حدیث احمد المسند میں درج ہے . حضور نبی کریم محمد ﷺ نے فرمایا کہ تم قسطنطنیہ ضرور فتح کرو گے. اس کا امیربہترین امیر ہو گا اور اس کو فتح کرنے والا لشکر بہترین لشکر ہوگا .
میں سلطان فاتح کے میوزیم میں کھڑا تھا . میرے سامنے اس خوش قسمت شخص کی زندگی کے اوراق بکھرے پڑے تھے جسے میرے اللّٰہ نے اپنے محبوب مصطفیٰ صلعم کی بشارت کو پورا کرنے کے لئے پیدا کیا تھا. اس کی زندگی کے یہ اوراق اس کی یاد داشتوں کی صورت میں ہیں، اس کے بنائے ہوئے نقشے ہیں جو شیشے کی الماریوں میں سجے ہوئے ہیں. یہ وہ نقشے ہیں جو وہ دن رات قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لئے بنایا کرتا . اور یہ وہ یاد داشتیں ہیں جو سب کی سب قسطنطنیہ فتح کرنے کی عزم کی غماز تھیں. الماریوں میں سلطان کی ڈائری اس کا دیوان اوروہ ذاتی جنگی اشیاء بھی نمائش کے لیے رکھی گئی تھیں جو اس جنگ میں استعمال ہوئیں اور ہر شے سے اس کی محنت اور مقصد سے وہ لگن ٹپکتی تھی جو اس نے قسطنطنیہ کی فتح کے لیے کی. ایک اور الماری میں دنیا کی اس سب سے بڑی توپ کے حصے نمائش کے لئے رکھے تھے جو اس نے قسطنطنیہ پر حملے کے لئے تیار کروائی تھی .اس کے ساتھ ایک شو کیس میں اس زنجیر کا ٹکڑا پڑا تھا جس سے اہل قسطنطیہ گولڈن ہارن کا دہانہ بند کر کے بحری جہازوں کی آمدورفت قسطنطنیہ کی بندرگاہ پر بند کر دیتے تھے اور جو قسطنطیہ پر حملے کے وقت سب سے بڑی رکاوٹ بنی رہی . اس کے بائیں جانب شیشے کے ای شوکیس میں وہ دستاویز بھی رکھی تھی جس کی رو سے سلطان محمد فاتح نے ہائیہ صوفیہ کی عمارت اپنی جیب سے پیسے دے کر خریدی تھی اور اب یہ عمارت سلطان محمد فاتح ٹرسٹ کی ملکیت ہے . درحقیقت اگر یہ کہا جائے کہ سلطان فاتح قسطنطیہ فتح کرنے کے لئے پیدا ہوا تھا تو یہ غلط نہ ہوگا .اللہ نے اس اکیس سالہ نوجوان کے حصے میں وہ سعادت لکھی تھی جس کی آرزو میں حضرت ابو ایوب انصاری حضرت امیر معاویہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسی جلیل قدر ہستیاں ترستی رہیں .
