غامدی صاحب کی جانِب سے صیہُونیوں اور مسلمانوں کو ایک صف میں کھڑا کرنے اور اور ان پر ایک ہی عذاب کے بیان پر میں یہی کہوں گا کہ یہ سوال تو تحقیق طلب ہے کہ مسلمانوں پر یہودیوں والا عذاب شروع ہُوا یا نہیں لیکن میرے نزدیک اس دورِ دجل میں غامدی صاحب سمیت ہر وہ سکالر ضرور حالتِ عذاب میں ہے جسکی اپنے دُشمن اور قومی گولز سے متعلق کنفیوئثن نہ عراق وار دیکھ کر دور ہوئی، نہ فلسطین میں جینوسائیڈ نے اسکا ضمیر جھنجھوڑا، نہ لبنان، شام ایران اور افغانستان جنگ میں یہ ساری دنیا بمقابلہ مسلمان جیسی کھُلی حقیقت دیکھ پائے۔
غور کیجیے تو سچ یہی ہے کہ ہر وہ لیڈر اور سکالر حقیقی حالت عذاب میں ہے جسکی آنکھیں تو ہیں پر وہ اپنی قوم سے متعلقہ حقائق کے ساتھ وقت میں آگے پیچھے نہیں جھانک سکتا، جس کا دل تو ہے لیکن وہ اپنے اور اپنی قوم کے مُشترکہ مفاد اور مُشترکہ دشمن کی پہچان سے عاری ہے۔
میں نے کسی شخص کی دینی سمجھ بُوجھ کا اندازہ لگانا ہو تو میں توحید اور ختمِ نبُوتﷺ پر اس کے عقائد پرکھنے کے فورا بعد اُسکا ورلڈ ویو جاننے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ دین سب سے پہلے مومن کے ورلڈ ویو کو ہی بصیرت اور مقصدیت بخشتا ہے۔ میں نے ایک بار گُوئلف میں غامدی صاحب کو ایک پیپر پر ایک سوال لکھ کر دیا تاکہ وہ باقی لوگوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہُوئے میرے سوال کا جواب بھی دیں۔ اُنہوں نے مجلس میں بیٹھے اکثر لوگوں کے سوالات کے جوابات دیے, میرے سوال کی باری ہی نہیں آئی۔ پھر وہی سوال میں نے مسی ساگا میں بھی اُنہیں لکھ کر دیا جواب ندارد۔ سوال اُنکے مُسلم ورلڈ ویو، مسلمانوں کے بطور اُمّہ تقابلی مستقبل اور تقابلی مقاصد سے متعلق تھا۔
اب جب غامدی صاحب یہ پُوچھتے ہیں کہ میرے اسرائیل کی مذمت کرنے سے کیا ہو گا تو میں مایوس نہیں ہوتا۔ آج ایران اسرائیل جنگ سے متعلق ان کا تبصرہ سُن کر بھی میں اسی لیے حیران نہیں ہُوا کہ غامدی صاحب کا اُمّہ کو لے کر نہ کوئی ورلڈ ویو ہے, نہ وہ اُمّہ کے تصور میں یقین ہی رکھتے ہیں, نہ اُن کے سکالرشپ میں مسلم اجتماعیت یا مجموعی مسلم گولز کی کوئی گنجائش ہے۔
غامدی صاحب کو چھوڑیے ہم صحابہؓ کی بات کیوں نہ کر لیں۔ دین نے صحابہؓ کو بنیادی طور پر ایک مخصوص ورلڈ ویو اور اجتماعی گولز سے متعلق ذمہ داری کا احساس ہی تو دیا تھا جس کے بعد انہوں نے دنیا بدل ڈالی۔ خالد بن ولیدؓ اور عمر فاروقؓ سمیت وہ تمام صحابہ جنہوں نے تین برّاعظم اپنے سامنے جھکا لیے, اسلام کا ورلڈ ویو ملنے سے پہلے بھی اُتنے ہی بہادُر تھے جتنے اسلام قبول کرنے کے بعد تھے. ان میں سے بیشتر اسلام قبُول کرتے وقت اپنی آدھی سے زیادہ زندگی گزار کر ان عمروں کو پہنچ چُکے تھے جس عمر کو پہنچنے کے بعد عمُوماً انسانوں کی عادات میں انقلابی تبدیلیاں نہیں آیا کرتیں, لیکن اسلام قبول کرنے سے پہلے یہ معمولی قبائلی جنگوں سے کبھی آگے نہ بڑھ پائے تھے.
