ہوم << کولمبیا یونیورسٹی، آزادیِ اظہار اور امریکی خارجہ پالیسی - محمد دین جوہر

کولمبیا یونیورسٹی، آزادیِ اظہار اور امریکی خارجہ پالیسی - محمد دین جوہر

ٹرمپ حکومت نے کولمبیا یونیورسٹی کو باقی امریکی یونیورسٹیوں، میڈیا اور اہل علم کے لیے جس طرح نشانِ عبرت بنایا ہے، وہ قابل دید ہے۔ اس آئیوی لیگ یونیورسٹی نے فوراً گھٹنے ٹیک دیے اور ٹرمپ حکومت کے سیاسی ایجنڈے کی پیروی پر آمادگی ظاہر کر کے عافیت طلب ہوئی۔ اس سے امریکی معاشرے میں قائم سرمائے اور طاقت کے نظام میں گہری تبدیلیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس تبدیلی کو مختصراً مغربی تہذیب میں ”فسطا.ئیت کی واپسی“ کے زیرعنوان بیان کیا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ حکومت نے یونیورسٹی پر چار سو ملین ڈالر گرانٹ کے حصول کی جو شرائط عائد کیں وہ ساری کی ساری تسلیم کر لی گئی ہیں۔ اب وہاں ”علم“ طاقت کی نئی ترجیحات پر تشکیل دیا جائے گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پہلے وہاں علم کسی آزاد قدرِ اعلیٰ میں کوئی بنیاد رکھتا تھا، بلکہ وہ علم ٹرمپ/ری پبلکن مخالف سیاسی ترجیحات پر تشکیل دیا جاتا تھا، اور ٹرمپ انقلاب اصلاً ڈیموکریٹ سیاسی اور ثقافتی ترجیحات کے خلاف سفید فام امریکا کے رد عمل ہی کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹرمپ حکومت نے امریکی یونیورسٹیوں کو بتا دیا ہے کن علمی موضوعات پر دادِ تحقیق دی جا سکے گی اور کون سے موضوعات ممنوع ہوں گے۔ کولمبیا کے بعد اب کسی اور یونیورسٹی سے اس امر کی کوئی امید نہیں کہ وہاں علم کی تشکیل اور اس کے اظہار میں امریکی حکومت کی نئی سیاسی ترجیحات کو نظرانداز کیا جا سکے گا۔

امریکی یونیورسٹیوں پر ٹرمپ دھاوے کی بنیادی وجہ وہ مظاہرے ہیں جو وہاں زیر تعلیم طلبا نے غ.ز.ہ میں نسل کشی کے خلاف کیے اور کئی جگہوں پر اساتذہ نے بھی اپنے طلبا کا بھرپور ساتھ دیا۔ ٹرمپ حکومت کا خیال ہے کہ دراساتِ مشرق وسطیٰ، شرقی مطالعات اور بعض ثقافتی موضوعات کا رخ درست نہیں جس کی وجہ سے اسر.ا.ئیل کے خلاف علمی اور ثقافتی فضا ہموار ہوئی ہے اور بعض ناپسندیدہ سماجی رویے عام ہوئے ہیں۔ بنیادی الزام سام دشمنی (اینٹی سیماٹزم) کا ہے جسے فرانس کی طرح، اب امریکہ میں صہیونیت دشمنی (اینٹی زائنزم) کے مساوی بنا دیا گیا ہے۔ یعنی مجرد اسر.ا.ئیل کے خلاف بات کرنے کو اب سام دشمنی قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی میں ایک بہت بڑی تبدیلی آئی ہے جس میں کینیڈا پر قبضے (annexation)، گرین لینڈ اور پانامہ کینال کے غصبی ایجنڈے کو حیرت انگیز انداز میں آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ایران، حز.ب ا.للہ اور ح.م.ا.س کے بارے میں جس طرح کی گفتگو کی جا رہی ہے اس میں سفارت کاری کا واہمہ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ نئی صورت حال میں امریکہ کے اندر ایسے مراکز جو اس پالیسی پر تنقید کرتے ہیں یا اس سے اختلاف رکھتے ہیں، ٹرمپ حکومت کی زد میں ہیں۔ ایسے میڈیا چینلز اور ادارے جو ٹرمپ کی مخالفت کرتے رہے ہیں اس وقت بہت زیادہ دباؤ میں ہیں۔

حالیہ دنوں میں صرف امریکی یونیورسٹیاں ہی زیر عتاب نہیں آئیں بلکہ پورا وفاقی محکمہ تعلیم ہی ادھیڑا جا رہا ہے اور اس امر کا امکان ہے کہ اسے ختم ہی کر دیا جائے۔ اسکولی تعلیم کو بھی سرمایہ داروں کے فائدے کے لیے بگ فارما کی طرز پر ازسرِ نو منظم کیے جانے کے قوی امکانات ہیں۔ موجودہ امریکہ ویامر جرمنی سے مماثل نظر آتا ہے جس نے اڈولف ہٹلر کی فسطا.ئیت کو جنم دیا تھا۔ نا.تسی فسطا.ئیت نے بتدریج طاقت، سرمائے اور فکر کے تمام مراکز پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا اور پھر یہ ایک عفریت بن کر اہل یہود اور یورپ پر پِل پڑی تھی۔ اس وقت امریکہ میں درنقاب ریاست (deep State) (یعنی بے چہرہ سول اور ملٹری بیوروکریسیوں) کو مکمل طور پر کھدیڑ دیا گیا ہے اور ہر جگہ ایسے لوگوں کو تعینات کیا گیا ہے جو ریاست کی بجائے ٹرمپ کے لیے کام کرنے پر تیار ہوں۔ مجھے اس بات کے واضح امکانات نظر آ رہے ہیں کہ ۶/ جنوری سنہ ۲۰۲۱ء کو ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر قبضے کی جو کوشش کی تھی اس کی اب ضرورت نہیں ہو گی کیونکہ یہ کام ابھی سے زیادہ منظم طریقے پر شروع ہو گیا ہے۔ ٹرمپ اگر تیسری مرتبہ برسر اقتدار آنے کے لیے قانون سازی نہ کر سکا تو امکان ہے وہ اقتدار منتقل کرنے سے ہی انکار کر دے۔

