میں نے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم کراچی کے معروف و تاریخی ادارے ڈی جے کالج میں حاصل کی ہے۔ ڈی جے کراچی کا سب سے قدیم تعلیمی ادارہ ہے۔ 1984ء میں جب میرا داخلہ یہاں ہوا، اس وقت اس کے قیام کو 100 سال پورے ہونے والے تھے۔
1884ء میں، جس وقت یہ قائم ہوا تھا، اس وقت کراچی میں کوئی اچھا تعلیمی ادارہ نہ ہونے کے باعث یہاں کے طالب علم بمبئی یا لندن جا کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔ 1865ء کے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت پورے سندھ میں صرف چار ہائی اسکول، تین مڈل اسکول، 56 پرائمری اسکول اور صرف ایک ٹریننگ کالج تھا۔ 1884ء میں کراچی کی چند علم دوست شخصیات نے بڑی جدوجہد کے بعد یہاں ایک کالج کی بنیاد رکھی جس کا نام ”سندھ آرٹس کالج“ طے پایا۔
انہی دنوں کراچی کی ایک متمول شخصیت سیٹھ دیا رام جیٹھ مل کا انتقال ہوا۔ ان کے لواحقین نے اس وعدے پر ایک خطیر رقم دینے کا اعلان کیا کہ اس کالج کو دیا رام جیٹھ مل سے موسوم کیا جائے۔ چنانچہ یہ عظیم الشان عمارت تعمیر ہوئی اور دیا رام جیٹھ مل کالج (ڈی جے کالج) کہلائی۔ ڈی جے کالج کی وہ پرشکوہ عمارت آج بھی مرکز شہر میں پوری آب و تاب سے جلوہ افروز ہے۔
ڈی جے کالج ہمارے گھر سے بہت دور تھا۔ ملیر کھوکھراپار سے ڈی جے کالج آنے کیلئے مجھے دو بسیں بدلنا پڑتی تھیں۔ پہلی بس میں کھوکھراپار سے صدر اور دوسری میں صدر سے برنس روڈ۔ ان دنوں سب بسوں میں طالب علم کا کرایہ 30 پیسے مقرر تھا۔ اس حساب سے میری چار بسوں کا کرایہ ایک روپے بیس پیسے بنتا تھا۔ لیکن مجھے گھر سے چونکہ صرف ایک روپیہ ملتا تھا اس لئے مجھے صبح صدر سے برنس روڈ تک آنے یا جانے میں کسی ایک طرف کا راستہ پیدل طے کرنا پڑتا تھا، اور میں ہی کیا ہمارے کالج کے کئی لڑکے یہی کرتے تھے۔
کئی دفعہ تو یہ ایک طرف کا پیدل راستہ اچانک ہو جانے والی بارش میں بھیگتے ہوئے بھی طے کرنا پڑتا تھا۔ ایک مرتبہ تو اسی طرح بارش میں بھیگتے کالج سے صدر جاتے ہوئے میں راستے بھر زمین کی طرف دیکھتا چلتا رہا کہ شاید کوئی چونی کا سکہ پڑا مل جائے اور وہ میں کرایہ دے کر بس میں بیٹھ کر صدر جاؤں، لیکن کہیں کوئی سکہ پڑا نظر نہ آیا اور میں پیدل چلتے چلتے صدر پہنچ گیا۔
ہم صدر دوا خانے پر بس سے اتر کر سینٹ پیٹرک چرچ کے سامنے والی سڑک شارع عراق پر ناک کی سیدھ میں پیدل چلتے ہوئے ہائی کورٹ کے احاطے میں داخل ہو جاتے اور اس میں سے گزر کر دوسری طرف سندھ سیکریٹریٹ کی سڑک پر سے ہوتے ہوئے آدھے گھنٹے میں کالج پہنچ جاتے۔ ہائی کورٹ کے اندر سے گزرنے اور سندھ سیکریٹریٹ کے درمیان سے نکلنے پر اس زمانے میں کوئی پابندی نہیں تھی۔اس طویل فاصلے کو طے کرنے کیلئے اور صبح آٹھ بجے کالج پہنچنے کیلئے مجھے صبح چھ بجے ہی گھر سے نکلنا پڑتا تھا، لیکن اکثر دیر بھی ہو جاتی تھی۔
اس وقت ڈی جے کالج کے پرنسپل پروفیسر سرور حسین زبیری صاحب ہوا کرتے تھے۔ زبیری صاحب علی گڑھ کے تعلیم یافتہ بڑی نستعلیق اور دبنگ شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ہمیں فزکس پڑھاتے تھے اور صبح آٹھ بجے سب سے پہلا پیریڈ انہی کا ہوتا تھا۔ میں اکثر ان کے پیریڈ میں لیٹ ہوتا تھا جس پر وہ سخت ناراض ہوتے تھے۔ انہوں نے کئی مرتبہ مجھے کالج سے نکالنے کا ڈراوا بھی دیا ، لیکن نکالا نہیں۔ انٹرمیڈیٹ کیلئے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی شائع کردہ ہماری فزکس کی کتاب کے کئی اہم ابواب زبیری صاحب کے ہی تحریر کردہ تھے۔
کتاب کے شروع میں تحریر کنندگان کے ناموں میں ان کانام بھی درج تھا، اس لئے ہم ان سے ویسے ہی بڑے مرعوب رہتے تھے۔ فزکس پڑھاتے ہوئے جب بھی وہ کسی ”آئیڈیل سسٹم“ کی مثال دیتے تو کہتے کہ آئیڈیل ہم صرف فرض ہی کر سکتے ہیں، کیونکہ دنیا میں کوئی چیز آئیڈیل نہیں ہوتی، ہر شئے میں کوئی نہ کوئی کمی ہوتی ہے۔ ان کا تکیہ کلام ہوتا تھا :
”آئیڈیل تو صرف جنت میں ہوتا ہے.“
ہم تو دو سال بعد کالج سے فارغ ہو کر یونیورسٹی چلے گئے۔ زبیری صاحب بھی کچھ عرصہ مزید پرنسپل رہ کر ریٹائر ہو گئے اور چند سال بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ وہ ہمارے آئیڈیل استاد تھے اور چونکہ ”آئیڈیل“ صرف جنت میں ہوتا ہے، اس لئے مجھے یقین ہے کہ وہ بھی جنت میں ہونگے۔
تبصرہ لکھیے