھا شخص موبائل پر شاید گیم کھیل رہا تھا۔ منہ اس سوراخ کے قریب کرکے سلام کیا، تو اسے مجبوراً سلام کا جواب دینا پڑا۔

یہ اچھا تھا کہ اس کے آگے مائیک اور میرے سامنے شیشے میں سپیکر لگا ہوا تھا، تو کم از کم اس کی آواز صاف آرہی تھی۔
اس سے کہا کہ ہم آکسفرڈ سے کتابیں خریدنا چاہتے تھے، بلیو ایریا والی دکان ختم ہوگئی ہے، شاید آئی ٹین منتقل ہوئی ہے، ادھر جارہے تھے، لیکن گوگل میپ آئی نائن لے آیا۔
اس نے کہا، جی ہاں، آئی ٹین والی دکان بھی ختم ہوگئی ہے۔
پھر اس نے پوچھا کہ آپ کون سی کتابیں لینا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا، یہ سکول کی کتابوں کی فہرست ہے اور کوئی ڈسپلے سینٹر ہو، تو بتائیے۔

اس نے کہا کہ ڈسپلے سینیٹر تو نہیں ہے کیونکہ یہ ویئر ہاؤس ہے، البتہ کتابوں کی فہرست مجھے دیجیے۔میں نے فہرست اسے دی، تو وہ کل 13 کتابیں تھیں۔ اس کے تیور تبدیل ہوئے اور کہا کہ ہمیں اس طرح کتابیں فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ آپ کمیٹی چوک والی دکان سے لے سکتے ہیں!
میں نے کہا، کمیٹی چوک راولپنڈی؟
اس نے کہا، جی ہاں۔

اس کے چہرے کی طرف دیکھا، تو معلوم ہوا کہ وہاں مزید بات کی گنجائش نہیں ہے۔ دکاندار نے سودا فروخت ہی نہیں کرنا، تو بات کیا کی جائے؟صدمے کی کیفیت میں وہاں سے نکل آئے۔ معلوم نہیں تھا کہ ابھی مزید صدمے ملنے والے ہیں۔
کیا کریں؟ کمیٹی چوک جائیں؟ اہلیہ سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ ہزار روپے کا ڈسکاؤنٹ ہوگا وہاں جا کر اور اتنا تو پٹرول کا ہی خرچہ ہوگا، لیکن بہت دن ہوئے آکسفرڈ کی کتابیں لی نہیں ہیں، تو بہتر ہے کہ وہ بھی دیکھ لیں۔

ویسے بھی اصل مقصد تو بچوں کو کتابوں کی خریداری سے آشنا کرانا تھا، تو کمیٹی چوک کا ارادہ باندھ لیا۔ گوگل میپ نے کہا کہ آدھا گھنٹہ لگے گا وہاں تک پہنچنے میں کیونکہ رش کا وقت ہے۔ ہم نے کہا، کوئی بات نہیں۔ آدھا گھنٹہ جانے کا، آدھا گھنٹہ دکان میں کتابوں کی سنگت میں وقت گزارنے کا اور آدھا گھنٹہ واپسی کا، سودا برا نہیں ہے۔

کمیٹی چوک، اقبال روڈ پر آکسفرڈ کی کتاب ڈھونڈ لی، جو ایک کھابے کے اوپر دوسری چھت پر تھی۔ تکوں، کڑاہی اور برگر وغیرہ کی خوشبوئیں سمیٹتے ہوئے وہاں پہنچے، تو معلوم ہوا کہ یہ تو کتابوں کی دکان نہیں، بلکہ کسی سرمایہ دار کا دفتر ہے۔ زیادہ غور کیا، تو معلوم ہوا کہ اس کی ہیئت تو بالکل سود خور بینک کی طرح ہے۔ پہلے آٹو میٹک مشین سے ٹوکن لیں، پھر کاؤنٹر پر موجود بابو سے بات کرنے کےلیے اپنی باری کا انتظار کریں، پھر پہنچیں تو وہ بتائے کہ ہمارے پاس ”اے ویری شارٹ انٹروڈکشن“ سیریز کیا، کوئی بھی ”جنرل کتاب“ نہیں ہے، ہم صرف نصابی کتب کی فروخت کےلیے بیٹھے ہیں، ہمارا کوئی ڈسپلے سینیٹر نہیں ہے کیونکہ ہم بھی ”ویئر ہاؤس“ ہیں۔

