پروفیسر خورشید احمد صاحب کی شخصیت کے بارے کچھ لکھنے بیٹھوں تو تحریر مکمل نہیں ہو پائے گی اوراق کم پڑ جائیں گے. انھیں ایک کامیاب سیاستدان لکھوں، ایک اعلی پائے کا مصنف لکھوں، محقق لکھوں، ماہر معیشت لکھوں، ماہر تعلیم لکھوں، ایک بہترین پالیسی ساز اور منصوبہ ساز لکھوں، صاف گو سادہ حساس ہمدرد انسانیت کہوں۔ کوئی ایک خوبی ہو تو اسے ان کی شخصیت کا عنوان بناؤں۔ ان کی شخصیت کو اگر ایک ماہر معیشت کا عنوان دیا جائے تو ترجمان القران 2022 کا ماہ مارچ کا شمارہ میرے سامنے ہے۔ مرحوم کے ہاتھوں لکھے ایک مضمون کا عنوان ہے' معاشی ترقی کی حکمت عملی مطلوب بنیادیں' ایک بہترین مضمون، لفظ لفظ پڑھنے کے قابل، نہ صرف پڑھنے کے قابل بلکہ نافذ العمل کیا جائے تو بہترین نتائج حاصل ہوں. پورا مضمون یہاں نقل کرنا ممکن نہیں، اس مضمون کا آخری حصہ جو مصنف کی طرف سے پیش کردہ سفارشات کی شکل میں ہے قارئین کے لیے پیش کرتی ہوں ۔
''یہاں پیش کی گئی سفارشات کی روشنی میں ہم اس بات کا مشورہ بھی دیں گے کہ نئے مثالیے میں درج ذیل باتوں کی طرف خاص طور پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔۔
1۔۔قدرت نے انسان اور اس کے ماحول کو جو وسائل فراہم کیے ہیں ان کی بہترین نشوونما کے ساتھ انہیں استعمال کیا جائے
2۔۔ان کی اس طرح سے منصفانہ تقسیم اور استعمال ہو کہ تمام انسانی تعلقات کا فروغ اور تنظیم عدل اور احسان کی بنا پر ہو
3۔۔ متوازن اور پائیدار ترقی وسائل کے ضیاع اور غلط استعمال سے اجتناب ظلم اور انسانوں کے استحصال کا خاتمہ کیا جائے
4۔۔ مالی اور قیمتوں میں استحکام کے ذریعے افراد کے درمیان علاقوں کے درمیان شعبہ جات کے درمیان اور قومی سطح پر مساوات کا حصول ممکن بنایا جائے
5۔۔ خود انحصاری کے اعلی مقام کا حصول بشمول امت کی اجتماعی خود انحصاری حقیقی تکثیریت پر مبنی ایک عالمی نظام کا ویژن جس کے نتیجے میں تمام اقوام اور ثقافتوں کا مل جل کر رہنا ممکن ہو اور وہ ایک منصفانہ عالمی نظام میں باہمی مقابلے اور تعاون کے ساتھ رہ سکے ترقیاتی حکمت عملی کو اخلاقی روحانی اور مادی پہلوؤں پر مشتمل ہونا چاہیے
6۔۔ترقیاتی اہداف-- پیداوار میں اضافے کے لیے جدت و ندرت کے ساتھ ساتھ معاملہ فہمی سے کوشش اور اس بات کو پیش نظر رکھنا کہ اس سے تمام لوگوں کی ضروریات کی فراہمی اور بہتری یقینی ہو اور ایک مضبوط ترقی پذیر اور نشوونما پانے والی معیشت کا قیام عمل میں آئے 7۔۔دنیا میں اچھی زندگی کا حصول آخرت میں ایک کامیاب زندگی کا وسیلہ ہونا چاہیے۔ 8۔۔محرک--- اخلاقی محرکات مادی جزا و سزا کے ساتھ۔ ذاتی اصلاح
9۔۔۔ اخلاقی فلٹر اور سماجی فلٹر کا نظام جو صرف پیداوار اور فیصلہ سازی کے تمام مراحل پر مارکیٹ کے نظام کو درست رکھنے کے لیے ایک موثر کردار ادا کرے 10۔۔فرد کی مرکزیت اور فلاح و بہبود کی حامل سوچ کار فرما ہونا پیداوار اور صرف کو مفید اور ثمر آور بنانا چاہیے اجتماعی معاملات کا نظام ماحول دوست ہونا چاہیے
