عامر خاکوانی صاحب نے پاکستان اور ایران کی حالیہ حکمت عملی پر کچھ بہت بنیادی اور جاندار سوالات اٹھاٸے ہیں جن کا تجزیہ اور ان پر بات کرنا ضروری ہے۔
ان کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ ایران جذبات میں فیصلے کر رہا ہے، اور پاکستان بھی بعض مواقع پر ناپختہ سفارتی چالیں چل چکا ہے۔
مثلاً خاکوانی صاحب نے پاکستان کی طرف سے صدر ٹرمپ کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کرنے کے اقدام کو نہایت بے وقت اور غیر ضروری قرار دیا۔ بظاہر یہ عمل اخلاص کی بجائے کسی سفارتی چال کا حصہ لگتا ہے۔
مگر کیا دنیا کی سفارت کاری محض خلوص پر چلتی ہے؟ بعض اوقات علامتی اقدام ہی بڑے فیصلوں کو کرنے یا مؤخر کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہ اقدام شاید امریکہ کو اخلاقی طور پر قائل کرنے اور عالمی منظرنامے پر پاکستان کو امن پسند ملک کے طور پر پیش کرنے کی ایک حکمتِ عملی تھی۔ اس کا مقصد شاید یہ دکھانا تھا کہ ہم جنگ کے حامی نہیں، اور اگر جنگ بڑھی تو اس کی ذمہ داری ہم پر نہیں ہو گی
اسی طرح یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان ہر سفارتی موو میں انڈیا کو ضرور مد نظررکھتا ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کریں اور انڈیا کی حمایت کم کرواٸیں
لہذا اسے سفارتی ناپختگی کہنے کی بجائے soft leverage diplomacy سمجھنا زیادہ موزوں ہوگا بھلے کامیاب ہو یا ناکام۔
خاکوانی صاحب کا دوسرا اعتراض ایران کی جانب سے اپنی افزودہ یورینئم کے محفوظ ہونے کے بار بار دعوے پر ہے۔ ان کے مطابق اگر ایران واقعی یورینئم بچانے میں کامیاب ہوا ہے تو اسے خاموشی اختیار کرنی چاہیے تھی تاکہ امریکہ کو دوبارہ حملے کی دعوت نہ ملے۔
بظاہر یہ نکتہ بہت منطقی لگتا ہے۔ مگر ایران کے بیانات کو صرف جذباتی یا ناعاقبت اندیشی سے تعبیر کرنا مناسب نہیں۔ یہ ایک بین الاقوامی بیانیہ سازی کی کوشش ہو سکتی ہے، جس میں ایران یہ ظاہر کرنا چاہتا ہو کہ امریکہ کا حملہ غیر قانونی اور ناکام تھا۔
یاد رہنا چاہیے کہ اس سے پہلے اسراٸیل بھی متعدد ایسے دعوی کرچکا ہے کہ اس نے ایران کا نیوکلیر انفراسٹرچکر تباہ کردیا ہے اور دوسری جانب، جب امریکہ خود اعلان کرتا ہے کہ ہم نے ایران کی نیوکلیئر تنصیبات تباہ کر دی ہیں، تو ایران کی تردید اس کا منطقی حق بنتی ہے۔
ایسے میں اگر ایران خاموش رہتا تو اس کی خاموشی کو شکست کی علامت سمجھا جاتا۔ اس لیے ممکن ہے کہ یہ بیانیہ ایران کے لیے داخلی سطح پر عوامی اعتماد بحال رکھنے اور خارجی سطح پر دشمن کو کنفیوژن میں ڈالنے کا حربہ ہو۔
آپ اسے جذباتیت کیبجاۓ strategic ambiguity بھی کہ سکتے ہے، جس کا مقصد دشمن کو غیر یقینی کیفیت میں رکھنا ہوتا ہے۔
خاکوانی صاحب یہ بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ کہیں ایران کی قیادت یہ سب بیانات اپنی عوام کو مطمئن کرنے کے لیے تو نہیں دے رہی؟ یہ سوال بجا ہے، مگر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ تمام بڑی ریاستیں، بشمول اسرائیل اور امریکہ، اپنے حساس تنصیبات کے لیے deception and dispersal کی حکمتِ عملی اپناتی ہیں۔ اگر ایران نے بھی افزودہ مواد کو پہلے ہی کہیں اور منتقل کر دیا ہو، تو اس کا اعلان صرف دشمن کو پریشان کرنے کے لیے نہیں بلکہ خوفزدہ کرنے کو بھی کارگر ہے ، ایران کی حکمت عملی کا ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ بین الاقوامی اداروں کے سامنے امریکہ کے حملے کو غیر ضروری اور غیر مؤثر ثابت کرنا چاہتا ہو، تاکہ مستقبل میں اسے مظلوم مگر طاقتور فریق کے طور پر دیکھا جائے۔ یہی وہ سیاسی سرمایہ ہے جس کی بدولت اقوامِ متحدہ یا دیگر فورمز پر سفارتی حمایت حاصل ہو سکتی ہے
نتیجتاً، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ خاکوانی صاحب کی باتوں میں وزن ضرور ہے، خاص طور پر جذباتی ردِعمل، عوامی نفسیات اور ممکنہ خطرات کے حوالے سے۔ لیکن بین الاقوامی سیاست صرف سیدھی لکیر پر نہیں چلتی۔ بسا اوقات وہ چیز جو بظاہر بے معنی یا بے وقت لگتی ہے، وہ کسی بڑی اسٹریٹیجک پہیلی کا ٹکڑا ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایران یا پاکستان کے اقدامات کو صرف داخلی سیاسی تنقید کے عدسے سے دیکھنے کی بجائے، ہمیں انہیں ایک وسیع تر عالمی تناظر میں رکھ کر سمجھنا ہوگا۔
معروضی تجزیے میں ہمیں ہر پہلو کو وزن دینا پڑتا ہے اور بعض اوقات سطح پر ناسمجھ آنے والی بات، درحقیقت گہرے حکمت عملی کے دائرے میں Meaningful Move ہوتی ہے۔
تبصرہ لکھیے