ہوم << تو سلامت رہے اے نگار وطن - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

تو سلامت رہے اے نگار وطن - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

1965 میں میری عمر تقریباً 9 سال ہوگی۔
ہم ڈہرکی ۔۔اس وقت ۔۔ضلع سکھر میں رہتے تھے۔۔اور میں شہر کے واحد ہائی سکول میں پڑھتا تھا۔۔یاد نہیں کس کلاس میں۔اندازہ ہے کہ پرائمری کی کوئی کلاس ہوگی۔ایک بڑے رومال میں کتابیں،سلیٹ ،سیاہی دوات ،اور zنب والا قلم ہولڈر صرف انگریزی لکھنے کے لیئے۔۔ لکھائی کا زیادہ کام سلیٹ پر ہی ہوتا۔۔رومال میں باندھ کر ،سر پر اٹھا کر اسکول جانا اور واپس آنا۔۔

6 ستمبر کو معمول کے مطابق کلاسیں ہوئیں،لیکن چھٹی شائد معمول سے کچھ پہلے اور یقیناً ایک بجے سے پہلے ہوگئی ۔اس زمانے میں پرائیویٹ سکول کا تصور تھا ،نہ ضرورت اور نہ معاشرے میں احساس کمتری و برتری کا کوئی انداز۔سب امراء و غرباء اور شرفاء۔۔اس زمانے میں شرفاء واقعی شریف ہوتے۔۔اور امراء نہ چھچھورے ہوتے،اور نہ غرباء کمینے ہوتے۔۔۔سب کے بچے ان ہی اسکولوں میں پڑھتے۔اساتذہ دل لگا کر پڑھاتے اور تھوڑے میں باعزت گذارا کرتے۔۔
چھٹی ہوئی اور وہ بھی خلاف معمول۔۔سب بچے اپنے بستے لے کر ہجوم کی شکل میں باہر نکلے تو چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ جنگ لگ گئی ہے۔۔بچوں کو کیا پتہ ایسی باتوں کا۔۔

پیدل ہی گھر جاتے ہوئے ایک پان کی دوکان پر ریڈیو سے ایک بجے صدر ایوب کی تقریر سنی۔۔مختصر مگر دبنگ اور حوصلہ مند تقریر۔۔آواز میں گرج اور رعب ۔بڑی بڑی اور بے اثر تقریروں کی بجائے انتہائی ولولہ انگیز اور مؤثر۔۔جس نے قوم کو کھڑا کردیا۔۔
ڈہرکی ہندوستان کی سرحد سے قریب ہے۔۔دریائی راستے سے ہندوستان کے علاقے میں جانے والے چلے جایا کرتے تھے۔سنا تھا،دیکھا نہیں ۔
اس شہر میں ہندوؤں کی بڑی تعداد بستی تھی،بلکہ کاروبار پر وہی غالب تھے۔۔مسلمانوں کا ان کے ساتھ سوائے اختلاف مذہب کے کوئی دوسرا معاشرتی جھگڑا نہیں تھا۔۔ایک دوسرے کے گھروں میں جانا۔۔میل جول رکھنا،خرید و فروخت۔تہواروں پر مٹھائی لینا دینا۔۔اس زمانے میں مٹھائیاں بھی گنی چنی تھیں۔۔جلیبی سب سے پہلے،کھوئے کے پیڑے،میسو۔برفی ۔۔بس یہی۔ یا نمک پارے۔۔مجھے یاد ہے جب میں نے پہلا روزہ رکھا تو،اباجی کے واقف ہندو حلوائی نے مجھے کھوئے والا پیڑا انعام میں دے کر افطار کروایا۔۔
ایک ہندو حکیم چھبیل داس اباجی کے بعض حکیمانہ۔۔طبیبانہ۔۔نسخوں کے حوالے سے معتقد تھے۔اور اکثر ہندو ان کے ساتھ سلام دعا رکھتے ،گھروں میں آناجانا بھی تھا۔۔۔
ہندوؤں کی وجہ سے جنگ کے معاملے پر کچھ ۔۔بہت ہلکی سی۔۔معاندت پیدا ہوگئی اور خفیف سا کھنچاؤ محسوس ہونے لگا،اگرچہ اس کا کوئی بڑا تو دور کی بات چھوٹا سا بھی مظاہرہ نہ ہوا،نہ معمول کے تعلقات متأثر ہوئے،نہ معاشرتی اقدار و روایات میں کوئی فرق آیا۔۔فطری امر تھا کہ ہندوؤں کی ہمدردانہ ترجیح ہندوستان کے ساتھ تھی۔