11۔۔۔جائیداد بطور ٹرسٹ-- نجی ملکیت کا حق اور منافع کا حصول سماجی اخلاقی ذمہ داری کے ساتھ یہ ایک انقلابی تصور ہے جو سرمایہ کاری کو سرمایہ پرستی سے محفوظ رکھتا ہے۔
12۔۔۔ مالیاتی ڈھانچے کی تشکیل نو میں سود کا یقینی خاتمہ اور ارتکاز دولت میں کمی
13۔۔۔انصاف کی فراہمی بشمول منصفانہ تنخواہ آمدنی اور شراکت رقم کی منتقلی اور مبنی بر عدل وراثت کی تقسیم
14۔۔۔حکومت کا مثبت اور بامقصد کردار
15۔۔ معیشت اور اس سے متعلق امور کی ازسر نو تشکیل محض مالیاتی سیکٹر میں اصلاحات نہ ہوں 16۔۔۔پاکستان کی خود انحصاری اور بحیثیت مجموعی امت کی خود انحصاری معاشی تعاون اور عالمگیریت کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے یکجہتی کا اظہار اور اس کے لیے مواقع کو استعمال کرنا۔۔۔۔''
بات کی جائے پارلیمانی امور بارے ان کے فہم اور ضوابط پر جو ان کی گرفت تھی تو شاید وہ اس معاملے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے.
اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ پیش ہے ایک بار چوہدری شجاعت حسین نے بطور وزیر داخلہ ایوان میں کوئی بل پیش کیا. پروفیسر خورشید صاحب نے ایک تکنیکی اعتراض کر دیا کہ یہ قواعد کے مطابق پیش نہیں کیا گیا. چوہدری شجاعت حسین صاحب کو وہ بل دوبارہ پیش کرنا پڑا . پروفیسر صاحب نے کہا اس بار بھی قواعد کے مطابق پیش نہیں کیا گیا. چوہدری صاحب نے تیسری بار کوشش کی اور پروفیسر صاحب نے اس پر بھی یہی اعتراض کر دیا. چوہدری شجاعت حسین کے پاس اب کوئی راستہ نہیں بچا تھا. انھیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب وہ کیا کریں. وہ چوتھی بار اٹھے اور مسکرا کر کہا جناب چیئرمین سینٹ میں بل کو ایک بار پھر پیش کرتا ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ اس مرتبہ یوں سمجھا جائے کہ یہ بل اسی طرح پیش کیا جا رہا ہے جیسے پروفیسر صاحب چاہتے ہیں. سارے ایوان میں قہقہہ پھوٹ پڑا اور چیئرمین سینٹ نے کہا کہ یہ بل اب چونکہ اسی طرح پیش کیا گیا جیسے پروفیسر صاحب چاہتے ہیں، اس لیے اب یہ بالکل درست ہے۔
پروفیسر خورشید احمد مرحوم کو علم و تحقیق کے میدان کے شہسوار کا لقب دیا جائے تو اس وقت میرے سامنے ان کا ایک مضمون 'مسلم دنیا کے لیے علمی و فکری چیلنج' ہے. یہ مضمون بھی پڑھنے کے لائق ہے. اس مضمون کے آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ ضرورت ہے کہ نئی نسل میں اعتماد بحال کرنے کے لیے درج ذیل ناگزیر اقدامات اٹھائے جائیں۔ یہاں ان کے سفارش کردہ اقدامات کا خلاصہ پیش کرنا چاہوں گی۔
1 ۔۔۔۔اسلام کے فلسفہ زندگی اور اس کے نظام حیات کا تحقیقی مطالعہ کیا جائے اور اس کی تعلیمات کو ایمانی اور عقلی دلائل کے ساتھ آج کی زبان میں پیش کیا جائے 2۔۔مغربی علوم و فنون اور نظام تہذیب و تمدن کا تنقیدی جائزہ لیا جائے آج بہت بڑی ضرورت ہے کہ غلامانہ ذہنیت کو ترک کر کے مغربی افکار کا بے لاگ مطالعہ کیا جائے