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
ایں سعادت بزور بازو نیست
جب تک عطا کرنے والا خدا کسی کو کوئی مرتبہ، صلاحیت اور عزت نہ عطا کرے کسی شخص کے بازو کی طاقت سے وہ رتبہ یا وہ صلاحیت و عزت حاصل نہیں ہوتی . سلطان محمد دوم 30 مارچ 1432ء کو تیسرے عثمانی دارلحکومت ایڈرنہ میں سلطان مراد دوم کے ہاں پیدا ہوا. اس کی ماں کا نام ہما خاتون تھا، جو ایک سربین النسل خاتون تھی . گیارہ سال کی عمر میں روایت کے مطابق اسے گورنر بنا کر اس کی ماں کے ساتھ امیسا بھیج دیا گیا تاکہ وہ حکمرانی کی تربیت حاصل کر سکے. اساتذہ اور علماء کی ایک ٹیم بھی اس کے ساتھ تھی جو اس کی تعلیم و تربیت کی ذمہ دار تھی . جن میں ملا گورانی اور عشق شمس الدین نمایاں تھے. سلطان کی زندگی پر سب گہرا اثر عشق شمس الدین نے چھوڑا اور انہی کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا کہ اس نے نوعمری سے ہی قسطنطیہ کی فتح کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بنا لیا تھا. وہ دو بار سلطان بنا پہلی مرتبہ اگست 1444ء سے ستمبر 1446ء تک دو سال کے لئے اور دوسری مرتبہ فروری 1451ء سے مئی 1481 ء تک تیس سال کے لئے - وہ ساتواں عثمانی سلطان تھا. 1443 ء میں اس کا بڑا بھائی شہزادہ علاؤالدین جو ولی عہد بھی تھا ، اٹھارہ سال کی عمر میں گھوڑے سے گر کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملا . شہزادے کی موت کا اس کے باپ سلطان مراد دوم پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ اس کا دل تخت و تاج سے اچاٹ ہو گیا. اس نے ہنگری پولینڈ اور دیگر یورپی ریاستوں کے ساتھ دس سالہ معاہدہ امن کیا ، اور1444ء میں کاروبار سلطنت 12 سالہ محمد ثانی کے ہاتھوں میں دے کر گوشہ نشینی اختیار کر لی. وہ بقیہ زندگی عبادت و ریاضت میں گزارنا چاہتا تھا۔ یہ معاہدہ تاریخ میں ایڈرین معاہدہ امن ( Treaty of Edirne) کہلاتا ہے.
نو عمر سلطان کے لئے یہ سب کچھ بہت اچانک اور غیر متوقع تھا. اس کی نا تجربہ کاری ، نوعمری اور اس کے جلیل القدر باپ کی موجودگی اس کے اقتدار کے لئے مشکلات پیدا کرتی رہیں. بارہ سالہ شہزادے کی تخت نشینی اور سلطان مراد کی گوشہ نشینی کی خبر یورپ پہنچی تو سارے یورپ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی . پوپ یوجین چہارم نے اسے ترکوں سے نجات کا سنہری موقع جانا اور یورپ کا دورہ کر کے سارے یورپ کو ایک جنگی جنون میں مبتلا کر دیا. پوپ نے سارے یورپ کی مشترکہ افواج کو ترکوں کے مقابلے پر لاکھڑا کیا. یہ افواج وارنا میں اکٹھی ہوئیں اور ایڈرنہ پر حملے کی تیاری شروع ہوگئی. ان کی قیادت انیس سالہ بادشاہ ولادیسلاف سوم کر رہا تھا جو پولینڈ اور ہنگری کا مشترکہ حکمران تھا اور یورپ کا سب سے طاقتور حکمران سمجھا جاتا تھا. یہ امن معاہدے کی صریحً خلاف ورزی تھی.
