ایک صاحب نے سوال کیا ہے کہ کیا غزہ کے حوالے سے پاکستان کی ذمے داری بھی بنتی ہے یا نہیں؟
ذرا پس منظر میں جھانکتے ہیں، تاکہ پتہ چلے کہ اس سارے ہنگام میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
مسلم ممالک کی اس وقت دو بڑی تنظیمیں ہیں. ایک او آئی سی جبکہ دوسری عرب لیگ.
او آئی سی (Organization of Islamic cooperation)
1969 میں یہودیوں نے مسجدِ اقصٰی پہ حملہ کیا اور اسے آگ لگا دی. نتیجتاً عالمِ اسلام میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی. اس واقعے سے محض دو سال قبل عرب اسرائیل جنگ لڑی جاچکی تھی، جس میں اسرائیل فاتح رہا تھا اور صحرائے سینا، گولان کی پہاڑیاں اور مغربی کنارہ اس کے قبضے میں جاچکے تھے. عرب نڈھال تھے. انہیں پہلی دفعہ احساس ہوا کہ اب تمام عرب مل کر بھی اسرائیل کا بال بیکا نہیں کرسکتے. چنانچہ مسجدِ اقصٰی اور فلسطین کے دفاع کے لئے تمام عالمِ اسلام کو یکجا کرنا مناسب سمجھا گیا. اس مقصد کے لیے ستمبر 1969 میں مراکش کے دارالحکومت رباط میں ایک بین الاقوامی اسلامی کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں مسلم ممالک کے سربراہان نے شرکت کی. اسی کانفرنس میں او آئی سی کی بنیاد رکھی گئی.
او آئی سی اقوامِ متحدہ کے بعد عالمی سطح پر سب سے بڑی تنظیم ہے، جس کے رکن ممالک کی تعداد ستاون ہے. اس کے مقاصد بےحد جاندار ہیں . مثلاً اسلامی دنیا میں اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دینا. مسلمانوں کے حقوق اور مقدسات کا دفاع کرنا . بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کے موقف کی حمایت کرنا . رکن ممالک کے درمیان اقتصادی، سائنسی، ثقافتی اور سیاسی تعاون کو بڑھانا. سب سے نمایاں شق فلسطین کے لیے آواز بلند کرنا ہے .
عرب لیگ ( League of Arab states )
او آئی سی کے قیام سے بہت پہلے 1945 میں ایک تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا، جسے عرب لیگ کا نام دیا گیا. اس تنظیم کے مقاصد میں سے عرب ممالک کے درمیان اتفاق اور یکجہتی کو فروغ دینا، اقتصادی، ثقافتی اور سیکیورٹی کے شعبوں میں تعاون اور عرب سرزمین کی خودمختاری کا دفاع جیسے اہم نکات تھے. ایک نمایاں نکتہ فلسطین کے مسئلے پر عربوں کے موقف کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا بھی تھا.
اس وقت عالمِ اسلام دو دائروں میں بٹا ہوا ہے. ایک دائرے میں عرب ممالک ہیں، جبکہ دوسرے دائرے میں باقی مسلم ممالک ہیں. او آئی سی جیسی بڑی تنظیم کے ہوتے ہوئے بھی عرب ممالک اب بھی اپنے مسائل عرب لیگ کے جھنڈے کے نیچے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں. انہوں نے خلافت کی قبا تو تار تار کی اور بعد ازاں اپنا مصنوعی قد کاٹھ بڑھانے کے لئے عرب قومیت کا بت بھی تراشا، مگر ان کی قامت سے بونے پن کا آسیب نہ گیا. خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد دمشق کو مرکز قرار دے کر ایک عظیم عرب ریاست قائم کرکے بھی اپنا بونا پن ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، جو محض چار ماہ قائم رہ سکی، مگر بونا پن پھر بھی نہ گیا. انہوں نے قومیت کے بت کو سامری کے بچھڑے کی طرح پوجا ہی اس لیے تھا کہ اب وہ ایسا قد و قامت نکالیں گے کہ سرو بھی ان کے آگے پانی بھرتا پھرے گا، مگر یہ تو رشکِ سر و نخل نہ بن سکے، البتہ عالمِ اسلام کا ستیاناس ہو گیا .
یہ کھلی حقیقت ہے کہ آج کوئی بھی غیر عرب مسلم ملک غزہ اور شام جیسے معاملات میں اپنی مرضی سے مداخلت نہیں کرسکتا. ترکی نے شام میں مداخلت کی ہے مگر عرب اسے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ رہے. بالکل بھی تعجب نہیں ہوگا اگر کل کلاں اسرائیل اور ترکی کی جنگ میں عرب وہی کردار ادا کریں جو آج غزہ کے باب میں ادا کر رہے ہیں.
کسی زمانے میں پاکستان نے مصر سے کہا تھا کہ آپ کشمیر کے معاملے میں ہماری حمایت کریں، ہم فلسطین کے معاملے میں ساتھ دیں گے. تب قاہرہ سے ٹکا سا جواب آیا تھا کہ بھائی تم سے فلسطین پہ تعاون مانگا ہی کس نے ہے؟
سات اکتوبر کی جنگ کے بعد جب غزہ میں جنگ کے شعلے بھڑکے تو ملائشین قیادت اسرائیل کے خلاف بہت تیز و تند بیانات دے رہی تھی اور مسلم ممالک سے اپنا کردار ادا کرنے کا کہہ رہی تھی، مگر کچھ دنوں کے بعد وہ خاموش ہو کر بیٹھ گئی . یقیناً اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ عرب اب بھی اسے صرف اور صرف عربوں کا معاملہ ہی سمجھتے ہیں.
ہمارے سامنے افغانستان، بوسنیا اور آذربائیجان کی مثالیں بھی ہیں. چونکہ یہ ممالک عرب سرزمین کا حصہ نہیں تھے، اس لیے وہاں پاکستان اور ترکی نے دکھا دیا کہ یہ دو ممالک اپنی حد میں اپنی بساط کے مطابق کیا کچھ کرسکتے ہیں. سکیورٹی کونسل وغیرہ میں مسلم ممالک کی جانب سے کوئی توانا آواز سنائی نہیں دے رہی. یہ پاکستان کی منمناہٹ ہے جو کبھی کبھار ابھرتی ہے تو سکوت کی چادر لرزش کھاتی ہے. جیسا کہ کل پاکستانی مندوب نے غزہ پہ نہایت جاندار موقف دیتے ہوئے سکیورٹی کونسل کے وجود پہ ہی سوالیہ نشان لگا دیا ہے . فوج کی سب سے باوقار بیٹھک کور کمانڈر کانفرنس میں فلسطین سے یکجہتی کی بات ہونا بھی غیر اہم نہیں ہے. عربوں کی رضامندی کے بغیر پاکستان اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا. اگر پاکستان عربوں کو اعتماد میں لیے بغیر فلسطین کے لیے کوئی نمایاں کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگلے ہی لمحے سعودی عرب شہد سے میٹھی اور ہمالیہ سے بلند دوستی پہ خطِ تنسیخ کھینچ دے گا. کھیل اتنا سادہ نہیں جتنا کہ نظر آرہا ہے.
تبصرہ لکھیے