ہوم << نصیرے ، تیرا کفر! سعد احمد

نصیرے ، تیرا کفر! سعد احمد

نصیر الحق دوست، رفیق ، جان جہاں، یار غار تو ہے ہی، تباہی کے دہانے پہ کھڑے سب سے کم ہمت لوگوں میں سے ایک بد قماش بھی ہے۔ شکل وشبیہ سے مردار کھا کے جی جانے والا، اور کچھ نہ ملنے پر خیالات کی دنیا سے لذت حاصل کرنے والا نصیر دور سے دکِھنے پر یوں محسوس ہوتا ہے گویا نِکھٹو سن ۴۳ کے بنگال کا جغرافیہ ہے جس کی آنتیں پیٹ سے پتھر باندھنے کے باعث چپکی ہوئی ہیں۔ آنکھیں گہرے حلقے میں کچھ یوں ڈولتی ہیں جیسے کوئی ابھاگِن قسمت کی کھڑکیوں سے جھانک جھانک کر کسی غیر مرئی شبیہ کا انتظار کر رہی ہو، کبھی ایک جانب ڈولتی تو ہولے سے دوسری جانب بھی سرک جاتی ہے۔ مگر اس کی امید کا ہیولی نہ یوں جھپٹتا ہےاور نہ یوں لپکتا ۔ پتلیاں بے رونق گویا دیدار یار کا انتظار کر کر کے تھک گئی ہوں اور اب کچھ دیکھنا ہی نہ چاہتی ہوں۔ چال جیسے مرگِلا بھیڑیا اواخر عمر میں جوش میں آکر شکار کرنا چاہتا ہو مگر نقاہت کے باعث لڑکھڑا کر داؤ بدلنے کے علاوہ کچھ نہ کرسکتا ہو۔ انگلیاں جیسے انگور کی لہریا دار لتر جو کہ اب سوکھ کر کھنکھڑ ہو رہی ہوں۔ ہونٹ سوکھ کر باریک سی ستلی کا احساس کر ا رہے ہوں۔ کان کی لوویں یوں گویا کوئی عجوزہ طوالت عمر کی باعث اپنی جلد کے لٹکاؤ سے جوجھ رہی ہو اور ہر عضو کی جلد سے پھڑ پھڑ کی آواز اس کی بدنی معنویت پر ملتجیانہ نگاہ پھیرنے کی سفارش کر رہی ہو۔ کندھے بوڑھی لومڑی کے بازوؤں کی طرح اٹھے ہوئے اور کمر گویا کھیت میں ایستادہ بجوکا ہو جس پر لٹکی ہوئی قمیص ہوا کی تاب نہ لاکر ہوا کے سنگ بہہ جانے کی خواہش مند ہو مگر جسم کی غیرت نِگوڑی کی خاطر مروت سے اپنا دل پسیج کر جاتی اور پھر اسی لکڑ ہارے کے جسم سے چمٹ جاتی ہو۔ نصیر کی ظاہری شباہت میں کچھ قابل ذکر موضوع تھا تو اس کی ناک اور اس کی پیشانی۔ ناک ستواں تقریبا خاندانی ہونے کا پتہ دیتی اور پیشانی، ہاں پیشانی تو کھلی کتاب تھی جہاں لکھا تھا ایک لمبی اور بلند اڑان اڑنے والے پرندے کے پر کتر دیے گئےتاکہ افزائش ، غیر کی ضروریات اور حقیر ترین امور خانہ داری کا بار اپنے پیٹھ پر لاد کر ذمہ داری کا تابوت کھینچ کے آخری منزل تک پہنچانے کا کام کر سکے۔