3۔۔۔ تمام علوم کو دین اسلام کی دی ہوئی اقدار پر مرتب اور مدون کیا جائے اور صحیح سمت میں ان کو ترقی دی جائے
4۔۔۔ آج کی دنیا میں خصوصیت سے معیشت معاشرت سیاست انتظامیات اور قانون کے میدانوں میں جو نئی پیچیدگیاں رونما ہوئی ہیں ان کا مطالعہ بیدار ذہن کے ساتھ اور بالغ نظری کے ساتھ کیا جائے پھر پوری وضاحت کے ساتھ بتایا جائے کہ اسلام کے اصولوں کو زمانہ ء حال کے مسائل و معاملات پر منطبق کر کے ایک صالح اور ترقی پذیر تمدن کی تعمیر کس طرح ہو سکتی ہے اور اس میں ایک ایک شعبہء زندگی کا عملی نقشہ کیا ہوگا۔
قارئین! فاضل مصنف نے اگے چل کر تحقیق اور تربیتی اداروں کے کرنے کے کام کاموں کا تذکرہ کیا ہے اور ان کے لیے پروگرام تجویز کیا ہے ان نکات کا خلاصہ یہ ہے۔
1۔۔۔ اسلام پر علمی و تحقیقی کام کرنا الحاد دہریت اور تشکیک کے پھیلتے ہوئے سیلاب کا علمی سطح پر جواب دینا اسلام کے تصور توحید کو پوری شان سے بیان کرنا
2۔۔۔ اسلام کی آفاقی دعوت کو مختلف ذہنی معیارات سامنے رکھ کر دنیا کی مختلف زبانوں میں پیش کرنا
3۔۔۔ دور حاضر کے مسائل پر خصوصی تنقیدی مطالعہ کرنا
4۔۔۔۔ مسلمانوں کی نئی تعلیمی ضروریات کو متعین کرنا سٹریٹجک اہداف طے کرنا
5۔۔ اسلام کے خاندانی نظام کو تحقیق اور مطالعے کا موضوع بنا کر مضبوط دفاع کرنا اور دنیا کے سامنے رول ماڈل کے طور پر پیش کرنا
6۔۔ غیر مسلم اقلیتوں سے مسلمانوں کے سلوک اور غیر مسلم اکثریتی ممالک میں مسلم اقلیتوں کے جملہ دینی اور تہذیبی امور کا فکر مندی سے مطالعہ کرنا
7۔۔۔نوجوانوں کی ذہنی اور علمی تربیت و رہنمائی کے لیے مناسب انتظامات کرنا باصلاحیت نوجوانوں کی تربیت اور تحقیق کی صلاحیتوں کی تعمیر کے لیے فنڈز مہیا کرنا (یاد رہے نوجوانوں میں بھی خاص طور پر مسلم خواتین دشمن کا خصوصی ہدف ہیں)
8۔۔۔ مذاکروں مباحثوں اور مطالعوں کے حلقوں میں اسلامی افکار و مسائل پر غور و بحث کی صحت مندانہ روایات قائم کرنا جملہ دینی اور تہذیبی امور کا فکر مندی سے مطالعہ کرنا
اور قارئین اب ذرا دم سادھ کے کہ پروفیسر صاحب مرحوم کی شخصیت کے عملی پہلووں اور ان کو حاصل ہونے والے اعزازات کا مختصرا تذکرہ ہے
^^ مطالعے کا ان کو بچپن ہی سے بے حد شوق تھا بچپن ہی میں انگریزی اور اردو کے بڑے ادیبوں کی کتب پڑھ چکے تھے
^^ گورنمنٹ کالج لاہور سے معاشیات بزنس اور قانون کی تعلیم حاصل کی ۔ ^^اعلی اعزاز کے ساتھ کراچی یونیورسٹی سے معاشیات اور اسلامیات میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔۔۔
^^ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلی منتخب ہوئے۔ ماہنامہ ۔،اسٹوڈنٹس وائس، کا اجراء کیا جس کی سرکولیشن میں بہت جلد غیر معمولی اضافہ ہوا
^^ تعلیم سے فراغت کے بعد کراچی یونیورسٹی میں پڑھایا
^^ لیسٹر یونیورسٹی برطانیہ اور جامعہ ملک عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ اور بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد اور اسلامی ترقیاتی بینک جدہ میں بھی پڑھاتے رہے
