ہوم << درد اٹھتا ہے تو جاں میں جاں آتی ہے - معوذ اسد صدیقی

درد اٹھتا ہے تو جاں میں جاں آتی ہے - معوذ اسد صدیقی

حیف! اس وقت میں احساس کے قابل بھی نہ رہوں
درد اٹھتا ہے تو جاں میں جاں آتی ہے

مسلمانوں کی ایک عجیب مگر خوبصورت خصوصیت یہ ہے کہ چاہے وہ خود کتنے ہی غموں اور مصیبتوں میں مبتلا ہوں، جب امتِ مسلمہ پر کوئی بڑا مسئلہ آتا ہے، تو وہ اپنے ذاتی دکھ درد کو پسِ پشت ڈال کر امت کے مسئلے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ ایسا کئی بار دیکھا گیا ہے—چاہے افغانستان کی جنگ ہو، قرآن پاک کی بے حرمتی کا واقعہ ہو، فلسطین کی جدوجہد ہو یا افریقہ کے وہ ممالک جہاں روٹی کے لالے پڑے ہیں—مسلمان دنیا بھر میں سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔

اسی طرح پاکستان—جس پر آپ جتنی چاہیں تنقید کریں—امتِ مسلمہ کے ہر اہم مسئلے پر ہمیشہ سب سے آگے نظر آتا ہے۔ کبھی کبھار جذبات میں غلطی بھی ہو جاتی ہے، اور کبھی باتیں درست بھی ہوتی ہیں، لیکن یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو لاکھ کوششوں کے باوجود ٹوٹا نہیں، اور شاید یہی وہ احساسِ وابستگی ہے جو آج کی خود غرض دنیا میں بھی مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھتا ہے۔

فلسطین کا مسئلہ تو گزشتہ ستر سال سے ایسا درد بن چکا ہے، جو پوری امت کے دلوں میں دھڑکتا ہے۔ جب بھی وہاں ظلم بڑھتا ہے، دنیا بھر کے لوگ چاہے وہ امریکہ کی جامعات ہوں یا کراچی کی سڑکیں، سب باہر نکل آتے ہیں۔ یہ مسئلہ مسلمانوں کو جوڑ دیتا ہے۔ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق آواز بلند کرتا ہے، کوئی عملی مدد کرنا چاہتا ہے، اور اگر کچھ نہ بھی کر سکے، تو کم از کم اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے کہتا ہے کہ ”میں خاموش نہیں رہا، میں بول اٹھا تھا۔“

یقین کریں، میں بہت سے ایسے فلسطینیوں کو جانتا ہوں جو دنیا بھر میں ہونے والے مظاہروں کو دل کی گہرائی سے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے لیے یہ صرف احتجاج نہیں، بلکہ ایک پیغام ہوتا ہے کہ ”تم تنہا نہیں ہو۔“

حال ہی میں 7 اکتوبر 2023 کے بعد جب ایک بار پھر اسرائیلی جارحیت میں شدت آئی، تو دنیا بھر میں احتجاج کی ایک نئی لہر اٹھی۔ امریکہ کی جامعات نے تاریخ رقم کی، پاکستان میں بھی مسلسل مظاہرے ہوتے رہے۔ جنگ بندی کے بعد وقتی سکون آیا، لیکن جب دوبارہ ظلم کا بازار گرم ہوا، تو دنیا بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے—واشنگٹن، لندن، کراچی، اسلام آباد، ہر جگہ عوام سڑکوں پر آ گئی۔

اسلام آباد اور کراچی کے مظاہرے خاص طور پر نمایاں تھے۔ ان میں رنگ، نسل، فرقہ اور سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر لوگ شریک ہوئے۔ اسلام آباد میں ہونے والے مظاہرے کو عرب میڈیا نے بھرپور کوریج دی۔ یہاں تک کہ امریکہ میں مقیم عرب بھائیوں نے بھی فخر سے ان مظاہروں کی پوسٹس شیئر کیں، اور مشہور مسلم آواز عمر سلیمان نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام کے جذبے کی تعریف کی۔

لیکن افسوس، صرف ایک گروہ ایسا تھا جو اس جذبے کو برداشت نہ کر سکا۔ حیرت انگیز طور پر وہی لوگ جو خود کو امت کا ترجمان کہتے ہیں، اسی امت کے حق میں ہونے والے مظاہروں پر سوال اٹھانے لگے۔

پہلا سوال: اس وقت مظاہروں کی کیا ضرورت ہے؟
کیا انھیں یہ خبر نہیں کہ ظلم کی نئی لہر اٹھ چکی ہے؟ کیا انھیں احساس نہیں کہ مظلوموں کے لیے اخلاقی حمایت بھی ایک بڑی مدد ہوتی ہے؟
پھر وہی پرانا راگ: یہ سب اسٹیبلشمنٹ کروا رہی ہے!
یعنی ایک طرف اگر کوئی خاموش رہے تو قصوروار، آواز اٹھائے تو ایجنٹ!