نصیر کے منہ سے صبح شام بھائی جان بھائی جان کا خوف و ہراس اور دہشت میں ملا جلا ورد نہ جانے کیوں یہ احساس کراتا تھا کہ نصیر کی دنیا کا عمر وعیار دراصل بھائی یا بھائی جان ہی ہے۔ وضاحت بس اتنی کہ بھائی جان کوئی لام میم نون ہو گا جس نے اس کے اقرباء کو ورغلا ورغلا کر اس بات پر مجبور کردیا کہ شہر سے لونڈے کو بلاؤ اور گھر کی پان کی دکان پر بٹھاؤ۔نصیر کا کوئی قابل ذکر بڑا بھائی تھا نہیں۔تو اس پر بھائی بھائی کایہ خوف طاری کیوں کر ہوا، میرے جیسے موحدمغبچہ کو جس کی دانست میں علم ، عمل حتی کہ مادیت کے بھی سارے راستے بس ایک ہی چھور سے ملتے ہیں ، اسے نصیر کو سُدھانے والے کا علم خواب میں بھی نہیں ہو سکتا تھا ۔ کیوں، نصیر کا میری حقیقتوں سے تعلق تھا،خواب سے نہیں۔

کمینہ، خراباتی، بد دماغ، بھنگچی، بالشتیہ، بِشتی، شپرک مزاج، طوطے جیسا حریص، کوے جیسا بری خبر کا علمبردار، خیر کے اعمال سے نکلا ہوا فال بد کا انتظام، نصیر میرے مدرسے کے دنوں کا ہم سبق ہے۔ وہ ان دنوں مودودی کے لکھے ہوئے تمام تر لٹریچر کو ایک طرف سے چاٹ جانے کے لیے مشہور تھا، وہیں ان سے متعلق تمام اردو عربی کی کتابوں کا شاہد کرمک شب تھا جس کا کام روشنی کو پی پی کر جیے جانا بھی تھا۔ مزید، ہاں مزید، سنو، نصیر لائبریریوں کا دیوانہ، ہر کتاب اور اس کی ہر تحریر کویوں ندیدوں کی طرح دیکھتا گویا یہی اس کی منسوبہ اور محبوبہ ہونے والی ہو، اس طرح اگر پیمائش و حساب کریں تو نصیر کی محبوباؤں کی تعداد شاید بدکار شہزادہ کیسانوا کی محبوباؤں سے بھی زیادہ تھی۔ نہیں،نصیر بد کار نہیں، لنگوٹ کا پکا تھا۔ اس کے حدود اربعہ میں بدکاری کا موضوع بھٹک کر بھی نہیں آتا۔ مگر پھر بھی ہمیشہ کتابوں کو دیکھنے کا اس کا زاویہ یہی تھا کہ نصیر چاہتا ہے کہ دوشیزہ کاغذی کسی غیر کی مس کردہ نہ ہو۔مگر اس کی چاہت کا کیا، جن کتابوں پر اس کی نظر پڑتی، وہ سال خوردہ ہوتیں۔ انھیں اتنے تجربہ کار ہاتھوں نے چھوا ہوتا، اتنی آنکھوں نے اسے اپنی للچائی نگاہوں سے چکھ کر پیا ہوتا کہ نصیر چارو ناچار جو ہے اسی پر قناعت کر لینے پر عین راضی برضا دکھائی پڑ تا۔

جب ہم دہلی تعلیم و تعلم کے لیے وارد ہوئے تو مڈل کلاس ہونے کی امید کے علاوہ کوئی ایسا محرک نہیں تھا جس کی وجہ سے آنکھوں میں روشنی پسر سکتی۔ مدارس کے تمام طلبہ کی طرح ہم بھی توپ بننے کے خواش مند تھے. آزاد ، دہلوی اور شہید سے کم پر سودا کرنے کے لیے راضی ہی نہیں تھے۔ ارشد امان ہمارے آئیڈیل گرو تھے، انھوں نے ہندی میں کمیونسٹ مینیفسٹو ہاتھ میں تھما دی۔ ایسا نہیں کہ ہم کارل مارکس کے انویائی ہونے والے تھے بلکہ ہم نے پہلی مرتبہ الحاد کو اپنے ہاتھ میں محسوس کیا تھا، وہیں جلیل صاحب نے علی شریعتی کا درس اتنا دیا کہ ہمارے کندھوں پر مزید کئی بوجھ آپڑے۔ اس سے قبل نصیر ہی تھا جو کبھی فاروقی کی فکر ی روش کو ہمارے سامنے انڈیلتا، کبھی سرسید کی تو کبھی اصغر علی انجینئر کی۔ مؤمن برادری سے لیکر پسماندہ تگ ودو کا اسے عالمانہ حد تک گیان تھا۔ ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہے کہ اگر میں نے عقل و فکر کی کسی زندان پر انگلی پھیری ہو اور نصیر کو اس کا لمس محسوس نہ ہوا ہو۔مگر سنڈے کی صبح نصیر سنڈے ٹائمز کا رنگین ورق ایسے ٹکٹکی باندھ کر پڑھتا کہ بھائی سب کو یہ محسوس ہو ضرور آج کوئی خاص خبر ہے اور خبر کے ہر اینگل کا تجزیہ ہو جانا ہے۔