^^مختلف بین الاقوامی اداروں کے بورڈ میں شامل رہے
^^ منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کے مشکل کام سر انجام دیے
^^اسلامک ریسرچ اکیڈمی لاہور اور کراچی کے نائب صدر رہے
^^سوڈان عمان نائجیریا ملیشیا سعودی عرب جرمنی برطانیہ امریکہ کے مختلف اداروں میں تجارتی اقتصادیات اسلامی معاشیات اور قوانین سازی اور اسلامی نظام بینکاری پر ہونے والی تحقیقات میں شریک رہے اور مختلف اداروں کی سربراہی کے فرائض انجام دیے
^^ لیسٹر میں مسلمانوں کے لیے وسیع رقبے پر واقع اسلامک فاؤنڈیشن کا قیام خرم مراد مرحوم کے ساتھ مل کر کیا جو آج اسلامی تحقیق و تربیت کا بہترین ادارہ ہے
^^پاکستان کے دیہی علاقوں اور غریب آبادیوں کے لیے درد دل رکھنے والوں کی مدد سے تعلیمی منصوبوں کا خاکہ تیار کیا۔۔
ریڈ فاؤنڈیشن، غزالی ایجوکیشن، حرا ایجوکیشن، گرین کریسنٹ میں آج لاکھوں طلبہ تعلیم پا رہے ہیں
^^یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز لاہور اور بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام اباد کے قیام کے ابتدائی خاکے آپ ہی نے تیار کیے
^^حکومت پاکستان اور مختلف اداروں کی رہنمائی کے لیے ایک بے مثال ادارہ انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد قائم کیا جو کہ اسلامی دنیا میں سٹریٹیجک سٹڈیز اور ریجنل ریسرچ کی نوعیت کا واحد ادارہ ہے
^^ سینیٹر منتخب ہوئے اور دس سال تک مختلف قومی اداروں اور کمیٹیوں میں پاکستان کے نظریاتی تشخص کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کی
^^ پلاننگ کمیشن کے نائب چیئرمین اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی بھی رہے ^^تحریر و تالیف کا کام جاری رکھا غیر سودی معیشت جدید اقتصادیات بین المذاہب تعلقات اسلامی قانون سازی سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور دیگر موضوعات پر اردو اور انگریزی میں 120 کتب لکھیں ^^طویل عرصہ ترجمان القران کی ادارت اعلی کا فریضہ انجام دیا
اعزازات ۔۔۔۔
سچ تو یہ ہے کہ پہاڑی کے چراغ، معاشرے کامکھن، فخر امت، شان پاکستان ، ایسے افراد کی بے لوث خدمات کا صلہ صرف رب تعالی کے ہاں محفوظ ہے۔تاہم دنیا والے بھی اعتراف کیے بنا نہیں رہتے۔پروفیسر خورشید احمد رحمہ اللہ کو ملنے والے چند اعزازات یہ ہیں۔۔۔
۔۔۔۔1990 میں اسلامی دنیا کے سب سے بڑے ایوارڈ شاہ فیصل ایوارڈ سے آپ کو نوازا گیا
۔۔۔۔اسلامی ترقیاتی بینک کے اعلی ترین ایوارڈ سے نوازا گیا
۔۔۔۔ چار بین الاقوامی یونیورسٹیز نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگرییاں آپ کے نام کیں۔۔۔
۔۔۔2011میں نشان امتیاز ملا
۔۔۔امریکن فنانس ہاوس پرائز ان کے نام ہوا تھا۔
ایسی نابغہ روزگار شخصیت جب دنیا چھوڑ جاتی ہے تو اداس فضاوں کا ایک ہی نوحہ ہوتا ہے
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تبصرہ لکھیے