غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔
سب سے پہلے تو یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ استطاعت کا ہونا ’شرط‘ ہے؛ لیکن فرضیت کی شروط کی بات بعد میں آتی ہے؛ پہلے فرضیت کے ’سبب‘ کی باری آتی ہے؛ سبب ہو، تو اس کے بعد سوال اٹھتا ہے کہ تمام شروط پوری ہیں یا نہیں؛ اگر کوئی شرط پوری نہیں ہے، تو پھر سوال ہوگا کہ شریعت نے اس کا ’بدل‘ قبول کیا ہے یا نہیں؛ اور اگر قبول کیا ہے، تو وہ بدل اس وقت پایا جاتا ہے یا نہیں؛ اگر نہیں، تو اگلا سوال ہوگا کہ اس شرط، یا اس بدل، کا پورا کرنا شرعاً مطلوب ہے، یا اس کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے؛ پھر اگر سبب بھی ہے، تمام شروط بھی پوری ہیں، یا بعض پوری نہیں، تو ان کا بدل پایا جاتا ہے جو شرعاً قابلِ قبول بھی ہے، تو اگلا سوال ہوگا کہ کوئی ایسی بات تو نہیں پائی جاتی جسے شریعت اس فرضیت کی راہ میں ’مانع‘ یعنی رکاوٹ قرار دیا ہو؛ اگر ایسا کوئی مانع پایا جاتا ہے، تو اگلا سوال ہوگا کہ کیا اس مانع کو عذر مان کر آرام سے بیٹھ جائیں گے، یا اس مانع کو دور کرنا شرعاً مطلوب ہوگا؟
سبب، شرط اور مانع کے تصورات کے متعلق بنیادی شرعی اصولوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ جب شریعت کسی امر کو کسی دوسرے امر کےلیے سبب قرار دے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پہلے امر کی عدم موجودگی میں دوسرا امر بھی موجود نہیں ہوگا؛ لیکن اگر پہلا امر موجود ہے، تو دوسرا امر بھی موجود ہوگا، اگر اس کےلیے مقررہ شرائط/ان کے بدل بھی موجود ہوں، اور کوئی مانع نہ پایا جائے۔
مثلاً نمازِ ظہر کی فرضیت کےلیے ’دلوک الشمس‘ سبب ہے؛ چنانچہ زوال سے قبل نمازِ ظہر فرض نہیں ہوتی؛ لیکن زوال کے بعد دلوک الشمس ہوا، تو نمازِ ظہر کی فرضیت ثابت ہوگئی؛ اب اس فرض کی ادائی کےلیے شروط (مثلاً جگہ کی صفائی، کپڑوں کی صفائی، بدن کی صفائی وغیرہ) پوری کرنی ہوں گی؛ کوئی امر مانع ہو، جیسے کپڑوں کی ناپاکی، تو اسے دور کرنا لازم ہوگا۔
اب غامدی صاحب کے طریقے کی غلطی کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ ان کی بات مانیں، تو دلوک الشمس کے بعد بھی اس شخص پر نمازِ ظہر فرض نہیں ہوگی، جو ناپاکی کی حالت میں ہو کیونکہ نماز کی صحت کےلیے پاکی کا ہونا شرط ہے (بالکل اسی طرح جیسے جہاد کےلیے استطاعت کا ہونا شرط ہے)۔ فرضیت کا سبب آچکا، تو اس کے بعد پاکی کا حصول بھی واجب ہوچکا؛ اسی طرح اگر کسی شرط کا پورا ہونا ممکن نہیں، تو اس کا بدل دیکھنا ضروری ہے، اگر شریعت نے اس کا بدل قبول کیا ہو؛ مثلاً پانی نہ ہو، تو تیمم کے ذریعے بھی پاکی حاصل کی جاسکتی ہے؛ اسی طرح فرض نماز کے بعض فرض ارکان ساقط ہوجاتے ہیں، لیکن نماز کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی؛ جیسے کوئی شخص کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا، تو بیٹھ کر پڑھے، قیام کی استطاعت نہ ہونے سے قیام کی فرضیت ساقط ہوجائے گی، لیکن نماز کی فرضیت ساقط نہیں ہوگی؛ بیٹھ کر پڑھنے کی بھی استطاعت نہ ہو، تو اشارے سے پڑھنا لازم ہوجائے گا، لیکن نماز کی فرضیت ساقط نہیں ہوگی۔