عمال سلطنت کے تعاون میں کمی اور اتنی بڑی افتاد سے نو عمر سلطان گھبرا گیا. اس نے اپنے باپ سے رابطہ کیا اور اس سے واپس آکر فوج کی قیادت سنبھالنے کی درخواست کی . سلطان مراد نے نوجوان بادشاہ کو حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا درس دیا اور عملی اقدام اٹھانے کے بجائے خود سے رابطہ کرنے پر سخت ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔ اس صورتحال میں محمد نے اپنے والد کو خط لکھا کہ "اگر آپ سلطان ہیں تو آئیے اپنی فوج کی قیادت کیجیے، اور اگر میں سلطان ہوں تو میں آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آئیں اور فوج کی قیادت کریں۔" یہ خط ملتے ہی مراد ثانی نے گوشہ نشینی ترک کی. وہ اس وقت انقرہ کے قریب ایک خانقاہ میں درویشی کی زندگی گزار رہاتھا اور اک زبردست فوج لے کر صلیبیوں کے مقابلے کے لیے روانہ ہوا۔
وہ مہینوں کا فاصلہ دنوں میں طے کرتا صلیبی لشکر تک جا پہنچا . وارنا مشرقی بلغاریہ میں بحیرہ اسود کے کنارے تین ہزار سال پرانا بلغاریہ کا تیسرا بڑا شہر ہے. اس شہر کے باہر جھیل وارنا کے کنارے 1444ء میں 10 نومبر کو عثمانی ترکوں اور یورپ کی مشترکہ فوجوں کے درمیان ایک تاریخ ساز جنگ لڑی گئی جسے تاریخ میں جنگ وارنا، کے نام سے جانا جاتا ہے . یہ عثمانیوں کی عظیم ترین فتوحات میں سے ایک ہے ، اس جنگ میں سلطان مراد ثانی کی زیر قیادت عثمانی افواج نے ہنگری پولینڈ ، انگلینڈ ، فرانس بلغاریہ ،اٹلی ،جنیوا ، بوسنیا چیک ،کروشیا اور لیتھونیا کی مشترکہ افواج کو بدترین شکست دی. ولادیسلاف سوم اپنے بھائی سمیت مارا گیا اور یہی وہ جیت تھی جس نے اہل یورپ کی ساری مزاحمت ختم کر کے رکھ دی. پھر وہ دوبارہ اتنی بڑی تعداد میں ترکوں کے مقابل نہ آ سکے جس سے قسطنطنیہ کی عظیم فتح کی راہ ہموار ہو گئی.
اس جنگ کے بعد عمال سلطنت سے مشورے کے بعد مراد ثانی نے حکومت کی باگ ڈور ایک بار پھر خود سنبھال لی . محمد ثانی کا سلطان کا لقب تو برقرار رہا لیکن اسے اس کی ماں کے ساتھ برصہ کا گورنر بنا کر برصہ بھیج دیا گیا. تین فروری 1451ء کو سلطان مراد کے فوت ہونے کے بعد انیس سال کی عمر میں وہ ایک بار پھر سلطان بنا، لیکن اس بار وہ تجربے کی بھٹی میں تپ کر کندن بن چکا تھا. اب اس کا مقصد حیات صرف قسطنطیہ کی فتح تھا. اس کے روز و شب اسی کی منصوبہ بندی میں گزرنے لگے. اس کی ساری توانائیاں اور سارے وسائل قسطنطیہ کو زیر کرنے کی کوششوں میں صرف ہونے لگے . وہ سارا دن اور رات قسطنطنیہ کے محل وقوع کے نقشے بناتا اور اکثر ان نقشوں پر ہی سو جاتا . اس نے ساری دنیا سے گولہ بارود اور توپیں بنانے والے کاریگر اکٹھے کیے. شہر کی فصیلوں کو توڑنے والے اور ان کے نیچے سے سرنگیں بنانے والے ماہرین کی خدمات بھاری مشاہروں پر حاصل کیں. قسطنطنیہ کا محاصرہ کرنے کے لیے اور آبنائے باسفورس کی ناکہ بندی کے لیے قلعے تعمیر کروائے. سمندر کی طرف سے ناکہ بندی کے لیے چار سو سے زائد بحری جہاز بنوائے - توپیں بنانے کے لئے کارخانے تعمیر کروائے. اس نے دنیا کی سب سے بڑی توپ بیس لیکا Basilica تیار کروائی جو ستائیس فیٹ لمبی تھی، جسے ستر بیل اور گھوڑے مل کر کھینچتے تھے، جس کا ایک گولہ پانچ سو چالیس کلو کا ہوتا تھا، اور اس کی مار ڈیڑھ کلو میٹردور تک تھی. اس توپ کو چلانے کے لیے چارسو فوجی درکار ہوتے تھے. اس توپ کے کچھ حصے میوزیم میں آج بھی محفوظ ہیں .
