ہوم << لذتِ تشنگی - نعیم اللہ باجوہ

لذتِ تشنگی - نعیم اللہ باجوہ

تشنگی محض پیاس نہیں، یہ ایک ازلی گرہ ہے جو ہمیں فنا اور بقا کے درمیان معلق رکھتی ہے۔ یہ وہ آگ ہے جو جلنے میں راحت پاتی ہے، وہ جستجو ہے جو منزل سے بے نیاز ہو کر سفر میں لذت تلاش کرتی ہے۔ یہ ایک ناتمام خواب ہے، جو جاگنے کے بعد بھی آنکھوں میں تیرتا رہتا ہے، اور ایک ایسی صدا ہے جو گونج بن کر خود کو بار بار دہراتی ہے۔

تشنگی کی معراج یہ ہے کہ یہ کبھی سیراب نہیں ہوتی۔ اگر ہو جائے تو وجود کا سارا حسن ماند پڑ جائے، وہ کشش جو ہمیں آگے بڑھنے پر مجبور کرتی ہے، دم توڑ دے۔ سمندر کی بے کراں وسعت ہو، کسی صوفی کی دعا میں بہتا ہوا آنسو، یا کسی عاشق کی تڑپتی ہوئی سانس—یہ سب تشنگی کی مختلف صورتیں ہیں۔ لیکن جو اسے سمجھ لے، وہ جان لے کہ یہ پیاس ہی اصل زندگی ہے، یہ خلا ہی اصل کائنات ہے، اور یہ طلب ہی سب سے بڑی حقیقت ہے۔

ہم جس چیز کو پانے کے لیے سرگرداں ہیں، وہ شاید ہمارے اندر ہی کہیں پوشیدہ ہے۔ مگر اس کا راز یہ ہے کہ اسے پا کر بھی ہم اسے مکمل نہیں پا سکتے۔ کیونکہ یہ پیاس ہی دراصل وہ روشنی ہے جو ہمیں مسلسل رواں رکھتی ہے، وہ آگ ہے جو ہمیں زندہ رکھتی ہے، وہ خلش ہے جو ہمیں ہونے کا یقین دلاتی ہے۔

تشنگی کا راز یہی ہے کہ یہ کسی جام میں نہیں، بلکہ اس جستجو میں ہے جو ہمیں ہر لمحہ نئی حقیقتوں سے آشنا کرتی ہے۔ جو اسے سمجھ گیا، وہ جان گیا کہ سکون کسی سراب کا نام ہے، اور حقیقت ہمیشہ اس پیاس میں پنہاں رہتی ہے جو کبھی بجھتی نہیں۔