غزہ کے ایک چھوٹے سے محلے میں آٹھ سالہ یوسف بیٹھا آسمان کو تک رہا تھا۔ چاندنی رات تھی، اور دور کہیں سے بچوں کی خوشیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ عید کل تھی، لیکن یوسف کے گھر میں نہ خوشی تھی، نہ چہل پہل۔
"امّی، کیا کل واقعی عید ہے؟"
اس نے اپنی ماں سے پوچھا، جن کے چہرے پر زخموں کی پرانی نشانیاں ابھی تازہ دکھتی تھیں۔
"ہاں، بیٹا۔ کل عید ہے۔" ماں نے مسکرا کر جواب دیا، لیکن آنکھیں کچھ اور کہہ رہی تھیں۔
"تو میرا نیا جوڑا کہاں ہے؟ جیسے پچھلی عید پر ابو لائے تھے؟"
یوسف کی آواز میں معصوم امید تھی۔
ماں کا دل لرز گیا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا جیسے کوئی دعا، کوئی معجزہ مانگ رہی ہو۔
"ابو... ابو تمھیں جنت میں نیا جوڑا دلوا رہے ہوں گے، بیٹا۔"
ماں کی آواز کانپ گئی۔ یوسف خاموش ہو گیا۔ وہ جانتا تھا کہ ابو اب کبھی نہیں آئیں گے۔
یوسف کے والد پچھلے مہینے اسرائیلی بمباری میں شہید ہو گئے تھے۔ ان کا گھر، ان کا سکون، سب راکھ ہو گیا تھا۔
اسی رات، محلے کے بچوں نے پرانی چادروں کے ٹکڑوں سے اپنے لیے "نئے کپڑے" بنائے۔ یوسف بھی شریک ہوا۔ اس نے اپنے ابو کے پرانے کرتا کو کاٹ کر ایک چھوٹا سا کُرتا بنایا، جس پر مٹی کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔
عید کی صبح، یوسف نے وہی کُرتا پہنا اور مسجد اقصیٰ کی طرف چل پڑا، جہاں جانے کی اجازت اب ایک خواب بن چکی تھی۔
راستے میں وہ ہر بچے کو "عید مبارک" کہتا، مسکراہٹیں بانٹتا، اور اپنی جیب میں رکھے ہوئے کھجور کے تین ٹکڑے سب کو پیش کرتا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے ابو نے اسے یہی سکھایا تھا غم میں بھی خوشیاں بانٹو، کیونکہ یہی اصل عید ہے۔
اس دن جب سب بچے اپنے کھلونوں میں مگن تھے، یوسف نے اپنے دل میں ایک عہد کیا:
"ایک دن میں بڑا ہو کر وہ ملک واپس لاؤں گا جہاں ہر بچہ عید پر اپنے ابو کے ساتھ ہو، ہر ماں کے آنسو خوشیوں میں بدلیں، اور ہر مسجد میں اذان آزادی کے لہجے میں گونجے۔"
تبصرہ لکھیے