دو سال تک بھرپور تیاری کرنے کے بعد 6 اپریل 1453ء کو اس نے تقریباً 2 لاکھ کے لشکر کے ساتھ چاروں طرف سے قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیا، جو 53 دن تک جاری رہا . اس دوران کئی اتار چڑھاؤ آئے . سب سے مشکل مرحلہ گولڈن ہارن کا محاصرہ تھا. آبنائے باسفورس سے شہر قسطنطنیہ کے اندر جانے والی خلیج کو "شاخ زریں" کہتے ہیں. گولڈن ہارن کے مغربی کنارے پر قسطنطنیہ کا شہر آباد تھا جس کے چاروں طرف فصیل تھی اور مغربی کنارے پر ایک بہت مضبوط قلعہ تھا جسے گلاٹا یا غلطہ کہتے تھے. گلاٹا کے قلعے اور قسطنطنیہ کی فصیل کے درمیان گولڈن ہارن کے دہانے پر بزنطینی افواج نے ایک زنجیر لگا رکھی تھی، یہ زنجیر گلاٹا کے قلعے سے آپریٹ ہوتی تھی جس کی وجہ سے عثمانی بحری جہاز اس جانب سے شہر کی فصیل کے قریب نہ جا سکتے تھے، لیکن وہ جب چاہتے اس زنجیر کو ڈھیلا کر کے اپنے بحری جہاز وں کو گولڈن ہارن کے ذریعے اندر آنے کی اجازت دے دیتے.
پھر وہ تاریخی دن بھی آیا ، جب دنیا نے ایک ایسی جنگی حکمت عملی دیکھی، جس پر وہ آج بھی انگشت بدنداں ہے۔ اس دن سلطان محمد فاتح نے بحری جہازوں کو خشکی پر چلوا دیا۔ سلطان نے شہر کے دوسری جانب غلطہ Galata کے علاقے سے جہازوں کو خشکی پر سے گزار کر اس خلیج میں اتارنے کا عجیب و غریب منصوبہ پیش کیا . سلطان کے اس خیال کو حقیقت بنانے کے لیے عثمانی افواج نے خشکی پر راستہ بنایا، جنگل کاٹے، درختوں کے بڑے تنوں پر چربی مل کر جہازوں کو ان پر چڑھا دیا گیا۔ علاوہ ازیں موافق رخ سے ہوا کی وجہ سے جہازوں کے بادبان بھی کھول دیے گئے اور 23 اپریل کو رات ہی رات میں سو عثمانی بحری جہازوں کو دھکیلتے ہوئے شاخ زریں میں منتقل کر دیا . صبح قسطنطنیہ کی فصیل پر کھڑے بزنطینی فوجی اور اہل قسطنطنیہ کو اپنی آنکھو ں پر یقین نہ آیا کہ یہ خواب ہے یا حقیقت، کیونکہ زنجیر اپنی جگہ قائم تھی اور عثمانی جہاز شہر کی فصیل کے باہر گولڈن ہارن میں کھڑے تھے. اس دن اہل قسطنطنیہ کو یقین ہو گیا کہ اب ترک کسی بھی وقت شہر پر قبضہ کر سکتے ہیں.
یہ حکمت عملی قسطنطنیہ کی فتح میں سب سے اہم رہی کیونکہ اسی کی بدولت عثمانیوں کو جنگ میں نہ صرف اپنے حریف پر پہلی بار نفسیاتی برتری حاصل ہوئی، بلکہ ان کو اپنی آدھی فوج خشکی کی جانب سے ہٹا کر گولڈن ہارن کی سمت والی فصیلوں پر منتقل کر نا پڑی جس سے ان کے دفاع کو بہت بڑادھچکا لگا.
ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب قسطنطیہ میں داخلے کی مسلسل کوششوں کے باوجود بھی کوئی کامیابی نہیں مل رہی تھی اور ترکوں کا بھاری جانی نقصان روز بروز بڑھتا جا رہا تھا. ایسے میں وزیراعظم جلیل پاشا اور اس کے ہم نوا دیگر بڑے عمال سلطنت جو پہلے ہی قسطنطنیہ پر حملے کے خلاف تھے، انھوں نے محاصرہ اٹھانے کا مطالبہ کر دیا. سلطان بہت دل برداشتہ ہوا. محاصرے نے طول پکڑ لیا تھا . فتح کی کوئی صوت نظر نہ آتی تھی. سلطان بہت مایوس تھا اور محاصرہ ختم کرنے کے بارے میں سوچنے لگا تھا. ایک رات حضرت ابو ایوب اسے خواب میں ملے اور انھوں نے سلطان کو فتح کی بشارت دی اور اپنی قبر کی نشاندہی کی. دوسری صبح اس نے اپنا یہ خواب اپنے استاد عشق شمس الدین کو سنایا جنھوں نے اس کی تعبیر کرتے ہوئے تصدیق کی کہ حضرت ابو ایوب انصاری اسی علاقے میں کہیں دفن ہیں. اس نے ان کی مدد سے قبر ڈھونڈ نکالی اور اپنا فوجی مستقر وہاں منتقل کردیا ، اور دن میدان جنگ میں اور اپنی راتیں اس مزار پر گزارنے لگا . وہ کہا کرتا تھا کہ اگر حضرت ابو ایوب اٹھانوے سال کی عمر میں رسول اکرم صلعم کی خواہش پوری کرنے کے لیے اتنی بڑی قربانی دے سکتے ہیں، تو میں 21سال کا نوجوان کیوں کوشش نہیں کرسکتا. حضرت ابو ایوب کے ساتھ گذارا ہر لمحہ مجھے قوت بخشتا ہے. حضرت ابو ایوب انصاری پہلی عرب بزنطینی جنگ کے دوران 674 ء میں قسطنطنیہ کی فصیل کے باہر فوت ہوئے تھے اور انہیں فصیل شہر کے باہر دفن کیا گیا تھا. اس وقت چونکہ وہ سارا علاقہ رومیوں کے قبضے میں تھا لہذٰا جنگ ختم ہونے کے بعد حضرت ابو ایوب انصاری کی قبر بھی بے نام نشان ہو گئی. کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں دفن ہیں. جب سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا تو فصیل کے باہر کا وہ علاقہ بھی اس کے زیرنگیں آ گیا جہاں حضرت ابو ایوب انصاری سات سو سال سے سو رہے تھے ، لہذاٰ سلطان کو ان کی قبر ڈھونڈنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی . اس واقعہ کا تذکرہ ترک تاریخ نگار ادریس بتلیسی نے اپنی کتاب '' ہشت بہشت '' میں بہت تفصیل سے کیا ہے .
آخر دو سال اور تین مہینے کی سخت کوشش اور 53دن کے محاصرے اورلڑائی کے بعد 29مئی کو میرے نبی اکرم صلعم کا فرمان سچ ثابت ہوا. رومیوں کی سلطنت مسلمانوں کے ہاتھوں ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی اور وہ سعادت جس کی فتح کی حسرت لیے حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے عظیم المرتبہ لوگ دنیا سے رخصت ہوئے، جس کی تمنا عالم اسلام کے ہر بڑے بادشاہ اور کمانڈر نے کی ، وہ سعادت اور نعمت اللہ نے 21 سال کے نوجوان کے نصیب میں لکھی تھی جو اسی نسبت سےتاریخ میں سلطان فاتح کہلایا . قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اس نے عام معافی کا اعلان کیا اور عام شہریوں کو جان و مال کی ضمانت دی اور فتح کے تیسرے دن جب وہ سفید گھوڑے پر سوار ہو کر ٹوپ کاپی گیٹ سے شہر میں داخل ہوا تو سارا شہر اس کے استقبال کے لیے امڈ آیا تھا. وہ سب سے پہلے ہائیہ صوفیہ میں گیا، جہاں اس نے اذان دینے کے بعد دو نفل نماز ادا کی، اور اس کے بعد وہ ہائیہ صوفیہ کے پہلو میں واقع قیصرروم کے محل بوکو لئیون میں پہنچا. یہ محل ایک ہزار سال سے قیصرروم کی سرکاری رہائش گاہ تھی. اسے تھیوڈوس دوئم Theodosius II نے 430 ء میں بنوایا تھا. اس نے محل کی دیوڑھی میں اپنا گھوڑا روکا اور وہ الفاظ کہے جو تاریخ کی کتابوں میں امر ہوگئے.
