فلسطین نہ صرف ایک خطۂ زمین ہے بلکہ یہ مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن، ایمان کی علامت اور تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ یہ ہمارا قبلہ اول ہے، وہ مقدس زمین جس کی طرف رخ کر کے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے سالوں تک نماز ادا کی۔ مسجد اقصیٰ، جو بیت المقدس میں واقع ہے، اسلام کے تین مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے نبی ﷺ نے معراج کا سفر کیا، جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی موجود ہے۔
فلسطین کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ یہ انبیاء کی سرزمین ہے۔ حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیؑ، حضرت عیسیؑ اور دیگر کئی پیغمبروں کے قدم اس زمین پر پڑے۔ یہودی، عیسائی اور مسلمان تینوں ہی اسے مقدس سمجھتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے لیے اس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ ہمارا قبلہ اول ہے اور یہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے، جو ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔
آج فلسطین کی زمین پر صیہونی قبضہ ہے۔ اسرائیل نے نہ صرف فلسطینیوں کی زمین ہڑپ کی ہے بلکہ ان کے حقوق، ان کی آزادی اور ان کی عزت کو بھی پامال کیا ہے۔ غزہ کی پٹی اور ویسٹ بینک میں فلسطینی عوام کا زندگی گزارنا مشکل ہو چکا ہے۔ ہر روز بمباری، گھروں کی تباہی، معصوم بچوں کی شہادت اور عورتوں کی بے حرمتی کی خبریں سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
کبھی غزہ کے اسپتالوں پر حملے، کبھی مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر تشدد، کبھی نوجوانوں کو گولیوں سے بھون دینا ، یہ سب صیہونی ریاست کے مظالم کی ایک جھلک ہے۔ لیکن اس کے باوجود فلسطینی عوام ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کا عزم، ان کی قربانیاں اور ان کی استقامت دنیا کے سامنے ایک مثال ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم مسلمان، جو اپنے آپ کو امت محمدیہ کہتے ہیں، فلسطین کے معاملے میں کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم نے فلسطینیوں کے ساتھ اپنی ذمہ داری پوری کی؟ کیا ہم نے ان کی آواز بننے کی کوشش کی؟ یا ہم صرف چند جذباتی تقریروں اور سوشل میڈیا پوسٹس تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں؟
ہماری ذمہ داری ہے کہ:
1.اس کے بارے میں بات کریں، معلومات پھیلائیں، دنیا کو اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور کریں۔
2. اسرائیل کی مصنوعات کو مسترد کریں۔ ہر چھوٹی بڑی چیز جو اسرائیل کی معیشت کو مضبوط کرتی ہے، اس سے پرہیز کریں۔
3. فلسطینیوں کے لیے دعا کریں، ان کے حق میں آواز اٹھائیں، اور ان کی مدد کے لیے ہر ممکن اقدام کریں۔
تاریخ گواہ ہے کہ ظلم ہمیشہ سے شکست کھا چکا ہے۔ فرعون کے ظلم کے باوجود حضرت موسیؑ کی قوم کو نصرت ملی۔ آج بھی فلسطینی عوام کی بہادری اور صبر ہمیں یقین دلاتا ہے کہ ان شاء اللہ، ایک دن یہ ظلم ختم ہوگا اور مسجد اقصیٰ پر دوبارہ امن کا پرچم لہرائے گا۔
فلسطین صرف ایک زمین کا ٹکڑا نہیں، یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ جب تک مسجد اقصیٰ آزاد نہیں ہوتی، ہماری ذمہ داری ختم نہیں ہوتی۔ ہمیں اپنے قبلہ اول کی آزادی کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مقدس مقصد میں کامیابی عطا فرمائے۔ آمین۔
"اور تم ہمت نہ ہارو، نہ غم کرو، اگر تم حقیقی مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔" (آل عمران: 139)
تبصرہ لکھیے