ہوم << ڈاکٹر لبنیٰ اخلاق خان : ایک وژنری لیڈر - حافظ محمد قاسم مغیرہ

ڈاکٹر لبنیٰ اخلاق خان : ایک وژنری لیڈر - حافظ محمد قاسم مغیرہ

ہم اپنے گرد و پیش میں ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ جو مسائل کا رونا روتے رہتے ہیں اور اپنے حصے کا کام بھی نہیں کرتے۔ ایسے لوگ کسی معجزے کے منتظر رہتے اور کسی مسیحا کی راہ تکتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ اس کے برعکس رویہ بھی اختیار کرتے ہیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ رہنے کے بجائے اپنی توانائیاں اور وقت مسائل کے حل کے لیے صرف کردیتے ہیں۔ یہ حالات کا شکوہ نہیں کرتے اور کنفیوشس کے قول " اندھیروں کو کوسنے کے بجائے ایک دیا جلادو" پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔

شان دار تعلیمی کیریئر کی حامل ڈاکٹر لبنیٰ اخلاق خان ایک ایسی ہی شخصیت کا نام ہے۔ گوجرانوالہ کے ایک قصبے ایمن آباد میں پیدا ہوئیں۔ گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ایمن آباد سے میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ سیٹلائیٹ ٹاؤن کالج گوجرانوالہ میں داخلہ لیا اور انٹرمیڈیٹ سے ایم اے انگلش تک تعلیم اسی کالج سے حاصل کی۔ اس دوران انہیں بی اے میں دو اور ایم اے انگلش میں ایک گولڈ میڈل ملا۔ ایم اے انگلش کے بعد ایف سی کالج یونیورسٹی سے ایک پوسٹ گریجوایٹ ڈپلوما کیا۔ یونیورسٹی آف گجرات سے گولڈ میڈل کے ساتھ ایم فل کرنے کے بعد نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز سے " Conceptualization of Speech in Oral Cultures: A Linguocultural Analysis of Punjabi, English and Nigerian Proverbs" کے عنوان پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی مکمل کی۔ قومی اور بین الاقوامی تحقیقی جرائد میں ان کے 22 ریسرچ آرٹیکلز شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ، پولینڈ، آسٹریلیا ، سوئٹزرلینڈ اور اٹلی میں منعقدہ 29 کانفرنسز میں پاکستان کی نمائندگی کرچکی ہیں۔

ڈاکٹر لبنیٰ اخلاق خان نے فروری 2025 میں گورنمنٹ گریجوایٹ کالج سیٹلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ کی پرنسپل کا چارج سنبھالا۔ اس قلیل عرصے میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ ینگ رائٹرز ملٹی لنگول کانفرنس کا انعقاد ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی واحد کانفرنس ہے جس میں اردو ، پنجابی اور انگریزی کے نوجوان لکھاریوں کو اپنی نگارشات پیش کرنے کا موقع ملا۔ انتہائی قلیل عرصے میں اس کانفرنس کا انعقاد ڈاکٹر لبنیٰ اخلاق کی انتظامی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ڈاکٹر صاحبہ نے فنڈز کی کمی سے نمٹنے کے لیے کچھ صاحبان ثروت سے تعاون کی درخواست تو انہوں نے مایوس نہیں کیا بل کہ کالج کے لیے دل کھول کر خرچ کیا۔ یہ تمام منتظمین کے لیے ایک روشن مثال ہے کہ چیلنجز سے کس طرح نمٹا جاتا ہے۔ ڈاکٹر لبنیٰ اخلاق کالج کو ہر جہت میں بلندی پر لے جانا چاہتی ہیں۔ ایک محقق ہونے کی حیثیت سے انہوں نے عزم کر رکھا ہے کہ کالج میں معیاری تحقیق کو فروغ دیا جائے تاکہ علم و ادب کی تعبیر کے نئے در وا ہوں۔کتاب بینی کے فروغ کے لیے کالج میں بک ریڈنگ کلب عمل میں لایا گیا ہے۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے طالبات کو کتاب پڑھنے کی نہ صرف ترغیب دی جائے گی بل کہ پڑھی جانے والی ہر کتاب کے بارے میں طالبات کی آراء اور تنقیدی جائزے کو شائع بھی کیا جائے گا۔

کوئی مسئلہ ، کوئی چیلنج ڈاکٹر لبنیٰ کی نظروں سے اوجھل نہیں ہے۔ انہیں اس امر کا بھی بہ خوبی احساس ہے کہ گزشتہ برسوں میں میڈیکل کالجز میں سرکاری کالجوں کے بچوں کے داخلوں میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ اس مسئلے سے نمٹنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ انہیں یہ اندازہ ہے کہ یہ کام ایک دن میں نہیں ہوگا بل کہ اس کے لیے ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کے احکام پر ان خطوط پر کام شروع ہوچکا ہے اور کالج کی طالبات کے لیے بغیر فیس کے MDCAT کی تیاری کا آغاز ہوچکا ہے۔ مستقبل میں اس میں مزید بہتری لائی جائے گی۔

لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنا بھی پرنسپل صاحبہ کا خصوصی ہدف ہے۔ اس سلسلے میں ان کی کوشش ہے کہ کالج میں پڑھنے والی طالبات کو ایسا ماحول ملے کہ ان کے کردار کی بہتر تشکیل ہو۔ ان میں اخلاقی اقدار پروان چڑھیں اور سب سے بڑھ کر یہ ان کی اساتذہ ان کے لیے رول ماڈل بنیں۔ اس قسم کے ماحول سے ان میں ایسے رویے تشکیل پائیں کہ سماج کی فضا بدلے ، لڑکیوں کے لیے تعلیم کا حصول آسان ہو اور مزید طالبات کالج کا رخ کریں۔

پرنسپل صاحبہ کالج کو " لٹل پاکستان" کا درجہ دیتی ہیں۔ ان کا پختہ یقین ہے کہ کالج میں زیر تعلیم نو ہزار طالبات پر محنت کرکے ، ان کے اخلاق و کردار کی تعمیر اور انہیں مثبت اور تعمیری سوچ کی حامل بنا کر وطن عزیز میں مثبت تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔ اس پلیٹ فارم سے تربیت پانے والی طالبات سے قوی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ تحصیل علم سے فراغت کے بعد مختلف حیثیتوں میں کام کرکے سماج میں مثبت تبدیلیوں کا باعث بنیں گی۔

ڈاکٹر صاحبہ اس امر پر پختہ یقین رکھتی ہیں کہ طالبات کیرئیر کے انتخاب میں بھیڑ چال اور نقالی کے بجائے اپنے میلان اور رجحان کے مطابق فیصلہ کریں۔ کوئی طالبہ محض نقالی کرتے ہوئے سول سروس مین نہ آئے بل کہ اپنے اندر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی پسند کے شعبے کا انتخاب کرے۔ ڈاکٹر لبنیٰ اخلاق کا تدریس سے وابستہ ہونا کوئی اتفاق نہیں ہے نہ ہی یہ ان کے کیریئرز کی فہرست کی آخری شے ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اولین ترجیح کے طور پر اس شعبے کا انتخاب کیا ہے۔ انہیں طالبات سے بھی یہی امید ہے کہ کیرئیر کے انتخاب میں اپنے میلان کے مطابق فیصلہ کریں۔

ڈاکٹر صاحبہ کا عزم ہے کہ اپنے ادارے کو پنجاب کا بہترین ادارہ بنائیں۔ اس مقصد کے لیے ان کی ہمہ جہت جدوجہد قابل تحسین ہے۔ تعلیم، تحقیق ، تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے، کردار سازی سمیت ہر محاذ پر سرگرم ہیں۔ ڈاکٹر لبنیٰ اس کالج کی طالبہ ہونے کے ناطے کالج کی فلاح و بہبود میں خصوصی دل چسپی رکھتی ہیں۔ ان کے عزم مصمم کو دیکھتے ہوئے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ جلد یا بہ دیر اپنے کالج کو پنجاب کا بہترین ادارہ بنانے میں کام یاب ہو جائیں گی۔ ان شاءاللہ۔

ڈاکٹر صاحبہ استحکام پاکستان ایوارڈ ، سرسید ایوارڈ، بیسٹ موم ایوارڈ، بیسٹ پرفارمنس 2025 سمیت بہت سے اعزازات کی حامل ہیں۔ ان کا شمار 101 ناقابل یقین خواتین چیف ایگزیکٹو آفیسرز میں ہوتا ہے۔ انہیں گوجرانوالہ بورڈ کی پہلی فیمیل سیکریٹری ، اپنے کالج کی کم عمر ترین پرنسپل اور واحد پی ایچ ڈی پرنسپل ( مستقل ) ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ اپنے تجربے، مشاہدے اور ملکی اور غیر ملکی درس گاہوں کے اکسپوژر کی بنیاد پر جدید خطوط پر طالبات کی تربیت کرنے کی خواہاں ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نوجوان نسل کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ خود کو جدید مہارتوں سے لیس کریں اور زمانے کی رفتار سے اپنی رفتار ملائے۔

حالیہ برسوں میں جہاں کچھ حلقوں میں حقوق نسواں کے نعرے حدود اعتدال سے تجاوز کرچکے ہیں، ڈاکٹر صاحبہ ایک معتدل شخصیت ہیں۔ وہ اپنی تمام کام یابیوں کا کریڈٹ اپنے گھر کے مردوں کو دیتی ہیں اور ان پر فخر کرتی ہیں۔ ڈاکٹر لبنیٰ اخلاق خان نے کیرئیر اور گھریلو ذمہ داریوں میں توازن کی ایک عمدہ مثال قائم کی ہے۔

ایک قصبے سے تعلق رکھنے والی لبنیٰ اخلاق کا ڈاکٹر لبنیٰ اخلاق خان بننے تک کا سفر محنت ، جہد مسلسل اور مستقل مزاجی سے عبارت ہے۔ ان پر شاد عظیم آبادی کا شعر صادق آتا ہے

یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

Comments

Avatar photo

محمد قاسم مغیرہ

محمد قاسم مغیرہ پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد سے انگریزی ادب اور یونیورسٹی آف گجرات سے سیاسیات کی ڈگری رکھتے ہیں۔ سیاسی و سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ پاکستانی سیاست، ادب، مذہب اور تاریخ کے مطالعہ میں دلچسپی ہے۔

Click here to post a comment