مشینی انداز میں کہی گئی یہ باتیں سن کر ہماری نیتِ شوق تو بھر گئی، لیکن ویسے ہی پوچھا کہ میرے پاس آکسفرڈ کا کارڈ ہے، تو کیا اسے استعمال کیا جاسکتا ہے؟
جواب ملا، نہیں کیونکہ ہم دکان نہیں، ویئر ہاؤس ہیں، لیکن آپ کو 10 فیصد ڈسکاؤنٹ مل جائے گا، اس لیے بڑا فرق نہیں۔
میں نے کہا، بھائی مسئلہ فرق کا نہیں ہے۔ خیر، اس کارڈ اور اس میں موجود پوائنٹس کے استعمال کےلیے ہم کراچی یا لاہور چلے جائیں گے۔

اس کا موڈ خراب ہوتے دیکھ کر ہم نے فوراً کہا، چلیں، چھوڑیں، یہ کتابوں کی فہرست دیکھ لیجیے اور بتائیے کہ یہ دستیاب ہیں؟اس نے فہرست دیکھ کر پھر مشینی انداز میں کہا کہ ان میں 4 کتابیں موجود نہیں، باقی آپ کےلیے نکال لی جائیں گی، آپ ایک دفعہ اپنی فہرست کے ساتھ دیکھ اطمینان کیجیے کیونکہ ایک دفعہ انٹری ہوگئی، تو پھر تبدیلی یا واپسی کی گنجائش نہیں ہوگی۔
میرے اندر کا قانون دان جاگ اٹھا۔ میں نے کہا کہ تبدیلی یا واپسی کیسے نہیں ہوگی، ساری دنیا میں تبدیلی یا واپسی کی پالیسی ہوتی ہے۔اس نے کہا، ہماری ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے۔

میں نے پوچھا، کیوں نہیں ہے؟
اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اہلیہ نے مداخلت کی کہ چھوڑیں یہ بات اور کتابیں دکھائیے۔ اس نے کمرے سے باہر دوسرے کاؤنٹر کی طرف بھیج دیا۔ کتابیں وہاں چیک کیں، پھر اندر آکر ادائیگی کی، رسید لی، پھر باہر جا کر کتابیں لیں اور نکل آئے۔شدید دکھ کے احساس کے ساتھ۔ میں نے اہلیہ سے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آکسفرڈ یونیورسٹی پریس اب صرف ”نصابی کتب“ کی اشاعت اور پھر انھیں بڑی دکانوں کو فروخت کرنے کےلیے ہی رہ گیا ہے؟

اہلیہ نے مجھے تسلی دینے کےلیے کہا، دل چھوٹا نہ کریں، چند مہینے بعد آکسفرڈ اسلام آباد سمیت چند دوسرے بڑے شہروں میں ”لٹریچر فیسٹیول“ کا انعقاد کرے گا . جس میں بہت سی آنٹیاں اور بابے اردو اور انگریزی کی مکس اچاری زبان میں اپنے دردِ دل کا اظہار کریں گے کہ پاکستان میں کتاب بینی کا رواج مردہ ہوچکا ہے اور یہ تو آکسفرڈ جیسے اداروں کا کمال ہے کہ اب بھی یہاں کتاب بینی کے فروغ کےلیے ایسے فیسٹیول منعقد کیے جارہے ہیں!

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔قبل ازیں سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داری بھی انجام دی۔ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

Click here to post a comment