فسطائیت کی اساس نسل پرستی ہے اور جرمنی میں اس کا سیاسی نام نیشنل سوشلزم تھا۔ ٹرمپ جس فسطا.ئیت کا علمبردار ہے وہ بھی سفید فام نسل پرستانہ اساس رکھتی ہے اور اس کے پیچھے انجیلی صہیونیت (ای.وین.جیلی.کل زائیا.نزم) کام کر رہی ہے۔ امریکہ میں پہلی دفعہ ایسی حکومت برسر اقتدار آئی ہے جس میں امریکی صدر کی کابینہ اور اس کے ارد گرد کام کرنے والے سو فیصد لوگ اسی نظریے سے تعلق رکھتے ہیں اور امریکہ سے زیادہ اسر.ا.ئیلی مفادات کو اولیت دیتے ہیں۔ یہ فکری اور سیاسی صورت حال اور سرمائے کے قومی اور بین الاقوامی مفادات نتیجہ خیز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ٹرمپ نے اپنے پرانے اتحادیوں کے ساتھ رو رعایت برتنے سے بھی صاف انکار کر دیا ہے، اور دنیا بھر کے سیاسی لیڈر اور دانشوران یہ بات کر رہے ہیں کہ وہ دنیا جو جنگ عظیم دوم کے بعد خود امریکی قیادت میں وجود پذیر ہوئی تھی اب ختم ہو گئی ہے اور ایک نئی دنیا ابھر رہی ہے۔ بیسویں اور اکیسویں صدی کی فسطا.ئیت میں ایک بہت بنیادی فرق یہ ہے کہ اول الذکر یورپ کی خانہ جنگی کی صورت میں ظاہر ہوئی جبکہ مؤخر الذکر کا منصۂ شہود بین الاقوامی نظام ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی کے معاملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ حکومت اپنے سیاسی ایجنڈے کو سخت گیر معاشی پالیسیوں اور براہ راست جنگی کاروائی سے آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ ٹیرف جنگ ہی کی ایک قسم ہے۔ یاد رہے کہ اس طرح کی سخت گیر معاشی پالیسی اصل جنگ میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ دوسرے لفظوں میں سیاسی اور معاشی پالیسیوں کی اساس اگر نسل پرستی یعنی فسطا.ئیت ہو تو اسے حقیقی جنگ کا پیش خیمہ ہی ثابت ہوتی ہے۔ جرمن فسطا.ئیت اصلاً جنگ عظیم اول کا معاشی نتیجہ تھی اور آگے چل کر اس سے بھی بڑی جنگ کی سبب بنی۔ اس تناظر میں ٹرمپ کو امن پسند قرار دینا محض خوش فہمی ہے۔ داخلی طور پر ٹرمپ حکومت طاقت کے مراکز پر نہایت بے رحمی سے قبضہ جما رہی ہے اور خارجی طور پر اس نے ایسے جارحانہ اقدامات کیے ہیں جو ناگزیر طور پر کسی بڑی جنگ پر منتج ہوں گے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ روس سے مفاہمت اور چین سے مخاصمت کی ٹرمپ پالیسی کامیاب نہیں ہو گی۔ گزشتہ صدی کی فسطا.ئیت جنگ اور ہولو.کاسٹ دونوں کا باعث بنی تھی، اور موجودہ فسطا.ئیت مشرق وسطیٰ کو جنگ اور ہولو.کاسٹ کا ہدف بناتی نظر آ رہی ہے۔

مشرق وسطیٰ میں کچھ ممالک مردہ اور کچھ نیم مردہ ہیں۔ ایران، ترکی اور مصر نیم مردہ طاقتیں ہیں، اور باقی معاشرے تدفین کے منتظر ہیں۔ کسی مسلم معاشرے کا مردہ سے نیم زندہ بننا بھی مغرب کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ عراق اور شام کے خاتمے کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ وہاں کے معاشرے کچھ نہ کچھ عسکری طاقت رکھتے تھے۔ تھوڑی بہت عسکری طاقت کے ساتھ ایران، ترکی اور مصر کا وجود مغرب اور اسرائیل کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ غ.ز.ہ کی جنگ بندی جس طرح محض ایک دھوکا ثابت ہوئی ہے، وہ آنے والے دنوں کے بارے میں بہت کچھ بتا رہی ہے۔ اکیسویں صدی کی مسلم ہو.لو.کا.سٹ کا وقت ہوا چاہتا ہے، اور ٹرمپ حکومت کا اگلے چار سال کا بنیادی ایجنڈا بھی یہی دکھائی دیتا ہے۔