اہلِ غزہ کی نصرت کےلیے جہاد کی فرضیت کی میں بحث غامدی صاحب ایک تو پہلا سوال، کہ جہاد کی فرضیت کا سبب پایا جاتا ہے یا نہیں، چھوڑ کر ثانوی بحث میں پڑ جاتے ہیں کہ جہاد کی استطاعت ہے یا نہیں؛ نیز وہ عدم استطاعت کو عذر فرض کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ استطاعت کا حصول فرض ہے۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ مسلمانوں میں مختلف لوگوں، اور ان کی مختلف ریاستوں، کےلیے استطاعت کا معیار الگ الگ ہے، اور سب کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکا جاسکتا؛ جیسے دلوک الشمس کے بعد نماز کوئی کھڑے ہو کر، کوئی بیٹھ کر اور کوئی اشارے سے پڑھے گا، لیکن فرض ادا کرے گا، ایسے ہی ’ظلم و عدوان‘ کی موجودگی میں، جسے غامدی صاحب جہاد کی فرضیت کا سبب مانتے ہیں، کسی پر جہاد کی ایک صورت پر فرض ہوگی، کسی پر دوسری، کسی پر تیسری؛ لیکن فرضیت ساقط نہیں ہوگی جب تک جہاد کی فرضیت کا سبب موجود ہے۔
سبب، شرط اور مانع کی اس بحث میں غامدی صاحب اور ان کے متبعین ایک تو ان تصورات کے درمیان فرق کو ملحوظ نہیں رکھ رہے۔ مثلاً جہاد کےلیے استطاعت کو ضروری قرار دے کر جب وہ یہ کہتے ہیں کہ استطاعت کے بغیر جہاد واجب نہیں ہوتا، اور ساتھ ہی زکوٰۃ اور حج کی مثال دیتے ہیں، تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ استطاعت زکوٰۃ کےلیے تو سبب ہے (جس کی علامت نصاب کے برابر مال کی ملکیت ہے)، لیکن حج اور جہاد کے لیے استطاعت شرط ہے۔ اس فرق کو نظر انداز کرنا معمولی نہیں، بلکہ بنیادی غلطی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کی فرضیت کا سوال نصاب کی ملکیت سے پہلے اٹھتا ہی نہیں، جبکہ جہاد کی فرضیت کا سبب (غامدی صاحب کے بقول) دوسروں کی جانب سے ظلم و عدوان کا ارتکاب ہے۔ اس لیے جب ظلم و عدوان کا وجود پایا جائے گا، تو جہاد (بمعنیٰ قتال) کا وجوب بھی پایا جائے گا، یعنی اس ظلم و عدوان کو مسلح جنگ کے ذریعے روکنا لازم ہوگا، اور اسے لازم ماننے کے بعدیہ سوال ہوگا کہ یہ لازم کام کیسے کیا جائے؟
یہیں سے ایک اور اہم فرق پر بات ضروری ہوجاتی ہے جسے غامدی صاحب اور ان کے متبعین نظر انداز کررہے ہیں۔ وہ فرق جہاد اور حج کی فرضیت کا فرق ہے۔ یہ دونوں کام فرض ہیں اور دونوں کےلیے استطاعت سبب نہیں، بلکہ شرط ہے؛ لیکن فرق یہ ہے کہ حج فرض عین ہے، جبکہ جہاد فرض کفایہ ہے۔ چنانچہ حج کی فرضیت کےلیے جب استطاعت کی بات کی جاتی ہے، تو اس سے مراد فرد کی استطاعت ہوتی ہے؛ اس کے برعکس جہاد کےلیے جب استطاعت کی بات ہوتی ہے، تو اس سے مراد پوری امت کی استطاعت ہوتی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ وہ کیسے پوری قطعیت کے ساتھ یہ دو ٹوک فیصلہ کرسکتے ہیں کہ پوری امت مل کر بھی اسرائیل کو ظلم سے نہیں روکنے کی استطاعت نہیں رکھتی، اور اس پر الگ سے تنقید کریں گے، ان شاء اللہ، لیکن اس وقت یہ بات واضح کرنی تھی کہ حج اور جہاد کے معاملے میں استطاعت کا فرق فرد کی استطاعت اور پوری امت کی استطاعت کا فرق ہے۔
سبب، شرط اور مانع کی اس بحث میں غامدی صاحب اور ان کے متبعین ایک اور اہم پہلو یہ نظر انداز کررہے ہیں۔ شریعت نے جن امور کو بعض دوسرے امور کےلیے سبب مقرر کیا ہے، ان میں بعض ایسے ہیں جو انسانوں کے افعال میں سے نہیں ہیں۔ مثلاً نماز کی فرضیت کا سبب وقت کا داخل ہونا ہے؛ روزوں کی فرضیت کا سبب رمضان کے مہینے کا شروع ہونا ہے؛ حج کی فرضیت کا سبب بیت اللہ کا وجود ہے۔ یہی معاملہ بعض شروط اور موانع کا بھی ہے۔ مثلاً زکوٰۃ کی فرضیت کےلیے ایک شرط یہ ہے کہ آدمی کے صاحبِ نصاب بننے کے بعد ایک (قمری) سال گزرے اور وہ بدستور صاحبِ نصاب رہے۔ آدمی نہ وقت کا پہیہ روک سکتا ہے، نہ اسے تیز کرسکتا ہے؛ اس لیے اس شرط کا پورا ہونا اپنے وقت پر ہی ہوگا اور انسان سے اس کے وجود میں لانے کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہی معاملہ بعض موانع کا بھی ہے۔ مثلاً حیض نماز کی فرضیت یا روزوں کی ادائی کی راہ میں مانع ہے اور انسان سے اس کے وجود میں لانے یا نہ لانے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا۔ تاہم اسباب، شروط اور موانع میں بعض ایسے ہیں جن کے وجود میں لانے یا نہ لانے کا مطالبہ انسان سے کیا جاسکتا ہے۔
اس مؤخر الذکر قسم میں بعض ایسے اسباب، شروط یا موانع بھی ہیں جن کے وجود میں لانے یا نہ لانے کا مطالبہ انسان سے کیا تو جاسکتا ہے، لیکن شریعت نے نہیں کیا۔ مثلاً زکوٰۃ کی فرضیت کا سبب نصاب کی ملکیت ہے۔ شریعت یہ حکم دے سکتی تھی کہ ہر مسلمان، یا مسلمانوں کی آبادی کا ایک خاص فی صدی حصہ، لازماً صاحبِ نصاب ہو، لیکن اس نے یہ حکم نہیں دیا۔ اسی طرح حج کی فرضیت کی ایک شرط بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت ہے۔ شریعت ہر مسلمان سے یہ مطالبہ کرسکتی تھی کہ وہ یہ استطاعت پیدا کرے، لیکن اس نے یہ مطالبہ نہیں کیا۔ موانع پر بھی غور کیجیے۔ کیا ادویات کے ذریعے حیض کو مؤخر نہیں کیا جاسکتا؟ خصوصاً حج یا عمرے کے وقت کئی دفعہ یہ سوال کیا جاتا ہے۔ ایسی ادویات یا تدابیر کا اختیار کرنا جائز ہے یا نہیں، یا ان کےلیے کیا قیود و حدود ہیں، اس بحث میں جائے بغیر اس وقت صرف یہ دکھانا مقصود ہے کہ اس شرعی مانع کو دور کیا جاسکتا ہے، اور اسے دور کیا جائے، تو جس شرعی حکم کےلیے اسے مانع کی حیثیت حاصل تھی، وہ حکم اب نافذ ہوجائے گا۔ چنانچہ ایسی خاتون سے نماز کا بھی مطالبہ ہوگا اور اس کی جانب سے روزے،حج یا عمرے کی ادائی بھی درست ہوگی۔
