ہوم << دوہرا معیار بے نقاب " "ظلم کے ترازو میں تولی گئی انسانیت" . ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

دوہرا معیار بے نقاب " "ظلم کے ترازو میں تولی گئی انسانیت" . ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

"اندھوں کی پنچایت نے متفقہ فیصلہ کیا کہ"سارے فساد کی جڑ یہ "بینائی" ہے۔ ! ! !"

ناجائز ریاست اسرائیل پر حملے کے بعد رفتارِ عالم کی سیاسی و سفارتی تیزی محض ایک وقتی ردعمل نہیں بلکہ ایک طویل المیعاد پالیسی کا تسلسل ہے۔ یہ پالیسی طاقتور اقوام کے مفادات، دوہرا معیار، اور عالمی طاقتوں کی ترجیحات پر مبنی ہے۔ مسلمانوں کا خون ارزاں اس لیے ہے کہ ان کے لیے عالمی ضمیر نے کبھی وہ حساسیت نہیں دکھائی جو یورپ یا اسرائیل کے لیے مختص ہے۔ فلسطین، لبنان، شام، یمن، عراق، اور کشمیر میں برسوں سے ظلم، قتلِ عام اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، مگر اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، G7، اور مغربی طاقتیں محض رسمی بیانات یا بے معنی تشویش پر اکتفا کرتی ہیں۔

اکتوبر 7، 2023 کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی جانب سے جو ردعمل آیا، وہ تاریخ کے بدترین مظالم میں شمار ہونے لگا۔ غزہ پر زمینی، فضائی اور بحری حملوں کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر اور ہزاروں شہید ہو چکے ہیں۔ اسپتال، اسکول، عبادت گاہیں، اور امدادی مراکز ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا خبردار کر چکی ہیں کہ غزہ میں اجتماعی نسل کشی کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے، مگر سلامتی کونسل کی خاموشی، یا پھر ویٹو کے پیچھے چھپی بے حسی، مسلم دنیا کے لیے باعث اذیت ہے۔

جون 2025 میں ایران اور اسرائیل کے مابین براہ راست تصادم نے صورتحال کو اور سنگین کر دیا۔ ایران کی جوابی کارروائی کے بعد نہ صرف خطہ بلکہ عالمی سیاست ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ امریکہ نے ایران کے خلاف جنگ کی دھمکی دی، یورپی یونین نے تحمل کی اپیل کی، اور چین و روس نے سفارتی توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی، مگر واضح تھا کہ اسرائیل پر حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا، چاہے وہ ردعمل کسی مظلوم قوم کی فریاد کا نتیجہ ہی کیوں نہ ہو۔

اسی دوران لبنان میں حزب اللہ کی بڑھتی کارروائیوں، یمن کے حوثیوں کی جانب سے سمندری جہاز رانی کو ہدف بنانے، اور عراق و شام کے اندر ایران نواز گروپوں کی نقل و حرکت نے عالمی منظرنامے کو مزید حساس بنا دیا۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے ایران، حماس اور حزب اللہ کو "دہشت گرد" اور "خطرناک عناصر" کے طور پر پیش کیا جبکہ اسرائیل کو مظلوم اور دفاعی پوزیشن میں رکھا گیا۔

یہ سب محض اتفاق نہیں بلکہ منظم عالمی بیانیے کا نتیجہ ہے۔ جب بات مسلمانوں کی ہو، تو دہشت گردی، بنیاد پرستی، اور انتہا پسندی کے القابات بے دریغ استعمال ہوتے ہیں۔ مگر جب اسرائیل یا مغربی ممالک کسی پر حملہ کریں، تو وہ "حقِ دفاع"، "قومی سلامتی"، اور "دہشت گردی کے خلاف جنگ" جیسے الفاظ میں لپٹے جاتے ہیں۔

فلسطین کے معاملے پر امتِ مسلمہ کی بے بسی بھی قابلِ افسوس ہے۔ عرب لیگ خاموش، او آئی سی غیر فعال، اور انفرادی طور پر بھی کوئی اسلامی ملک ایسا نہیں جو اسرائیل کے مظالم کو روکنے کے لیے مؤثر اقدام کر سکے۔ ترکی، قطر، ملائشیا، اور ایران جیسے ممالک نے بیانات دیے، مگر ان کا اثر عالمی سفارت کاری پر نہ ہونے کے برابر ہے۔

کشمیر میں جاری بھارتی ریاستی ظلم ہو یا برما کے روہنگیا مسلمانوں کا المیہ، دنیا کا ردعمل ہمیشہ "تشویش" سے آگے نہیں بڑھتا۔ مسلمان ممالک میں اگر کوئی واقعہ ہو، تو فوراً عالمی پابندیاں، سفارتی تنہائی، اور مالیاتی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر اسرائیل جیسا ملک جب جنگی جرائم کا ارتکاب کرے، تو اسے جدید اسلحہ، اربوں ڈالر امداد، اور اقوام متحدہ کی خاموش پشت پناہی حاصل رہتی ہے۔

