میرا مشاہدہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ اپنی دنیا میں ایک اندرونی عدالت قائم کیے بیٹھے ہیں، جس میں وہ خود ہی جج ہوتے ہیں، خود ہی وکیل اور خود ہی منصف۔ کیا یہ ظلم اور زیادتی نہیں کہ ہم میں سے بہت سے صاحبِ اختیار اور صاحبِ ثروت افراد دوسروں کے اعمال، نیتوں اور کردار پر یوں فیصلے صادر کرتے ہیں گویا ہمیں ان کے دلوں کا حال معلوم ہو؟ فلاں برا ہے، فلاں سزا کا مستحق ہے، فلاں سے بات نہیں کرنی، فلاں کو نظر انداز کرنا ہے۔ ہم نے اپنی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ایک فہرست تیار کر رکھی ہے جس میں لوگوں کو جنتی اور دوزخی، نیک و بد، قابلِ رعایت یا ناقابلِ معافی قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ ہمیں سخت دل، بے رحم اور انصاف سے دُور لے گیا ہے۔
اس "جج مینٹلٹی" کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہم انسانوں کے درمیان رشتے، مکالمہ اور برداشت کھو بیٹھتے ہیں۔ ہم نہ تو دلائل سننے کے روادار رہتے ہیں، نہ ہی معافی یا درگزر کا جذبہ رکھتے ہیں۔ کسی سے ایک بار اختلاف ہو جائے تو دل میں بغض و نفرت کا ایسا پودا لگا لیتے ہیں جسے خود ہی پانی اور کھاد دے کر پروان چڑھاتے ہیں۔ دشمنیاں بڑھتی ہیں، بات چیت کے دروازے بند ہو جاتے ہیں، اور مخالف کو ہر حال میں مجرم سمجھ لیا جاتا ہے۔ یوں ہم ایک بے رحم جج بن کر دوسروں کو سزا دینے پر تُل جاتے ہیں۔
اگر ہم اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا طرزِ عمل اس کے بالکل برعکس تھا۔ آپ نے کبھی خود کو لوگوں پر منصف بنا کر مسلط نہیں کیا بلکہ ہمیشہ رحمت، معافی اور درگزر کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش فرمایا۔ طائف کے لوگوں نے آپ کو پتھر مارے، دشمنوں نے اذیتیں دیں، مگر آپ نے ان کے لیے بددعا کے بجائے ہدایت کی دعا کی۔ یہاں تک کہ فتحِ مکہ کے موقع پر، جب تمام دشمن زیرِ دست آ چکے تھے، آپ نے انہیں معاف فرما دیا۔ آپ کی سیرت ہمیں سکھاتی ہے کہ دوسروں کے عیب تلاش کرنا اور ان پر فیصلے صادر کرنا ہمارا کام نہیں، بلکہ محبت، درگزر اور اصلاح کا راستہ اختیار کرنا ہی سنتِ نبوی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ اپنی اندرونی عدالت کو ختم کریں، دوسروں کے بارے میں رائے قائم کرنے میں جلد بازی نہ کریں، اور اپنی رائے کو حرفِ آخر نہ سمجھیں۔ اگر ہم واقعی نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے امتی ہیں، تو ہمیں رحم دلی، عفو و درگزر اور نرم روی کا راستہ اپنانا ہوگا۔ دنیا کو نفرتوں کی نہیں، محبتوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں جج بننے کی نہیں، انسان بننے کی ضرورت ہے۔
تبصرہ لکھیے