ہوم << مودی کا بیانیہ، بلاول کا مؤقف اور پاکستانی قوم کا پیغام - سلمان احمد قریشی

مودی کا بیانیہ، بلاول کا مؤقف اور پاکستانی قوم کا پیغام - سلمان احمد قریشی

حالیہ سیزفائر کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان سفارتی سرگرمیاں ایک بار پھر تیز ہو چکی ہیں، مگر اس بار منظرنامہ صرف مذاکرات یا سفارت کاری تک محدود نہیں رہا۔ بھارتی قیادت، خصوصاً وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ دھمکی آمیز بیانات نے خطے میں نئی کشیدگی کو جنم دیا ہے۔ مودی نے پاکستانی نوجوانوں کو“گولی”کی دھمکی دے کر نہ صرف ایک غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اپنایا بلکہ جنوبی ایشیا میں قیامِ امن کی کوششوں پر بھی کاری ضرب لگائی۔نریندر مودی کی یہ روش نئی نہیں۔ ان کے سیاسی کیریئر پر ایک نظر ڈالیں تو 2002 کے گجرات فسادات کی تلخ یادیں تازہ ہو جاتی ہیں، جب بطور وزیرِ اعلیٰ ان کی زیر نگرانی سینکڑوں بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ اسی واقعے کی بنیاد پر بھارتی اور عالمی میڈیا نے انہیں ''گجرات کا قصائی'' قرار دیاایک لقب جو ان کے کردار کی سنگینی کو واضح کرتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اسی تاریخی حقیقت کو اقوامِ متحدہ میں دہرایا، جس پر بھارت میں شدید ردِعمل دیکھنے میں آیا۔ بلاول بھٹو نے نریندر مودی کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی فوٹو کاپی بھی قرار دیا۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ بلاول نے بھارتی جارحیت کو للکارا ہو۔ بطور وزیرِ خارجہ 2022 میں بھی انہوں نے واضح الفاظ میں بھارتی وزیراعظم کی پالیسیوں کو ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ اس وقت بلاول بھٹو کی جانب سے نریندر مودی کو ''گجرات کا قصائی'' کہنے پر بھارتیہ جنتا پارٹی نے احتجاجی مظاہرے کیے۔ انڈیا کی ریاست اتر پردیش میں بی جے پی کے ایک مقامی رہنما نے اعلان کیا کہ جو بلاول بھٹو زرداری کا سر قلم کرے گا، اسے دو کروڑ روپے انعام دیا جائے گا۔ ضلع باغپت کلکٹریٹ کے سامنے احتجاجی اجتماع میں ضلع پنچایت کے رکن مانوپال بنسل نے اس اعلان کو اپنے تصدیق شدہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی پوسٹ کیا اور آج تک اس بیان پر قائم ہیں۔
بھارتی حکومت نے بلاول بھٹو کے بیان کو ''غیر مہذب'' قرار دیا، جبکہ بلاول بھٹو کا مؤقف تھا کہ انہوں نے ایک تاریخی حقیقت کو دہرایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ“گجرات کے قصائی”کی اصطلاح ان کی ایجاد نہیں بلکہ وہ الفاظ بھارت کے مسلمانوں کی جانب سے مودی کے لیے استعمال کیے گئے، اور انہوں نے محض تاریخ کا حوالہ دیا ہے۔ اگر کوئی تاریخی سچائی کو دہرانے کو ذاتی حملہ سمجھتا ہے، تو یہ دراصل سچائی سے فرار ہے۔ نریندر مودی سیاسی فائدہ کے لئے خطہ میں تناؤ پیدا کرتا رہا،راحت اندوری نے پہلے ہی کہا تھا
سرحدوں پر تناؤ ہے
لگتا ہے چناؤ ہے؟
کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا؟
خوف بکھرا ہے دونوں سمتوں میں
تیسری سمت کا دباؤ ہے کیا؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی پارلیمانی وفد نے نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے ہیڈکوارٹرز کا دو روزہ دورہ مکمل کیا۔ وفد نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، جنرل اسمبلی و سلامتی کونسل کے صدور، مستقل و غیر مستقل ارکان، او آئی سی گروپ کے سفیروں، میڈیا، سول سوسائٹی اور تھنک ٹینکس کے نمائندوں اور پاکستانی کمیونٹی سے ملاقاتیں کیں۔ دفترِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق یہ دورہ بھارت کے غیر ذمہ دارانہ رویے، بلا اشتعال جارحیت، اشتعال انگیز بیان بازی اور سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ خلاف ورزی جیسے اہم معاملات پر عالمی برادری کو پاکستان کا مؤقف پیش کرنے کے لیے کیا گیا۔سندھ طاس معاہدہ، جو 240 ملین سے زائد پاکستانیوں کے لیے زندگی کی ضمانت ہے، کو بھارت کی جانب سے خطرے میں ڈالنے کی کوشش نہ صرف خطے کے امن بلکہ عالمی سلامتی کے لیے بھی تشویش ناک ہے۔ حالیہ دورہ نیویارک اسی تناظر میں اہمیت کا حامل رہا، جہاں بلاول بھٹو نے بھرپور انداز میں پاکستان کے مؤقف کی نمائندگی کی۔ اس سے قبل بلاول بھٹو کا ایک اور بیان، جسے بھارتی میڈیا نے شدید ہدفِ تنقید بنایا، وہ ذوالفقار علی بھٹو کی تاریخی وارننگ کا اعادہ تھا۔''اگر ہمارے دریاؤں میں پانی نہیں بہے گا تو تمھارا خون بہے گا۔''اسے بھارتی میڈیا نے“دھمکی”کے طور پر پیش کیا، حالانکہ یہ درحقیقت بھارتی آبی جارحیت کے ممکنہ نتائج سے متنبہ کرنے کا ایک سنجیدہ اظہار تھا۔افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارت میں بلاول بھٹو کے خلاف مظاہروں میں ان کی والدہ، شہید بینظیر بھٹو، کی المناک شہادت کو دہشت گردی سے جوڑنے کی ناپاک کوشش کی گئی۔