جی سیون G7 ممالک اپنے اقتصادی و سیاسی مفادات کو انسانی ہمدردی پر ترجیح دیتے ہیں۔ امریکہ، فرانس، برطانیہ، جرمنی، کینیڈا، جاپان، اور اٹلی سب جانتے ہیں کہ اسرائیل کی بقا ان کے مفادات کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سفارت کاری فلسطین کی بجائے اسرائیل کی سلامتی کو مقدم رکھتی ہے۔

انسانی حقوق کے عالمی ادارے جب فلسطین یا کشمیر میں کسی ظلم کی رپورٹ جاری کرتے ہیں، تو مغربی حکومتیں اسے "جانب دارانہ" یا "سیاسی" قرار دے کر مسترد کر دیتی ہیں۔ مگر یہی ادارے اگر کسی مسلم حکومت کے خلاف رپورٹ جاری کریں، تو انہیں بین الاقوامی قوانین کا ضامن مانا جاتا ہے۔

اس وقت دنیا میں "Responsibility to Protect" (R2P) کا نظریہ بھی مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ یہ نظریہ کہتا ہے کہ اگر کسی ملک میں عوام کی نسل کشی ہو رہی ہو، تو عالمی برادری مداخلت کر سکتی ہے۔ مگر غزہ میں لاکھوں افراد کے قتلِ عام پر کوئی نیٹو مداخلت، کوئی عالمی فوجی مشن، یا کوئی ہنگامی قرارداد نہیں آتی۔ اس کے برعکس، جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا، تو پوری دنیا حرکت میں آ گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا فلسطینی، لبنانی، یمنی، کشمیری، اور شامی انسان نہیں؟

دنیا کو درپیش یہ دوہرا معیار مسلمان نوجوانوں میں شدت پسندی کو فروغ دیتا ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کی قومیں اقوام عالم میں دوسرا یا تیسرا درجہ رکھتی ہیں، تو ان میں ردعمل پیدا ہوتا ہے۔ یہی ردعمل بعض اوقات شدت اختیار کر جاتا ہے، جسے پھر "دہشت گردی" کہہ کر مزید دبایا جاتا ہے۔

اس تمام تناظر میں امت مسلمہ کو اپنے اندر اصلاح، اتحاد، اور بیداری لانے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ میں مضبوط آواز، سفارتی و معاشی اتحاد، میڈیا کی طاقت کا درست استعمال، اور علمی و سائنسی ترقی ہی مسلمانوں کو اس عالمی بے حسی سے نکال سکتی ہے۔ موجودہ حالات میں مسلم دنیا کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، اور دیگر عالمی فورمز پر مشترکہ مؤقف کے ساتھ کھڑی ہو۔ انفرادی بیانات یا احتجاجی مظاہرے تب تک بے اثر رہیں گے جب تک وہ عالمی سفارتی دباؤ میں نہ بدل جائیں۔

دنیا کی رفتار اس لیے تیز ہوئی کہ اسرائیل پر حملہ ہوا۔ کیونکہ حملے کا نشانہ وہ ریاست بنی جسے مغرب نے اپنے مفادات کے تحفظ کا قلعہ بنا رکھا ہے۔ کیونکہ وہ قوم نشانہ بنی جو دنیا کی طاقتور ترین میڈیا، دفاع، اور معیشت کی پشت پناہی رکھتی ہے۔ جبکہ جب فلسطینی مرتے ہیں، تو وہ "کولateral damage" کہلاتے ہیں، اور جب کشمیر میں انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں، تو اسے "اندرونی معاملہ" قرار دے دیا جاتا ہے۔

یہی وہ تضاد ہے جو مسلم عوام میں غصہ، محرومی، اور بے بسی پیدا کرتا ہے۔ مگر اب وقت آ چکا ہے کہ دنیا میں دوہرا معیار بے نقاب ہو۔ ہر جان قیمتی ہے۔ ہر خون کا رنگ ایک جیسا ہے۔ اگر دنیا واقعی امن چاہتی ہے تو اسے ہر مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا، خواہ وہ فلسطین میں ہو یا یوکرین میں، کشمیر میں ہو یا اسرائیل میں۔
ورنہ دنیا امن کی نہیں، طاقت کی دنیا رہے گی جہاں انصاف صرف طاقتور کے لیے ہوگا، اور مظلوم کی فریاد دب جائے گی۔ اور ایسی دنیا بالآخر خود اپنی تباہی کی طرف بڑھے گی، کیونکہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانے والی قومیں خود تاریخ کے اندھیرے میں گم ہو جاتی ہیں۔
یہی وقت ہے کہ مسلم دنیا اپنی حیثیت کو پہچانے، اتحاد قائم کرے، اور دنیا کو دکھا دے کہ وہ صرف ظلم سہنے والی نہیں، بلکہ انصاف کے قیام کی علمبردار بھی بن سکتی ہے۔