پرده داری مىكند بر طاق قیصر عنكبوت
جغد نوبت ميزند بر قلعۀ افراسياب
آج قیصر کے محل کے طاق پر مکڑی نے جالے بن دیے ہیں ، جس طرح افراسیاب کے قلعے میں الو بولتے ہیں .
بعد میں سلطان محمد فاتح نے اس محل کو گرا کر اس کی جگہ ایک نیا محل تعمیر کروایا ، جس کا نام “سرائے جدید عامرہ “ تھا . چوبیسویں عثمانی سلطان محمود اوّل نے 1775 ء میں اس کا نام بدل کر ٹوپ کاپی محل ( Cannon Gate )کر دیا. 1887ء تک یہ محل عثمانی سلاطین کی شاہی رہائش گاہ رہا . مشہور بزنطینی تاریخ نگار جارج سفرانٹز نے قسطنطنیہ کو فتح ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا . وہ تمام واقعات کا چشم دید گواہ تھا. اس نے اپنی کتاب میں لکھا :
On the third day after the fall of our city, the Sultan celebrated his victory with a great, joyful triumph. He issued a proclamation: the citizens of all ages who had managed to escape detection were to leave their hiding places throughout the city and come out into the open, as they were to remain free and no question would be asked. He further declared the restoration of houses and property to those who had abandoned our city before the siege. If they returned home, they would be treated according to their rank and religion, as if nothing had changed.
— George Sphrantzes
اس نے آرتھوڈکس چرچ سے ہائیہ صوفیہ کا سودا کیا اور اپنی جیب سے رقم ادا کر کے ہائیہ صوفیہ ان سے خرید لیا ،اور اسے مسجد کے طور پر وقف کر دیا. اس خرید و فروخت کے دستاویزی ثبوت آج بھی میوزیم میں محفوظ ہیں . عیسائیوں کی کتابوں میں ایک پیشن گوئی کا بہت ذکر ملتا ہے کہ '' قسطنطین اوّل قسطنطنیہ کا بانی ہے اور قسطنطین نام کا قیصر روم ہی آخری حکمران بھی ہوگا اور دونوں کی ماں کا نام ہیلنا ہوگا.'' اور یہی ہوا.قسطنطنیہ کی جنگ میں جس قیصر روم نے سلطان فاتح کا مقابلہ کیا، جنگ کے آخری دن مارا گیا اس کا نام قسطنطین ہی تھا. سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اپنا دارلحکومت ایڈرنہ سے قسطنطیہ منتقل کر دیا اور قیصر روم کا لقب اختیار کیا.
