ہوم << پراسرار طالبان، غزہ، کشمیر، ایران اور اتحاد امت - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

پراسرار طالبان، غزہ، کشمیر، ایران اور اتحاد امت - ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

کیا آپ نے پاک بھارت جنگ، غزہ یا اسرائیل ایران جنگ پر طالبان کی حمایت یا کوئی رائے سنی پڑھی؟ خلافت یا اتحاد امت مسلمہ ہر مسلمان کا خواب ہے۔ مسلمان حکمرانوں کے اعمال البتہ برعکس ہو سکتے ہیں۔ دنیا بھر کے حکام اور عوام دونوں کی دنیائیں ہمیشہ مختلف رہی ہیں۔

جابر امریکی حکومتیں دنیا بھر میں آتش و آہن برساتی ہیں لیکن عام امریکی کی نرم دلی کا یہ عالم ہے کہ کسی کا کوئی عزیز قتل ہو جانے تو غالب اکثریت قاتل کو سزائے موت دینے کی مخالفت کرتی ہے۔ "منتخب" وزیراعظم بنگلہ دیش نے دو قومی نظریے والوں کا عدالتی قتل کرا کر سوچا کہ جماعت اسلامی ختم ہو گئی ہے لیکن بڑھیا کے ہٹتے ہی یہ جماعت ملک کی نمایاں ترین جماعت قرار پائی۔ بر صغیر میں امت مسلمہ کی پراکسی یعنی دو قومی نظریہ 50 سال بعد بھی ہمیں تروتازہ ہی ملا۔ جان لیجئے کہ حکومت کا اپنا چہرہ ہوتا ہے۔ اس کے کچھ مخصوص لوگ ہوتے ہیں۔ حکومت اور ان لوگوں میں وہی تعلق ہے جو موسم اور نباتات میں ہوتا ہے۔

بہار کے پھول سرما میں نہیں کھلتے، نہ نومبر کے پھل مارچ میں ملتے ہیں۔ مثلاً جنرل ضیا کے عہد میں ہمیں چہار سو اپنے مقصد حیات کے غنچے تو کہیں کلیاں، کہیں نکہت بہاری ملتی تھی۔ لگتا تھا کہ اسلامی قدریں رواج پکڑ رہی ہیں ملک اسلامی ریاست بننے جا رہا ہے۔ تب ذرائع ابلاغ پر اس جرنیل کا چہرہ اور تصورات ہی نظر آتے تھے۔ رت بدلی تو اگلا جرنیل بھی غیر آئینی ہی تھا لیکن اسلام وغیرہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ زمین (ملک) کا موسم (حاکم) بدلا تو ہم نے دیکھا کہ سوئے پڑے کچھ دوسرے بیجوں ( ذرائع ابلاغ اور حکومتی کارندوں) سے کانٹے دار جھاڑیاں نکل پڑیں۔ اب اسی زمین کے تعارف کنندگان کوئی اور افراد اور با انداز دگر لوگ تھے۔

یوں لگتا تھا کہ ملک میں اسلامی سوچ کا کوئی وجود ہی نہیں۔ موسم بدلتے ہی زمین سے نئے نباتات نے سر اٹھا لیا۔ چنانچہ قارئین کرام افغانستان سمیت 50-60 مسلم ممالک کو اسی مثال پر قیاس کر لیجیے۔ کسی ملک کے حاکم اور اس کی ٹیم کو کبھی پورا ملک نہ سمجھئے۔ عین جمہوری اصولوں پر منتخب مرسی حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل سیسی کی مستبدانہ حکومت مصری عوام کی ہرگز نمائندہ نہیں ہے۔ 2004 میں میں اور میری اہلیہ سعودی ریسٹوران میں داخل ہوئے تو عملہ ہم پر پل پڑا کہ ثابت کرو کہ تم محرم ہو۔ لیکن نئے موسم میں آج اسی ملک میں نچنیاں، بھانڈ، ڈوم، میراثی اور گویے ناچ گا رہے ہیں۔ مان لیجیے کہ وہ ملک 2004 میں رائے عامہ کا نمائندہ تھا، نہ آج ہے۔

سموئیل ہنٹنگٹن کے نزدیک کل عالم میں آٹھ تہذیبیں باقی ہیں۔ میں نے رخ بدل کر دنیا دیکھی تو مجھے دو ہی تہذیبیں ملیں۔ مسلم امت اور سات تہذیبوں کے متغیر (kaleidoscopic) رنگ جو ایک ہی نفس پرست تہذیب تشکیل دیتے ہیں۔ دونوں تہذیبیں زمینی حد بندیوں سے آزاد ہیں۔ دونوں کا کوئی ملک نہیں، دونوں ہر ملک میں ملتی ہیں۔ ہمارے کھوجی محقق دوست ڈاکٹر طاہر منصوری نے حالیہ دو جنگوں میں مسلم رائے عامہ کا بغور جائزہ لیا۔ خبر کی ساخت کچھ بھی ہو، اس کی بنت کسی کے حق میں ہو یا مخالفت میں، بخیہ گری صفات حمیدہ سے معمور ہو یا عناد بھری ہو، اصل شے خبر کے نیچے عوامی تبصرے ہوتے ہیں۔