اس اصول کا اطلاق جہاد کے مسئلے پر کیجیے۔ جہاد کی فرضیت کا سبب (بقولِ غامدی صاحب کے) ظلم و عدوان کا وجود ہے۔ یہ سبب انسانوں کے افعال میں سے ہے اور اس سبب کےلیے حکمِ تکلیفی حرمت کا ہے، یعنی ظلم و عدوان کا ارتکاب حرام ہے۔ انسانوں پر ظلم و عدوان سے اجتناب لازم ہے۔ تاہم اگر کوئی گروہ کسی دوسرے گروہ کے خلاف ظلم و عدوان کا ارتکاب کررہا ہے، جیسے اس وقت اسرائیل اہلِ غزہ کے خلاف کررہا ہے، تو اس گروہ، یعنی اسرائیل، کے خلاف جہاد (بمعنی قتال) کی فرضیت کا سبب وجود میں آگیا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں پر بحیثیتِ مجموعی، نہ کہ صرف اہلِ غزہ پر، جہاد (بمعنی قتال) فرض ہوگیا ہے۔ اب اگلا سوال شروط کا ہے جن میں ایک شرط استطاعت کی ہے، یعنی کیا پوری مسلمان امت اس کی استطاعت رکھتی ہے کہ وہ اسرائیل کو اس ظلم سے روکنے کےلیے مسلح جنگ کرے؟ اس سوال پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے اور فوراً ہی نفی میں جواب دینا محض جہالت ہے۔ تاہم ایک لمحے کےلیے فرض کیجیے کہ پوری امت میں مجموعی طور پر بھی اس کی استطاعت نہیں ہے، تو اگلا سوال یہ ہے کہ کیا اس استطاعت کا حصول شرعاً مطلوب ہے یا نہیں؟ سورۃ الانفال کی آیت پڑھیے:
وأعدّوا لھم ما استطعتم من قوۃٍ ومن رباط الخیل
(اور ان کے مقابلے میں جتنی تمھاری استطاعت ہو ہر طرح کی قوت تیار کرو، اور خصوصاً باندھے ہوئے گھوڑے)
یہاں استطاعت کے مطابق تیاری کا حکم دیا گیا ہے؛ اس لیے اس مسلح جنگ کی تیاری اور اس کےلیے ممکن حد تک قوت کا حصول شرعاً واجب ہے۔ چنانچہ اگر کسی کے خیال میں امت میں اس کی استطاعت نہیں ہے، تو وہ امت کو اس استطاعت کے حصول کا فریضہ یاد دلائے، بجاے اس کے کہ وہ عدمِ استطاعت کا عذر پیش کرکے لوگوں کو کہے کہ جہاد تو فرض ہی نہیں ہے!
اسی طرح مظلوموں کی مدد کی راہ میں ایک رکاوٹ یہ ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں نے اس قوم کے ساتھ معاہدہ کیا ہو جس کے خلاف یہ مظلوم مدد مانگ رہے ہوں؛ لیکن ایسے بدترین ظلم کے بعد شرعاً ایسا معاہدہ اول تو باقی نہیں رہا، اور اگر باقی بھی ہو تو اسے پھینک دینا، یعنی اس کے خاتمے کا اعلان کرنا لازم ہے۔ پس شرعی حکم کے درست فہم کےلیے سبب، شرط اور مانع کی درست تفہیم اور ان کی درست ترتیب سمجھنا نہایت ضروری ہے۔
ان تین فروق (سبب اور شرط کا فرق، فرض عین اور فرض کفایہ کا فرق اور سبب/شرط/مانع کے متعلق حکمِ تکلیفی کا فرق) کا نتیجہ یہ ہے کہ ظلم و عدوان کے سبب سے اسرائیل کے خلاف جہاد (بمعنی قتال) پوری امت کا اجتماعی فرض بن چکا ہے؛ اگر اس فریضے کی ادائی کےلیے امت میں استطاعت نہیں ہے، تو اس استطاعت کا حصول بھی پوری امت پر فرض ہے؛ اور اگر اس فریضے کی راہ میں کوئی معاہدہ مانع ہے، تو اس مانع کا ہٹانا بھی پوری امت پر فرض ہے۔
تبصرہ لکھیے