قسطنطنیہ کی فتح کے علاوہ سلطان فاتح نے 1459ء میں سربیا، 1460ء میں موریا، 1461ء میں طرابزون، 1462ء میں ولیشیا اور 1463ء میں بوسنیا بھی فتح کیے. عاشق پاشا زادہ نے اپنی کتاب ''تواریخ العثمان'' میں لکھا ہے کہ گاؤٹ عثمانی سلا طین کی خاندانی بیماری تھی، اور تقریباً تمام ہی سلطان اس بیماری کا شکار رہے. اپنی زندگی کے آخری سالوں میں سلطان فاتح بھی اس مرض کا شکار ہوگیا . چلنے پھرنے میں دشواری کی وجہ سے اس کا وزن بہت بڑھ گیا تھا. اپریل 1481ء میں اس نے اپنی فوجوں کو تیاری کا حکم دیا. وہ مصر پر فوج کشی کا ارادہ رکھتا تھا، لیکن 3 مئی 1481 ء کو ابھی اس کی فوج قسطنطنیہ میں ہی تھی کہ فرشتہ اجل نے اسے روک لیا. غالباً ہارٹ اٹیک کے نتیجے میں وہ 49سال کی عمر میں 32سال حکومت کرنے کے بعد اپنے مالک حقیقی سے جا ملا. اسے سلطان فاتح مسجد کے احاطے میں دفن کیا گیا . اس مسجد سے ملحقہ سلطان محمد فاتح کمپلکس بھی ہے، جس میں سات مدرسے ، میڈیکل سکول ، ہسپتال ، لنگر خانہ، متعدد حمام، کئی یتیم خانے اور ہاسٹل قائم ہیں جسے اس کے بیٹے سلطان بایزید دوم نے بنوایا تھا. ادریس بتلیسی نے لکھا ہے کہ '' وہ سلطنت عثمانیہ کے ماتھے کا جھومر تھا ، جتنی عزت واحترام اس کے دور میں عثمانیوں کو ملی، وہ کسی اور سلطان کے مقدر میں نہیں تھی.''
سلطان فاتح ایک ہمہ جہت اور ہشت پہلو شخصیت کا مالک تھا وہ صرف ایک اچھا گھڑ سوار ، فوجی سالار بہترین سپاہی منتظم اور انجنئیر ہی نہیں تھا ، بلکہ بڑا عالم فاضل ، حافظ قرآن بہت اچھا شاعر , ماہر علم نجوم ، ماہر الہیات اور مذاہب کے تقابلی موازنے کا ماہر بھی تھا . اسے قرآن و حدیث پر مکمل دسترس حاصل تھی اور اسلام کے ساتھ عیسائیت اور یہودی مذاہب پر بھی پوری گرفت رکھتا تھا. وہ سات زبانوں کا ماہر تھا اور انھیں کسی اہل زبان کی طرح بول سکتا تھا. جن میں ترکی ، عربی ، فارسی ، سربین ، لاطینی اور یونانی زبانیں شامل تھیں . وہ ایک شاعر بھی تھا. اس کا دیوان آج بھی اس کی دیگر اشیاء کے ساتھ میوزیم میں موجود ہے. اس کا تخلص
''ایونی'' تھا جس کے معنی مددگار کے ہیں . اس کی علم دوستی، غریب پروری اور اہل علم کی سرپرستی بھی بہت مشہور تھی . اس کے دربار میں دنیا جہان کے عالم، شاعر، مصنف، سائنسدان، ریاضی دان اور ماہر علم نجوم جمع رہتے تھے . اس نے حضرت ابو ایوب انصاری کا مقبرہ تعمیر کروایا اور انہیں سلطان ایوب کا خطاب دیا. وہ ہفتے میں ایک دو دن ان کے مقبرے پر ضرور گزارتا کرتا تھا . یوسل مسلو نے ''عثمانی اور مملوک'' میں لکھا ہے کہ ''محمد ثانی نے اپنے آپ کو دو براعظموں کے سلطان اور دو سمندروں کے خان کے طور پر منوایا ہے.'' رابی جے نے آکسفورڈ آرٹ جرنل میں اسے فنون لطیفہ کا سرپرست قرار دیا ہے.
ححدیث احمد المسند میں درج ہے . حضور نبی کریم محمد ﷺ نے فرمایا کہ تم قسطنطنیہ ضرور فتح کرو گے. اس کا امیربہترین امیر ہو گا اور اس کو فتح کرنے والا لشکر بہترین لشکر ہوگا .
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
جب تک عطا کرنے والا خدا کسی کو کوئی مرتبہ، صلاحیت اور عزت نہ عطا کرے کوئی شخص اپنے بازو کی طاقت سے وہ رتبہ یا وہ صلاحیت و عزت حاصل نہیں کر سکتا.
تبصرہ لکھیے