پروفیسر منصوری چار ہفتے ذرائع ابلاغ پر خبروں کے نیچے ہزاروں تبصروں کا جائزہ لیتے رہے۔ کہتے ہیں کہ ان جنگوں میں دنیا بھر کے مسلم عوام، قطع نظر اپنے حکام کے، سو فیصد یک رخے پائے گئے۔ جنرل سیسی بھلے غزہ و ایران کے معاملے میں دم سادھ لیں لیکن تل ابیب پر میزائل گرتے ہی مصری ناچنے لگتے تھے۔ پاک بھارت جنگ میں ڈاکٹر طاہر کو مراکش تا برونائی تمام مسلمان پاکستان زندہ باد ہی لکھتے ملے۔ خود میں نے بھی یہی دیکھا۔ پس آج غزہ، ایران اور کشمیر پر اگر طالبان حکام جنرل سیسی کی طرح دم سادھے ہیں تو مت سمجھئے کہ افغان عوام بھی ویسے ہی ہیں۔ وہ تو حفیظ اللہ امین اور ڈاکٹر نجیب سے بھی لا تعلق تھے اور آج کے طالبان سے بھی وہ اتنے ہی دور ہیں جتنے مصری اپنے جنرل سیسی سے دور ہیں۔ موسم (حاکم) بدلنے دیجیے, اسی افغانستان کو ہم نئی شکل میں پائیں گے۔

خوش ائند بات یہ ہے کہ طاقت کے نئے مراکز ابھر چکے ہیں، رجحانات بدل چکے ہیں۔ پاکستان اور سعودیہ کا ایران پر امریکی حملے کی مذمت کرنا سعودی صحرا میں برفباری جیسا عمل ہے۔ میرے غیر ملکی مسلم دوستوں کا خیال ہے کہ اگر کوئی ملک امت مسلمہ کا قائد کہلا سکتا ہے، وہ ملک جو عوامی اور ریاستی دونوں سطحوں پر امت کے لیے متفکر ہو تو یہ درد رکھنے والا ملک صرف پاکستان ہے۔ باقی مسلم ممالک کے برعکس یہاں کے عوام اور حکام یکساں سوچ رکھتے ہیں۔الحمدللہ آج ہمارے تمام ریاستی ادارے ہم آہنگ ہیں۔ لیکن ہتھیاروں کے ساتھ سفارت بھی اہم ہوتی ہے۔ اور جنگ تو زمانہ امن میں بھی بپا رہتی ہے جس میں سفارتی داؤ چلتے ہیں۔

چنانچہ ہمارے اپنے تراشیدہ طالبان کا رویہ اگر آج پراسرار ہے تو کچھ غم نہیں۔ جہاد افغانستان میں سوائے بھارت کے ہر مسلم ملک سے لوگ آتے تھے۔ لیکن باخبر افراد بتاتے ہیں کہ طالبان حکام، ایران، کشمیر غزہ اور بیت المقدس کو نظر انداز کیے خود ہی کو اسلامی ریاست کہتے ہیں۔ہماری قیادت طاقت کے ابھرتے مراکز پر نظر رکھے ہوئے ہے، کام بھی کر رہی ہے۔ حصول یکجہتی ملت جیسے کٹھن کام کا آغاز پڑوس سے ہوتا ہے جہاں افغانستان اور ایران دو اسلامی جمہوریتیں ہیں۔ تینوں ممالک میں سیاسی مسلکی اعتبار سے کئی کھڈے کھائیاں موجود ہیں۔ تو پھر اتحاد ملت کے خواب کی تعبیر کیا ممکن بھی ہے یا نہیں؟ کام سالوں نہیں عشروں کا ہے۔

حکومتی سطح پر رکاوٹ ہو تو غیر روایتی عوامی، تجارتی اور تعلیمی ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ کسی مسلم ملک کا اپنے عوام سے کٹ کر امت سے تادیر دور رہنا محال ہے۔ بڑی مثال بنگلہ دیش کی ہے۔ مدتوں بعد وہاں کا حاکم (موسم ) بدلا تو گیلپ سروے کے مطابق پاک بھارت جنگ میں 46 فیصد افراد نے پاکستان کو دوست کہا۔ 47 فیصد نے بھارت کو اپنا کھلا دشمن اور صرف 5 فیصد نے اسے دوست کہا۔ افغانستان میں بھی مسلم امت بستی ہے۔ اظہار رائے کے لیے وہ مناسب موسم کی منتظر ہے۔