نصیر دھوکے باز ، ڈکیت، اچکا، اس نے مجھے دہلی میں بے یارومددگار اس وقت چھوڑا جب ہم اپنے کل پرزے نکال رہے تھے۔ وہ میرے ان اصحاب کہف میں سے تھا جو سینکڑوں سال پرانے خواب کی تعبیر کشید کرنے کی صلاحیت خوب رکھتے ہیں۔ مگر قسمت کا گڈریا آپ کو کس راہ پر لگا دے، یہ کسی کو نہیں معلوم۔ نصیر، خود کو حالات کے سپرد کرکے کاؤنٹر پر بیٹھ کر اب فیس بک کے لیےمضامین تیار کیا کرتا ہے اور میں اپنے شاگردوں کے درمیان انھیں شجر کاری کا درس دیا کرتا ہوں۔معاشرے کی جبریت نے نصیر کی ٹوپی سیدھی کرنے کا دعوی کیا ہے تو حالات کی فرعونیت نے میرے زور کو توڑ دینے کا خواب بھی دیکھا ہے۔ بعض پرانے حواریوں کا کہنا ہے کہ نصیر کا استقرائی ذہن خداد ادہے، وہیں اس کے جگر کے ٹکڑے کا پزوہشی ذہن بھی جاودانیوں سے کم نہیں۔ مگر رائیگانی کا احساس ہم دونوں کو بدرجہ اتم صرف اس لیے ہے کہ اس میں وہ صلاحیتیں تھیں جس کی لکھی ہوئیں عبارتیں آب زر کی ہوتیں اور جسے آ تش امروز میں بلاخوف و خطر انڈیلا جا سکتا تھا۔ مگر انتہائی غیور نصیر نے چاہا کہ اپنے آنسو خود پونچھے کیوںکہ وہ جانتا تھا کہ اپنے بھی بلا قیمت آنسو نہیں پونچھتے. وہ جانتا تھا کہ بیٹا اگر غریب ہو تو ماں باپ بھائی جان کو بیٹے سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ لہذا، قرطاس و قلم کے کاروبار کو چولہے میں جھونکا جائے اور جو لذت ہماری سعی بے حاصل میں ہے اس کا مزہ چکھا جائے۔

نصیر کا جگر، نصیر کے جگر کا ٹکڑا ، عجیب معاملہ ہے اس کے ساتھ، علت و معلول کا مقلد ہے اور نظام کے ستاروں کا منکر۔ دونوں کی تخلیق نہ کسی دیر کے پنڈتوں کی دین ہے اور نہ کسی حرم کے مجاور نے ان کی ترکیب بنانے کی کوشش کی ہے۔ پھر ، پھیر ایسا کیوں کہ دونوں کے زحل و عطارد الگ الگ سمتوں میں بھٹک رہے ہیں۔نصیرے ترا کفر سر پر چڑھ چکا ہے، اب تو آبھی جا ،
نصیرے نصیرے، تو کہاں ہے اب تو آبھی جا، میں تجھے عدم کے اشعار سنانے والا ہوں!
نصیرے تو کہاں ہے اب تو آبھی جا، ہم دونوں ایک ہی پیالہ سے اپنا جام پینے والے ہیں
نصیر ے، تو کہاں ہے اب تو آ بھی جا، ہم دونوں ایک ہی جنگل سے اپنا دانہ چگنے والے ہیں!
اے نصیر ! اب تو آ بھی جا ہم دونوں ایک ہی جنگل میں گم ہونے والے ہیں!