ان کا بین الاقوامی ایکسپوئیر بس اتنا تھا کہ ان میں سے بعض زندگی میں ایک آدھ بار افریقہ ایران اور مشرقی یورپ تک تجارت کے لیے جا چکے تھے لیکن کبھی ان کے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہوا تھا کہ یہ مکہ کے اردگرد کے قبائل سے پرے بھی اپنا اثر بڑھائیں۔ یہ بعض متنازعہ معاملات میں اپنے اپنے قبیلے کی طرف سے دوسرے قبائل سے اُلجھتے رہتے، چند ایک کو تجارتی قافلے لُوٹنے والے ڈاکووں سے لڑنے کا تجربہ تھا کہ یہ تجارتی قافلوں کے ساتھ بطور محافظ سفر کیا کرتے تھے، پھر ایسا کیا ہُوا کہ عام سے یہ قبائلی بہادر اسلام قبول کرنے کے بعد بڑھاہے میں عرب و عجم کی تہذیبوں پر غالب آ گئے۔
اگر اسلام پھیلنے میں تلوار کی اہمیت کلیدی ہوتی تو یہ افرادؓ اسلام سے پہلے ہی اپنی جنگجُویانہ صلاحیتوں اور بہادری کے باعث کم از کم ایران و عراق اور شام تک کا علاقہ فتح کر چکے ہوتے کیونکہ اسلام نے تو نہ ان کے ہاتھ میں تلوار دی نہ اسلام تلوار بازی کا علم ہے۔ یہ ایسا اس لیے کر پائے کہ دین اجتماعیت, مقصدیت, علم اور ایکسپوئیر کا خزانہ ہے. اسلام نے ایمان کی صورت انہیں جو ورلڈ ویو, بصیرت اور علم دیا اُسی کی بدولت یہ لوگ ایران جیسی تہذیب اور روم جیسی عظیمُ الشان اور مطلق العنان ایمپائیر کا سرنِگوں کرنے میں کامیاب ہوئے۔
اسلام کی اوورسیز بنیاد بلاشُبہ پہلے دو خلفا راشدینؓ نے ہی رکھی۔ یہ دونوں حضراتؓ روایتی جنگجو نہیں تھے۔ اگرچہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر غزوہ میں شریک ہوئے اور ہر بار شہادت کے جزبے سے سرشار ہو کر جان لڑا دی لیکن انہیں کسی بھی تعریف کے مطابِق جنگجُو نہیں کہا جا سکتا۔ یہ دونوں تو مدبّر دانشور اور سوشیالوجسٹس تھے۔ انہیں قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے سٹیٹسمین شِپ کے لیے لازم ورلڈ ویو اور دانش سکھا کر بہترین پُولیٹیکل سائنٹسٹس بنایا تھا۔ اسلام سے انک و عطا ہوئے واضح ورلڈ ویو اور اجتماعی قومی گولز سے متعلقہ احساسِ ذمہ داری کی بدولت ہی یہ اپنی ذات میں ملٹی ڈسپلنری تھنک ٹینکس بن چکے تھے۔
آپ تصور کیجیے قحط کے زمانے میں خلیفہ کا چوری کی سزا معطل کرنے جیسا فیصلہ کیا کوئی قبائلی جنگجُو یا سپہ سالار کر سکتا تھا۔ انتظامی آفسز بنانے سے لے کر ٹیکسیشن کے موثر سٹرکچر اور متحرک عدالتی نظامِ انصاف تشکیل دینے تک، وسائل کی معاشرے کے تمام طبقات تک تقسیم اور ترسیل کا منصفانہ نظام قائم کرنے سے شہریوں کی تعلیم و تربیت کا خودکار اور متحرک نظام قائم کرنے تک, فوجی چھاونیوں کو شہروں سے باہر نکالنے سے لے کر شہروں سے باہر چھوٹی چھوٹی نئی اور پلانڈ بستیاں بسانے تک, پہلے دو خلفا راشدین کے سینکڑوں ایسے فیصلے ثابت کرتے ہیں کہ اسلام کے دیے گئے ورلڈ ویو علم اور ایکسپوئیر نے ان افراد کو ایسے دانشوروں میں بدل دیا تھا جو قبائلی معاشرے کو ایک ایسی تہذیب بنانے میں کامیاب رہے جو انٹلیکچُوئلی دوسری تہذیبوں سے برتر ثابت ہو گئی تھی۔
جب ایک تہذیب اپنے لوگوں اور مخالف تہذیبوں سے جُڑے افراد کے اذہاں میں یہ تاثر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے کہ اسکا ورلڈ ویو منصفانہ بھی ہے حقیقت پسندانہ بھی اور ساری اقوام سمیت دنیا بھر کے فائدے کا بھی تو اس تہذیب کے غلبے کے اسباب خود بخود پیدا ہو جایا کرتے ہیں۔ گویا کسی بھی قوم یا مذھب کے لیڈرز اور سکالرز کا ورلڈ ویو اُسکی ترقی اور بقا سے براہِ راست متعلقہ ہوتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ دین اُسی کو سمجھ آیا جس کے ہاں اپنی قوم کے اجتماعی مقاصد اور دشمن سے متعلق ذرا سا بھی ابہام نہ پایا جاتا ہو۔ گزشتہ صدی میں اقبالؒ ایسے سکالرشپ کی بہترین مثال تھے۔۔۔
تبصرہ لکھیے