اس جنگ کے سولہ سترہ دنوں میں۔تین چار کام ہوئے
دن بھر جہازوں کا استقبال،ان کی گھن گرج سے جوش و جذبہ۔۔۔پیراشوٹ کی تلاش جس سے سنا تھا کہ جاسوس اترتے ہیں۔اگر کوئی جاسوس پکڑے جانے کی خبر پھیلے تو سارا شہر اسے دیکھنے کو دوڑ پڑے۔۔رات کو بلیک آؤٹ۔
بجلی تو تھی نہیں۔۔۔لالٹینوں کے شیشوں پر کاغذ یا کالا رنگ جہاں بہت شدید ضرورت ہو۔۔رات کے اندھیرے میں گولہ باری اور جہازوں کے بم پھینکے کے منور مناظر۔۔۔اور سب سے بڑا،اور واحد اجتماعی کام بچے بڑے،عورتیں۔ریڈیو پاکستان ۔۔کے گرد کھلی فضاؤں میں،اندھیروں میں،حملوں کے لائیو مناظر اور چیختی چنگھاڑتی آوازوں کے بے خوف ماحول میں ۔۔توانا،مضبوط اور محبوب اواز۔۔ریڈیو پاکستان کے نیوز کاسٹر ۔۔انور بہزاد ۔۔کی آواز۔۔دبنگ اور رعب دار لہجہ۔ اور پاکستانی مجاہدوں،غازیوں،اور شہیدوں کی خبریں۔شجاعت کی داستانیں۔۔ دشمن کا جہاز گرائے جانے کی خبر پر نعرے۔۔پاکستان زندہ باد اور سب سے مقبول اور خوش کن لفظ۔۔بھارتی سُورما۔۔کا لفظ سنتے ہی مبارکبادیں۔۔ظاہر ہے ان کی پسپائی،شکست اور ذلت کی خبر۔ سب سے دلکش و دلنشیں۔۔پاکستانی فوج کی کامیابیوں سے بھی زیادہ۔
ایک بار پتہ چلا کہ ڈہرکی ریلوے اسٹیشن پر ایک مال گاڑی پر بمباری ہوئی ہے۔۔شائد ریلوے پل کو نقصان پہنچا ۔۔ہم بچے بھی دیکھنے گئے۔۔دشمن کا بڑا ہدف ان دنوں ریلوے تنصیبات اور ٹریک و پلوں کو نشانہ بنانا تھا تاکہ کمک اور رسد کی نقل وحمل متأثر ہو۔۔وہیں ان کے جاسوس بھی پائے اور پکڑے جاتے۔
یہ مال گاڑی میری آنکھوں میں آج بھی ٹریک پر کھڑی موجود ہے۔۔
فوجیوں کے قافلوں کی پذیرائی۔۔ان کے لیئے تحائف جمع کرنا اور ان تک یا حکومت تک پہنچانے میں سب شریک اور سرگرم رہتے۔

ایک خاص بات
قوم سے اپیل کی گئی کہ ہر پاکستانی ہر روز ایک پیسہ ٹینک فنڈ میں لازما دے۔۔یاد نہیں ایک پیسہ یا ایک آنہ۔۔غالبا پیسہ۔۔کیونکہ روپیہ دینا تو شائد لوگوں کے لیئے ممکن نہ ہوتا۔۔ایک دن میں اس عطیے سے اتنی رقم جمع ہونے کا اندازہ تھا کہ۔ ایک ٹینک خریدا جاسکتا تھا۔۔اس کے لیئے دوکانوں پر ڈبے رکھ دیئے گئے۔۔باقیوں کا تو مجھے پتہ نہیں والد صاحب کے مطب پر ایسا ڈبہ ضرور رکھا گیا۔اور لوگ ایک پیسے سے زیادہ بھی ڈالتے،مگر مجھے دوسروں کا تو یاد نہیں اپنا پتہ ہے کہ اباجی سے پیسے لےکر میں روزانہ ضرور ڈالتا اور اپنی چھوٹی عمر اور کمزور و بے شعور وجود کے باوجود دفاع وطن میں اپنا۔ "پیسے بھر " کا کردار ادا کرتا۔۔
جنگ ختم ہونے کا تو یاد نہیں،البتہ فتح کی خوشی 1965 سےآج تک سرشار کیئے ہوئے ہے۔۔
اس جنگ کے حوالے سے عزیز بھٹی شہید،بی آر بی نہر،چونڈہ کی ٹینکوں والی جنگ،موناباؤ کا اسٹیشن،کھیم کرن کے الفاظ،نور جہاں کے ترانے۔۔ایہہ پتر ہٹاں تے۔۔جاگ رہا ہے سارا وطن۔۔ساتھیو مجاھدو۔۔اور دیگر ترانے۔۔میرے نغمے تمہارے لیئے وغیرہ۔۔سب شعور میں موجود بلکہ لازوال ہیں۔۔اور ان سب پر غالب و حاوی۔۔۔صدر ایوب کی تقریر۔۔۔مختصر اور جامع اور انقلاب انگیز۔۔۔
جانبداری کا تأثر قائم نہ ہو تو کہنے دیجیئے۔۔جماعت اسلامی کے لاکھوں ارکان ،کارکنان اور رضاکاروں کی قومی خدمات اور مرشد مودودی رح اور قائدین جماعت کی حب الوطنی سے بھرپور خدمات۔۔۔اگر تاریخ کے مجاور اور قوم کے محسن کش بھول نہ گئے ہوں اور انہیں ناگوار نہ گزرے۔۔تو۔۔
کیا عجیب اتفاق ہے کہ 6 مئی 25 کی رات ہندوستان کے پہلے حملے میں بھی مادر وطن پر قربانی کا پہلا نذرانہ بھی ان ہی نے پیش کیا

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم سابق چیئرمین تعلیمی بورڈ فیصل آباد ہیں۔ ڈائریکٹر کالجز، گورنمنٹ کالج سمن آباد کے ریٹائرڈ پرنسل اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے سابق چیئرمین شعبہ عربی ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے 30 سال کا تعلق ہے۔ بطور مقرر قومی پروگرام ۔۔حی علی الفلاح۔ سلسلہ "قر ان حکیم اور ہماری زندگی۔ نشری تقاریر پر مشتمل چھ کتب ''قول حسن، قول سدید، قول مبین، قول مجید، قول کریم اور قول حکیم شائع ہو چکی ہیں۔ دو کتب قول فصل اور قول کریم زیر ترتیب ہیں۔ ترکی جو میں نے دیکھا کے نام سے سفرنامہ شائع ہو چکا ہے۔ خود نوشت ''یادوں کا دریچہ'' زیرقلم ہے

Click here to post a comment