اسلام آباد کے مظاہرے میں جب جگہ کی تبدیلی کا مسئلہ آیا، تو منتظمین نے انتہائی دانائی سے ماحول خراب ہونے سے بچانے کے لیے جگہ بدل لی—تاکہ یہ مظاہرہ، جس پر پوری قوم متفق تھی، کسی تنازع میں نہ بدل جائے۔ نتیجہ؟ اسلام آباد نے ایسا عظیم مظاہرہ دیکھا جو اس کی تاریخ میں کم ہی دیکھنے کو ملا۔

پھر سوشل میڈیا پر نظر ڈالی، تو حیرت ہوئی کہ انڈیا کا میڈیا اسے ”حماس کی حمایت“ قرار دے کر صفِ ماتم بچھا چکا تھا۔ مگر دوسری طرف ہمارے کچھ انصافی بھائی بھی شدید تکلیف میں مبتلا دکھائی دیے—ان کے پوسٹس میں طعنے، الزام، طنز سب کچھ موجود تھا۔

نہیں معلوم ان کی تکلیف کی اصل وجہ کیا تھی—لیکن اتنا ضرور ہے کہ جب امت ایک ہو کر مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہو، تو اختلاف برائے اختلاف کی سیاست اور الزام تراشی کی زبان خاموش رہنی چاہیے۔

مجھے نہیں معلوم کہ یہ سب کچھ کیوں کیا جا رہا ہے، یا کروایا جا رہا ہے، یا واقعی کچھ لوگ اس حد تک نفسیاتی طور پر گر چکے ہیں کہ نہ خود کچھ کر سکتے ہیں، نہ کسی اور کے اچھے اقدام کو برداشت کر سکتے ہیں۔ ہر بات کو فوراً اسٹیبلشمنٹ سے جوڑ دینا یا اسے کسی حکم کا نتیجہ قرار دینا، محض ایک فرار کی شکل ہے۔

شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ، جیسا کہ تحریکِ انصاف کے حامی اکثر دعویٰ کرتے ہیں اور خود عارف علوی صاحب نے امریکہ میں کہا، کہ ہمارے ساتھ 90 فیصد عوام ہیں. لیکن اتنی بھرپور عوامی حمایت کے باوجود اگر کوئی نتیجہ حاصل نہ ہو سکے، تو انسان یا تو مایوس ہوتا ہے، یا پھر دوسروں پر الزامات ڈال کر اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اسی تناظر میں، جب اسلام آباد کے حالیہ فلسطینی مظاہرے میں جگہ کی تبدیلی کا فیصلہ ہوا تو اس پر بھی اعتراض اٹھا دیے گئے، گو کہ ایسے فیصلے تو تحریک انصاف نے بھی متعدد بار خود کیے—حتیٰ کہ کئی بار احتجاج منسوخ بھی کیے۔ میرے نزدیک وہ بھی درست فیصلے تھے، کیونکہ حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکمت عملی بدلنا عقل مندی ہے۔ لیکن اگر یہی کام امتِ مسلمہ کے ایک بڑے مقصد کے لیے کیا جائے، تو اس پر شک و شبہ کرنا، دوغلا پن نہیں تو اور کیا ہے؟

اس پورے معاملے میں اگر غور کریں تو افسوسناک طور پر تحریک انصاف کے اکثر حامیوں کی جانب سے فلسطین کے مسئلے پر نہ کبھی بھرپور آواز بلند کی گئی، نہ کھل کر مذمت کی گئی۔ اس خاموشی کی وجوہات سمجھ سے باہر ہیں۔ اس وقت، جب پوری دنیا فلسطین کے حق میں بول رہی تھی، غیر مسلم انسانی حقوق کے علمبردار بھی اسرائیل نواز سیاستدانوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے—یہی وہ وقت تھا جب تحریک انصاف کی امریکہ میں موجود تمام قوتیں انھی اسرائیل نواز ارکانِ کانگریس سے عمران خان کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

یہ وہی لوگ تھے جو فلسطین میں بچوں کی شہادت پر خوشی کا اظہار کرتے تھے، جن کی زبانوں سے نکلنے والے الفاظ تھے: انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہیے۔ اور دوسری ہی سانس میں وہی لوگ عمران خان کے لیے اشکبار پریس کانفرنسز بھی کر رہے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی امریکہ، جس پر انصافی بھائی بارہا حکومت گرانے کا الزام لگاتے رہے، اسی کے ارکانِ کانگریس نے پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں تحریک انصاف کے حق میں خط لکھے، قراردادیں پیش کیں۔ اور ان میں شامل وہی مسلم اور پاکستان دشمن شخصیات بھی تھیں، جو ہمیشہ پاکستان کے مفادات کے خلاف بولتی رہی ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی تحریک انصاف کے بعض حامی، کسی ڈر یا مصلحت کے تحت، ایسے تمام عوامی مظاہروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، تاکہ کہیں وہ اپنے سیاسی بیانیے کے برخلاف نہ چلے جائیں۔

لیکن میرا حسنِ ظن کہتا ہے کہ شاید یہ محض غلط فہمی ہے۔ کیونکہ میں تحریک انصاف کارکنان اور لیڈر شپ کی الثریت دل سے فلسطینیوں سے محبت کرتے ہیں، اور اپنے وطن سے بھی وفاداری رکھتے ہیں۔ میری دل سے دعا ہے کہ وہ اسٹلشمنٹ کے خلاف اپنی جدو جہد میں کامیاب ہوں، اور یہ کامیابی صرف کسی جماعت کی نہیں، بلکہ پاکستان، جمہوریت، اور حق و سچ کی فتح ہو۔

Comments

Avatar photo

معوذ اسد صدیقی

معوذ اسد صدیقی 25 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ ہم نیوز امریکہ کے بیوروچیف ہیں۔ ان کا شمار امریکہ میں پاکستانی صحافت کے چند معروف صحافیوں میں ہوتا ہے۔ کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد مختلف اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ ان کا تجزیہ ہمیشہ غیرجانبداری کا رنگ لیے ہوتا ہے۔ امریکہ کی پاکستانی کمیونٹی میں ان کی پہچان خدمتِ خلق ہے۔

Click here to post a comment