بھارتی میڈیا نے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کی بارش کر دی، جبکہ عالمی سطح پر خود بھارت کو تنقید اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔ کولمبیا کے بعد روسی وزیرِ خارجہ نے ایک بین الاقوامی کانفرنس میں بھارتی وفد کو آڑے ہاتھوں لیا اور چین کے خلاف مغربی سازشوں کا آلہ کار بننے پر خبردار کیا۔ امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات بھی بھارت کے لیے حوصلہ افزا نہیں رہے۔عالمی سطح پر بھارت کو اپنی جنگی پالیسی اور جارحانہ بیانیے کے لیے خاطر خواہ حمایت نہیں مل رہی، جبکہ پاکستان کی سفارتی مہمات مسلسل توجہ حاصل کر رہی ہیں۔پاکستان اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی دو اہم کمیٹیوں کا رکن منتخب ہوا،پاکستان کو اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی دو اہم کمیٹیوں میں کلیدی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ پاکستان کو طالبان پر پابندی لگنے والی کمیٹی کا چیئرمین اور کاؤنٹر ٹیررازم کمیٹی کا نائب صدر مقرر کیا گیا ہے۔یہ پیش رفت اس تناظر میں خاص اہمیت رکھتی ہے کہ بھارت طویل عرصے سے پاکستان کو دہشت گردی کا ''ایکسپورٹر'' اور عالمی سطح پر دہشت گرد ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر اس کے برعکس، پاکستان کا ان حساس اور بااثر کمیٹیوں میں شامل کیا جانا عالمی برادری کے اعتماد کا مظہر ہے، اور اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔

ایسے وقت میں، جب پاکستان ایک نوجوان اور وژنری قیادت کے ذریعے عالمی فورمز پر اپنا مقدمہ مؤثر انداز میں لڑ رہا ہے، اندرونِ ملک بعض سیاسی عناصر کی جانب سے بلاول بھٹو کے بیانات پر تنقید کرنا قومی یکجہتی کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔جنگیں صرف فوجیں نہیں، قومیں لڑتی ہیں۔ جب ہمارے نوجوانوں کو گولی کی دھمکیاں دی جائیں، تو ہمیں متحد ہوکر جواب دینا چاہیے۔ اسد عمر جیسے سیاسی رہنما اگر اس نازک وقت میں بلاول بھٹو پر تنقید کریں گے تو یہ قومی مفاد کے خلاف اور وقت کی نزاکت سے لاعلمی کا ثبوت ہوگا۔

بلاول بھٹو کا مؤقف پاکستان کی قومی سلامتی، آبی حقوق، خودمختاری اور بین الاقوامی وقار کے تحفظ پر مبنی ہے۔ بھارت کی اشتعال انگیزی کے سامنے خاموشی اختیار کرنا خودفریبی اور بزدلی ہوگی۔ جب تک بھارت خطے میں امن قائم رکھنے کے بجائے جنگی جنون اور مذہبی شدت پسندی کا بیانیہ اپناتا رہے گا، پاکستان کو سفارتی محاذ پر مضبوط، متحرک اور متحد رہنا ہوگا۔وقت کا تقاضا ہے کہ پوری قوم، اپنے نوجوان رہنماؤں، سفارتی نمائندوں اور افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو، تاکہ پاکستان کی آواز عالمی سطح پر بلند، مؤثر اور قابلِ توجہ رہے۔ بلاول بھٹو کا جرات مندانہ مؤقف ایک نئی نسل کی ایسی قیادت کی جھلک ہے جو امن، وقار اور قومی غیرت کی علمبردار ہے اور یہی قیادت ہمیں ایک کامیاب، خودمختار اور باوقار پاکستان کی طرف لے جا سکتی ہے۔نتن یاہو اور نریندر مودی کے ہاتھ بے گناہ انسانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں شخصیات عالمی سطح پر نفرت، ظلم اور بربریت کی علامت بن چکی ہیں۔

Comments

Avatar photo

سلمان احمد قریشی

سلمان احمد قریشی اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی، کالم نگار، مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ تین دہائیوں سے صحافت کے میدان میں سرگرم ہیں۔ 25 برس سے "اوکاڑہ ٹاک" کے نام سے اخبار شائع کر رہے ہیں۔ نہ صرف حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ اپنے تجربے و بصیرت سے سماجی و سیاسی امور پر منفرد زاویہ پیش کرکے قارئین کو نئی فکر سے روشناس کراتے ہیں۔ تحقیق، تجزیے اور فکر انگیز مباحث پر مبنی چار کتب شائع ہو چکی ہیں

Click here to post a comment