ہوم << کتابوں سے دوستی کا عزم کرلیں - سعید مسعود ساوند

کتابوں سے دوستی کا عزم کرلیں - سعید مسعود ساوند

آج سے تقریباً سولہ سال قبل، جب میری عمر بمشکل آٹھ سال ہی ہوگی، اپنے گھر کے اکابر کو عموماً مطالعے میں مستغرق دیکھا کرتا تھا۔ "داستانِ ایمان فروشوں کی" کتاب حضرت عَمِّ محترم کی ڈیسک کی زینت ہوتی تھی، تو "عبقات از ڈاکٹر خالد محمود پی ایچ ڈی" والد صاحب کے ہاتھوں میں دکھائی دیتی۔

ان کو دیکھ کر میری بھی خواہش ہوتی تھی کہ میں بھی کوئی نہ کوئی کتاب پڑھوں، لیکن بڑوں کا ایک ڈر سا تھا کہیں کتاب نہ پھٹ جائے اور میری کان مروڑی کا سلسلہ شروع ہو جائے۔ چونکہ اس زمانے میں بندہ اس بات میں بھی مشہور تھا کہ "یسرنا القرآن قاعدہ" میں جو بھی سبق یاد نہ ہوتا، اس سبق کا کاغذ پھاڑ لیتا، اگلے دن آکر کہتا: "استاد جی! وہ سبق تو غائب ہوگیا!" اسی وجہ سے بھی بندے کو کتابوں کی پہنچ سے دور رکھا جاتا تھا۔

بہرحال، پھر بھی چھپ کر "بچوں کا اسلام"، "پھول", "نونہال" جیسے رسائل لے کر غائب ہوجاتا اور چھپ چھپا کر پڑھتا۔جب سکھر "گول مسجد" پڑھنے آیا تو ساتھ میں "بچوں کا اسلام"، "خواتین کا اسلام"، رسائل کے بندل چھپا کر ساتھ لایا، اور انھیں پڑھتا رہتا۔ ہر جمعرات مجھے چھٹی کی کم، ان رسائل پڑھنے کی خوشی زیادہ ہوتی۔مدرسے میں "روزنامہ اسلام" اخبار آتی۔ ہم بچوں کا اخبار پڑھنا چونکہ ممنوع تھا، تو میں نمازوں کے اوقات میں، جب سب مسجد جاتے، دفتر جاکر اخبار کا بھی نشہ پورا کر لیتا۔ یوں اس زمانے میں پورے مدرسے کا پڑھا لکھا بچہ شمار ہونے لگا۔ اب حقیقت میں کتنا پڑھا لکھا تھا، اس کا اندازہ تو مجھے اور میرے خدا کو تھا۔

مجھے کتابیں جمع کرنے کا بھی کافی شوق تھا، اس لیے "ابو جی" کی کتابیں ترتیب سے رکھ کر بزعمِ خود مالک بن جاتا۔والد صاحب کو میری اس عادت کا اندازہ تو ہوگا ہی، شاید اسی وجہ سے ابو جی نے نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد میں اپنی رجسٹریشن کروائی، اور وہاں سے آدھی قیمت پر کتابیں لاتے۔ وہ کتابیں اکثر میرے ہی کام کی ہوتیں۔ میں بھی موقع ضائع کیے بغیر پڑھ لیتا۔اس زمانے میں "خدا اور محبت", "ایمان، امید اور محبت" کے عنوان سے دو ناول جو مجھے بہت پسند تھے، گھر والوں کی منع کے باوجود پڑھے۔ بچہ تھا، اندازہ کچھ تھا نہیں، چس لگی ہوئی تھی پڑھنے کی، سو پڑھ لیا۔

یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا، اور چل رہا ہے۔ اب بھی الحمد للّٰہ ایک آدھ گھنٹہ کوئی نہ کوئی کتاب ہاتھ آجاتی ہے، اور یہ نشہ پورا کر لیتا ہوں۔اس موبائل کے پرفتن دور میں بھی اگر کوئی کتاب سے دوستی لگا لے، وہ کبھی بھی گھاٹے میں نہیں جائے گا۔ اُسے کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور ہوگا۔ یہ اہلِ علم کا جانا مانا تجربہ ہے۔مجھے تو الحمد للّٰہ ثم الحمد للّٰہ کتابوں سے دوستی کا غیر معمولی فائدہ ہوا۔اب کے زمانے میں بھی ہم ایک آدھ گھنٹہ ہی سہی، کسی اچھے سے مصنف کی کتاب کو دیں تو ہمیں کافی فائدہ ہوگا۔خصوصاً اگر ہم کچھ لکھنے کا شوق رکھتے ہیں، تب ہمارے لیے کتاب کا مطالعہ ازحد ضروری ہے، اس کے بغیر ہمارے قلم میں جان ہی نہیں آئے گی۔

آئیے! کتابوں سے دوستی کا عزم کرلیں۔ اگر دوستی ہے تو اس کی تجدید کرلیں، اگر دوستی میں بے وفائی کی ہے، تو اب دوبارہ ان سے وفا کا عزم کرلیں۔۔۔

Comments

Avatar photo

سعید مسعود ساوند

سعید مسعود ساوند کا تعلق کندھ کوٹ سے ہے۔ دارالعلوم کراچی کے فاضل ہیں۔ سندھی، اردو اور عربی زبان میں لکھتے ہیں۔ روزنامہ اسلام، ماہنامہ شریعت اور ہدایۃ الاخوان کے مستقل لکھاری ہیں۔ علمی محفلوں کا انعقاد، فکری نشستوں کی میزبانی، اور دینی و علمی مجالس کا اہتمام معمول ہے۔ دین کی سچائی، علم کی روشنی، اور فکر کی تازگی کرنا مشن ہے۔

Click here to post a comment